ایک زمانے سے چودھری صاحب پورے علاقے پر اکیلے ہی راج کر رہے تھے۔ کوئی روکنے والا تو کیا ہوتا‘ ٹوکنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی گھر کو برباد کرتے اور دوسری طرف اپنی مرضی سے کسی بھی گھر کو آباد کرتے۔ جس کے لیے چاہتے الجھنیں پیدا کرتے اور جس پر دل آجاتا اُس کے لیے آسانیوں کا اہتمام کرتے۔ وہ اپنے تئیں تمام معاملات کا مالک و مختار سمجھتے تھے۔ اِس حوالے اُن میں شرم تھی نہ احساس۔ ضمیر کی خلش کیا ہوتی ہے‘ یہ بھی چودھری صاحب بھول چکے تھے۔ یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں۔ طاقت کا نشہ انسان کے دل و دماغ سے بہت کچھ یوں مٹا دیتا ہے جیسے بلیک بورڈ پر لکھی ہوئی بات کو ڈسٹر مٹا دیا کرتا ہے۔ اُنہیں اگر کچھ یاد تھا تو بس یہ کہ طاقت ہی سب کچھ ہوتی ہے اور طاقت ہی کی مدد سے دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے، زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورے جاسکتے ہیں۔ جب ان کی چوھراہٹ حد سے گزری تو کچھ ہلچل سی ہوئی۔ بعض کمزوروں نے بھی طاقتور ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور طاقت کے حصول کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ جب بھی کوئی بدمعاش تمام منطقی حدود کو پار کر بیٹھتا ہے تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ جو ایک زمانے سے سب کچھ برداشت کر رہے ہوتے ہیں‘ وہ مل کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور تب بدمعاش کو یاد آنے لگتا ہے کہ سیر کے لیے سوا سیر والی بات یونہی نہیں کہی جاتی۔
چودھری صاحب کو اب محسوس ہونے لگا ہے کہ بدمعاشی اور دھونس‘ دھمکی کی گاڑی زیادہ دور تک نہیں چل پائے گی۔ کسی نے کھل کر للکارنا شروع کیا ہے تو چودھری صاحب کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑگیا ہے، حواس مختل ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ بڑا نازک وقت ہے۔ چودھری صاحب کی الجھن کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ وہ دو سنگین حقیقتوں سے بنی ہوئی تنگ گلی میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف تو یہ دل خراش حقیقت ہے کہ وہ کمزور پڑگئے ہیں اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گئی ہے کہ فریقِ ثانی اپنی طاقت میں اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔ سارا غم محض اس بات کا نہیں کہ اپنی طاقت گھٹ رہی ہے۔ اپنی طاقت میں کمی ہی تک معاملہ محدود رہتا تو وہ رو دھوکر چُپ ہو رہتے، دل کو سمجھا بھی لیتے۔ دُہری مصیبت یہ ہے کہ فریقِ ثانی روز بروز زیادہ طاقتور ہوتا جارہا ہے۔ اُس کے اثرات کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا ہے ۔
چودھری صاحب کی الجھن تو خیر اپنی جگہ، ہر معاملے میں اُن کی ہاں میں ہاں ملانے والے بھی عجیب مخمصے کا شکار ہیں‘ حواس منتشر ہوچکے ہیں۔ جو کچھ اُنہیں دکھائی دے رہا ہے وہ سمجھ میں تو آرہا ہے مگر کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے میں اُن کی مدد نہیں کر رہا۔ ایسے میں وہ فیصلہ ہی نہیں کر پارہے کہ کسے اپنائیں اور کس سے دور رہیں۔ اگر چودھری صاحب کی حاشیہ برداری کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو اُن کے ناکام ہونے کی صورت میں اپنے لیے مزید مشکلات پیدا ہونے کا احتمال ہے اور اگر فریقِ ثانی کا ساتھ دینے کی طرف جاتے ہیں تو چودھری صاحب ناراض ہوتے ہیں۔ ان کی ناراضی بھی مول نہیں لی جاسکتی کیونکہ کمزور پڑنے پر بھی وہ خاصے طاقتور ہیں۔ بیشتر معاملات‘ علامتی طور پر ہی سہی‘ اب تک اُن کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں کسی ایک معاملے کو الجھاکر اُس سے متعلق دوسرے بہت سے معاملات میں بھی خرابی پیدا کردیتے ہیں۔ اِسے کہتے ہیں ع
ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے
یہ روش بھی بدمعاش کے بہت کمزور پڑ جانے کی علامت اور دلیل ہے یعنی کھیل نہیں پاؤں گا تو کھیلنے بھی نہیں دوں گا، پھر میدان ہی کو اس قابل نہ چھوڑوں گا کہ اِس میں کچھ کھیلا جاسکے۔ چودھری صاحب کے مزاج کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو بھی طاقت کے زُمرے میں رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اگر حواریوں میں سے کوئی دبے الفاظ میں اُنہیں خامیوں اور کمزوریوں کی طرف متوجہ کرنا بھی چاہے تو وہ جھڑک دیتے ہیں، چُپ رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی کمزوریوں کے بارے میں چُپ رہنے ہی میں اُن کی جیت چھپی ہوئی ہے۔ ایک زمانے تک بدمعاشی کی دکان چلاتے چلاتے یہ تو انہیں معلوم ہو ہی چکا ہے کہ بدمعاشی میں ایک بنیادی کردار پروپیگنڈے کا بھی ہوتا ہے۔ کوئی بھی بدمعاش اُتنا بڑا نہیں ہوتا جتنا بڑا اُسے ہاں میں ہاں ملانے والے اور خوفزدہ رہنے والے مل کر بنا دیتے ہیں۔ اب یہ ان کا نصیب کہیے کہ ایک طرف تو اُنہیں حواری پیٹ بھر کر ملے اور دوسری طرف اُن سے ڈرنے والے بھی ایسے ہیں کہ بات بات پر ڈرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔
حاشیہ بردار آکاس بیل کی طرح ہوتے ہیں یعنی خود کچھ نہیں کرتے، اُس کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں جس کی چودھراہٹ چل رہی ہو۔ اُن کا کام صاحب کی ساکھ یعنی بدمعاشی کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ اِسی کام کے صلے میں تو ہی اِن پبلسٹی منیجرز کو پالا جاتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ بہت کچھ محض پروپیگنڈے کے محاذ پر ہو رہا ہے۔ چودھری صاحب کے حواری اُن کی دھاک بٹھائے رکھنے کے لیے منہ سے فائر کر رہے ہیں، بڑھک اور جگت کی توپیں داغ کر سب کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چودھری صاحب میں اب بھی بہت دم خم ہے، اُنہیں کمزور تصور نہ کیا جائے وگرنہ وہ جلال میں آجائیں گے۔ میڈیا کے محاذ پر توپیں داغ کر نفسی برتری کی جنگ جیتنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ انہیں خود بھی معلوم ہے کہ پُل کے نیچے سے اچھا خاصا پانی گزر چکا ہے مگر پھر بھی وہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر چودھری صاحب کی کمپنی کی مشہوری کے لیے کام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اُنہیں محبت صرف اپنے مفادات سے ہے۔ جیسے ہی حالات کی کوکھ سے کوئی نیا چودھری برآمد ہوگا‘ یہ سارے حواری چپکے سے ادھر کھسک لیں گے۔ اور وہ ایسا کیوں نہ کریں کہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ صدیوں تک چھوٹے چودھریوں کی چودھراہٹ کے تفاعل سے پیدا ہونے والے ایک بڑے چودھری کا بھرپور عہد دیکھنے اور بھگتنے کے بعد اب ایک نئے چودھری کی بڑھتی ہوئی طاقت اور شان و شوکت کے عینی شاہد ہیں۔ ایک چودھری کی چودھراہٹ تو ہم نے دیکھی اور خوب جھیلی۔ بہت دعائوں کے بعد مارکیٹ میں نیا چودھری آیا ہے۔ یہ نیا چودھری اب تک تو خاصا نرم خو رہا ہے۔ وہ لڑنے بھڑنے پر یقین رکھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اِس روش کو ہم اپنی دعاؤں کا ثمر سمجھیں؟ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ نئے چودھری کے ساتھ مل کر چلیں، اُس سے بناکر رکھیں تاکہ اُس کی بڑھتی ہوئی طاقت سے ہمیں بھی کچھ ملے‘ لیکن ایسا کچھ جو حقیقت پسندی کا مظہر بھی ہو اور عزتِ نفس کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت بھی بنے۔
موجودہ چودھری کے اتحادیوں میں ہم بھی رہے ہیں مگر ہمارا معاملہ بیشتر صورتوں میں سرد و گرم رہا ہے۔چودھری صاحب ہم سے بہت دور رہتے ہیں مگر پھر بھی ہم اُن سے ہر عہدِ وفا نبھانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس کے باوجود جغرافیائی اور نظریاتی فاصلوں نے ہمیں کبھی چودھری صاحب کی نظر میں اہمیت کا حامل ہونے نہیں دیا۔ اب تک کا تجربہ کہتا ہے کہ مرغی جان سے گئی اور کھانے والے کو مزہ نہ آیا۔ خوش نصیبی کا پہلو یہ ہے کہ نیا چودھری محض ہمارے علاقے سے ہی نہیں ہے بلکہ ہم سے سٹا ہوا بھی ہے۔ دانش کہتی ہے کہ اِسے اپنایا جائے اور یہ عمل محض حواری بن کر نہیں‘ بلکہ کماحقہٗ اخلاص کے ساتھ کیا جائے۔ گنجائش رکھی جائے کہ نیا چودھری کچھ غلط کرے تو بروقت نشاندہی کی جائے، دوستی کو اختلافِ رائے کے احترام سے مزین رکھا جائے۔