تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     10-12-2021

محتسب کی خیر ہو

اردو کے شاعروں اور محتسبوں کی آپس میں ہمیشہ ٹھنی رہی ہے۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ
محتسب کی خیر‘ اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا‘ ساقی کا‘ مے کا‘ خُم کا‘ پیمانے کا نام
شاعرِ خمریات ریاض خیر آبادی کے اشعار پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ رند بلا نوش تھے اور اُن کی وضع قطع اور زندگی کے شب و روز پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ وہ تو زاہد شب زندہ دار تھے۔ دیکھئے وہ بھی کیسے محتسب سے چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں:
چھیڑ ساقی کی ہے‘ دیتا جو نہیں جام ریاض
توبہ کی ہے نہ کبھی ہم نے قسم کھائی ہے
آیا جو محتسب تو بنی رزم‘ بزمِ مے
مجروح خم‘ شہید ہمارا سبو ہوا
اور تو اور ''شاہنامہ اسلام‘‘ اور قومی ترانہ لکھنے والے شاعر جناب حفیظ جالندھری بھی محتسبوں کے بارے میں اردو شاعری کی اسی روایت کے پابند دکھائی دیتے ہیں:
کچھ محتسب کا خوف ہے کچھ شیخ کا لحاظ
پیتا ہوں چھپ کے دامنِ ابرِ بہار میں
تاہم جس کا میں آج تذکرہ کرنے والا ہوں اس کی شاعروں سے نہیں قانون شکنوں سے ٹھنی ہوئی ہے۔ وفاقی محتسب سے میری کبھی ملاقات تو نہیں ہوئی مگر ان کی کارکردگی کے بارے میں بہت کچھ اچھا سنا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں قدم قدم پر سائلین کو اپنے جائز کاموں کیلئے دھکے کھانے پڑتے ہوں‘ سرکاری دفتروں میں کوئی ان کی بات نہ سنتا ہو وہاں اگر ایسا نظام موجود ہو کہ بغیر کسی سفارش‘ بغیر کسی نذرانے اور بغیر کسی تعارف کے ہر حیثیت کے بندے کی شنوائی ہوتی ہو تو یہ ایک خوشگوار اور قابل قدر بات ہے۔
تھانوں‘ کچہریوں‘ دفتروں اور چھوٹے بڑے سرکاری اداروں کے ستائے ہوئے لوگوں کو اگر یہ سہولت میسر ہو کہ مایوسی کے ان لمحات میں کوئی اُن کی بات توجہ سے سنے گا‘ اُن کی دل جوئی کرے گا اور ایک خودکار بشری نظام سائل کا مسئلہ حل کرنے کے لیے تیزرفتاری سے کام شروع کر دے گا تو یہ بظاہر وطن عزیز میں ایک ناقابل یقین سی سہولت ہے۔
ہم کالم نگار اکثر اوقات حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کو نشانۂ تنقید بناتے رہتے ہیں‘ اس کارروائی میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ تاہم بعض اوقات چند اچھے اداروں کی حسن کارکردگی دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ وفاقی محتسب نے صدرِ پاکستان کو اپنے ادارے کی جو رپورٹ پیش کی وہ خاصی حوصلہ افزا ہے۔ رپورٹ کے مطابق احتساب کے ادارے میں بندئہ مظلوم و مجبور کی شنوائی ہو رہی ہے۔
1983ء میں جب اس ادارے کا قیام عمل میں آیا تو 7812 شکایات درج ہوئیں جبکہ سال 2020ء کے دوران تقریباً ایک لاکھ 33 ہزار شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ 1983ء میں صرف اسلام آباد میں وفاقی محتسب کا سیکرٹریٹ تھا اور اس کا سالانہ بجٹ برائے سال 1983-84ء صرف ساڑھے گیارہ ملین تھا۔ گزشتہ سینتیس اڑتیس برس کے دوران اسلام آباد ہیڈ آفس کے علاوہ پاکستان کے چاروں صوبائی ہیڈکوارٹرز سمیت بڑے بڑے شہروں میں تیرہ علاقائی دفاتر بھی قائم کیے گئے۔ سال 2021-22ء میں کل بجٹ 837 ملین ہے۔ مجھے ادارۂ احتساب کے بارے میں ایک دل خوش کن مگر بظاہر ناقابل یقین سی خبر ملی تو دل سے صدا آئی کہ
ایسی چنگاری بھی یا رب! اپنی خاکستر میں تھی
موجودہ وفاقی محتسب نے گزشتہ چھ برس کے دوران عوام الناس کی سہولت کیلئے مختلف سرکاری اداروں کے نظام کو درست کرنے کی خاطر متعدد کمیٹیاں قائم کی ہیں جن میں اپنے اپنے شعبے کے ماہرین نے بلامعاوضہ شرکت کرکے اداروں کے نظام کی درستی کیلئے قابل عمل سفارشات پیش کیں۔ ادارئہ احتساب نے پاکستانی عوام کو اُنکے گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کیلئے ایک ایسا نظام بھی وضع کیا ہے جس کے مطابق انویسٹی گیشن افسران قریبی ضلع اور تحصیل ہیڈکوارٹرز میں جا کر کھلی کچہریاں لگاتے ہیں اور شکایت کنندگان کے گھر کے قریب اُنکی شکایات کی سماعت کرتے ہیں۔ یہ ادارہ جیلوں کی حالت درست کرنیکی طرف بھی توجہ دے رہا ہے۔ یہ ادارہ جیلوں کی ابتر صورتحال میں اصلاح کیلئے کوشاں ہے۔
سول سروس سے ریٹائر ہونے والے وفاقی محتسب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اہم نوعیت کی انتظامی ذمہ داریوں پر فائز رہے ہیں۔ اس تعلیم و تجربے کے علاوہ اللہ نے انہیں انسانی ہمدردی اور دردمندی کا جذبہ بھی عطا کیا ہے۔
جون 2021ء میں محتسبین کی ایک کانفرنس صدرِ پاکستان جناب عارف علوی کی زیر صدارت منعقد ہوئی تھی۔ اس میں وفاقی محتسب‘ وفاقی ٹیکس محتسب‘ خواتین کی ہراسانی کے خلاف خاتون محتسب‘ بینکنگ محتسب اور وفاقی انشورنس محتسب نے اپنے اپنے ادارے کی کارکردگی پیش کی اور یہ بتایا کہ سرکاری محکموں کی ناقص کارکردگی کے ہاتھوں پریشاں حال لوگوں نے کتنی تعداد میں ان اداروں سے رجوع کیا اور کتنے لوگوں کو حقیقی معنوں میں ریلیف دلوایا گیا۔ احتساب کے اداروں کی کثرت سے واضح ہوتا ہے کہ سرکاری محکمے کماحقہ اپنے فرائض انجام نہیں دیتے۔ اعتراف کسی درجے میں ہو اس کی تحسین واجب ہے۔ صدرِ پاکستان جناب عارف علوی نے محتسب اداروں کی طرف سے سرکاری محکموں کی بدانتظامی اور خراب کارکردگی کے خلاف غریب عوام کو فوری اور مفت انصاف فراہم کرنے پر محتسبین کی کارکردگی کو سراہا۔
صدرِ پاکستان اور پی ٹی آئی کی اصل کامیابی تو یہ تھی کہ وہ سرکاری اداروں کی مکمل نہ سہی جزوی اصلاحات کی بنیاد رکھتے اور پولیس‘ محکمہ مال اور عدالتی نظام میں دوررس تبدیلیوں کا آغاز کر دیتے۔ معاشی‘ معاشرتی‘ طبی اور تعلیمی اصلاحات کی ابتدا تو کر دی جاتی تاکہ ستر سالہ خرابیوں اور بیماریوں کا کچھ تدارک تو شروع ہوجاتا۔ مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ البتہ ان حالات میں وفاقی محتسب جیسے اداروں کا وجود بہت غنیمت ہے۔ عام آدمی کے لیے وکیلوں کی بھاری فیسیں دینا ممکن نہیں۔ ہر شریف آدمی اپنے جائز کام کے لیے تھانے جاتے ہوئے تھرتھر کانپتا ہے کہ نہ جانے اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا اور تھانے سے لوٹتے ہوئے اس کی ''عزتِ سادات‘‘ بھی واپس آپائے گی یا وہیں رہ جائے گی۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید دنیائے علم و ادب کی معروف و ممتاز شخصیت ہیں۔ آپ مصنف بھی ہیں‘ محقق بھی ہیں‘ نقاد بھی ہیں اور مشاعرہ لوٹ لینے والے شاعر بھی ہیں۔ اوپن یونیورسٹی کے بعد آپ نے نیشنل بک فائونڈیشن کی حسن کارکردگی کو چار چاند لگائے اور جدید طباعت کے زیور سے آراستہ علمی و ادبی کتب کی اشاعت اور انہیں قارئین بالخصوص نسل نو تک پہنچانے کا خاص اہتمام کیا۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید مزاحیہ شاعر مگر نہایت سنجیدہ منتظم ہیں۔ اب وہ وفاقی محتسب ادارے میں بطور بحالیاتی کمشنر برائے اوورسیز پاکستانیز خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہم خود بھی دو دہائیوں سے اوپر سمندرپار پاکستانی رہے ہیں اس لیے ہمیں اندازہ ہے کہ ہردم وطن کے لیے بے قرار اور اس کی تعمیرو ترقی کے لیے دعاگو رہنے اور ملکی معاشی خوشحالی کے لیے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالنے والوں کے اپنے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے وفاقی ادارے کی کاوشیں بھی قابل قدر ہیں۔
ہم دعاگو ہیں کہ محتسب کی خیر ہو اور وہ اس کارخیر سے مجبورو مظلوم لوگوں کی مدد کا فریضہ مزید لگن سے انجام دیتے رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved