تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     29-07-2013

شام کی صورت حال اور پاکستان

میں جب فروری 1975ء میں قاہرہ سے دمشق پہنچا تو وہاں برفانی ہوائیں چل رہی تھیں؛ البتہ شامی حکومت اور عوام میں پاکستان کے بارے میں خاصی گرم جوشی تھی۔ اس کی چند ایک ٹھوس وجوہ تھیں۔ 1973ء کی جنگ میں بھٹو حکومت نے ڈٹ کر عربوں کا ساتھ دیا۔ جنگ کے فوراً بعد ہماری فضائیہ کے پائلٹ وہاں تربیتی مشن پر بھیجے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور حافظ الاسد کی ذاتی دوستی مضبوط ہوتی گئی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1980ء میں پی آئی اے کے طیارہ کے اغوا کے بعد مرتضیٰ بھٹو دمشق چلے گئے تھے۔ بھٹو اور حافظ الاسد کا دور سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ دونوں لیڈر سوشلسٹ ہونے کے دعوے دار تھے۔ ذہنی طور پر دونوں سیکولر تھے۔ آج کی دنیا بہت بدل چکی ہے۔ پاکستان کی یہ شروع سے پالیسی رہی ہے کہ اگر عربوں میں آپس میں تنازعہ ہوجائے تو اس سے دور رہا جائے یعنی فریق بننے سے پرہیز کیا جائے۔ آج سے ڈھائی سال قبل جب شام میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تو پاکستان نے نئی صورتحال کو شام کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ پاکستانی پوزیشن اصولی طور پر صحیح تھی لیکن ارضی حقیقتیں کچھ ایسی تھیں کہ پاکستان پر دبائو بڑھنے لگا۔ پاکستان کے دو قریبی دوست ملک شامی اپوزیشن کی مدد کررہے تھے جبکہ ایران اور چین شامی حکومت کی حمایت میں یکسو تھے۔ آج کے شام کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ خانہ جنگی نے ہڑپ کرلیے ہیں۔ روزانہ شام میں کربلا بپا ہوتی ہے۔ ساٹھ لاکھ لوگ ملک کے اندر دربدر پھر رہے ہیں۔ بیس لاکھ نے ہمسایہ ممالک یعنی ترکی، لبنان اور اردن میں پناہ لی ہے۔ عمارتیں گولیوں سے چھلنی ہیں۔ محلے کے محلے صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ حکومت نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف توپوں، ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کا استعمال کیا ہے۔ بے دریغ بمباری کی ہے۔ مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ شام کی صورتحال پاکستان کے لیے عجیب مخمصہ ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا پاکستان اصولی طور پر عرب تنازعات سے دور رہتا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک شامی اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ بیرونی ہاتھ کسی بھی ملک میں اکثر خطرناک کھیل کھیل جاتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بیرونی ہاتھ تھا اور بلوچستان کی موجودہ صورتحال میں بھی درپردہ باہر سے مدد ہورہی ہے۔ بین الاقوامی سیاست خوبصورت جملوں اور حسین مسکراہٹوں کا نام ہی نہیں‘ یہ انتہائی بے رحم بھی ہوسکتی ہے۔ مغربی ممالک نے 2011ء میں شام کے حوالے سے چند ممالک کا گروپ ترتیب دیا جسے FRIENDS OF SYRIA یعنی شام کے دوست ممالک کا نام دیا گیا۔ یہ ہم خیال ممالک شامی اپوزیشن کی حمایت کے طریقوں پر غور کرتے تھے۔ باوجود دبائو کے پاکستان نے اس گروپ کی کسی میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ یہاں یہ بات بھی محل نظر رہے کہ دو تین برادر مسلم ممالک ایسے اجلاسوں میں پیش پیش رہے۔ البتہ پچھلے سال او آئی سی میں پاکستان نے لچک کا مظاہرہ ضرور کیا۔ مکہ مکرمہ میں اسلامی تنظیم کا سربراہی اجلاس بلایا گیا جس کا یک نکاتی ایجنڈا بشار الاسد کی حکومت کو اسلامی تنظیم کی ممبر شپ سے معطل کرنا تھا۔ اسلامی تنظیم میں سعودی عرب کا اثر رسوخ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں ایران خاصی حد تک تنہا نظر آیا۔ پاکستان نے شامی ممبر شپ کی معطلی کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح سے اپنی پوزیشن ایک حد تک تبدیل کرلی۔ شام کی خانہ جنگی اب علاقائی جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ لبنان سے حزب اللہ ملیشیا کے لوگ شامی حکومت کی عسکری مدد کررہے ہیں۔ ترکی کی جانب سے اپوزیشن کو فوجی مدد مل رہی ہے۔ یہ جنگ ایران اور خلیجی ممالک کے مابین بالواسطہ میدان کارزار یعنی PROXY WAR ہے جس میں جانی نقصان اکثر بے گناہ لوگوں کا ہورہا ہے۔ پورا خطہ اضطراب کی حالت میں ہے۔ پاکستان چونکہ اپنے گوناگوں مسائل میں گھرا ہوا ہے لہٰذا شروع میں تو کافی عرصہ شام کی جنگ ہمیں کسی دور دیس کی لڑائی لگتی تھی لیکن جیسے ہی سیدہ زینبؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے مزاروں پر گولے گرے ہمیں محسوس ہوا کہ یہ خون آشام تباہی ہمارے گھر کی بربادی ہے اور بجلی ہمارے ہی آشیانے پر گری ہے۔ شام کے بارے میں ایک بین الاقوامی امن کانفرنس پچھلے سال جنیوا میں ہوئی تھی۔ وہاں طے پایا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر عبوری حکومت بنائیں گی۔ عبوری حکومت ان حالات میں کیسے بنتی‘ جب دونوں گروہ دست بگریبان ہوں تو مشاورت کیسے ہوسکتی ہے۔ اب دوسری جنیوا کانفرنس کی تیاریاں ہورہی لیکن دونوں اطراف کا رویہ بہت ہی سخت ہے۔ بشار الاسد مُصر ہیں کہ وہ اپنی مدت پوری کرکے ہی چھوڑیں گے۔ بلکہ موصوف اگلے سال دوبارہ انتخاب بھی لڑنا چاہتے ہیں جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ صدر پہلے اپنے جانے کا اعلان کریں تب وہ جنیوا کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اقتدار بھی عجیب شے ہے دراصل بشار الاسد کے اردگرد لوگ گزشتہ 43 سال سے سیاہ سفید کے مالک ہیں۔ اقتدار سے علیحدگی ان کے لیے ایک بھیانک خواب سے کم نہیں مگر اس رسہ کشی میں نقصان سراسر عوام کا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ پچھلے دنوں ایک بڑے فعال قسم کے پاکستانی بھائی سے اسی موضوع پر لمبی بحث ہوئی۔ وہ فرمانے لگے کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کو شامی عوام کا ساتھ دینا چاہیے اور براستہ ترکی انسانی اور عسکری مدد فراہم کرنی چاہیے۔ وہ پچھلے دنوں ترکی اور شام کے شمالی علاقوں سے ہو کر آئے ہیں۔ ہولناک تباہی کا نقشہ بڑی تفصیل سے انہوں نے بیان کیا۔ کہنے لگے کہ حکومت پاکستان کو شامی عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ لیکن میں نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک سے ہتھیار آنے کے بعد شام میں مزید تباہی پھیلے گی۔ پاکستان کو اس خون ریز جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ لیکن ہمیں اس بات کا ادراک بھی کر لینا چاہیے کہ ایک لاکھ عوام کو قتل کرنے والی شامی حکومت اپنا اخلاقی اور قانونی جواز کھو بیٹھی ہے۔ شام اب مزید تباہی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سابق حکومت پرانی وفاداریاں نباہ رہی تھی۔ یہی غلطی ہم نے لیبیا میں بھی کی۔ اب پاکستان میں نئی حکومت کو اپنی پالیسی کو تھوڑا سا تبدیل کرنا چاہیے جس سے یہ لگے کہ ہم خانہ جنگی کا حصہ بھی نہیں لیکن شام کی صورتحال سے لاتعلق بھی نہیں۔ پاکستانی حکومت مندرجہ ذیل تجاویز پر غور کرسکتی ہے۔ (1) شامی عوام کو امدادی سامان بذریعہ ترکی اور اردن بھیجا جائے جو صرف مہاجرین کے لیے ہو اور صرف غذا، ادویہ، خیموں اور کمبلوں پر مشتمل ہو یعنی اس میں فوجی نوعیت کا سامان نہ ہو۔ (2) دمشق سے اپنے سفیر کو عارضی طور پر بلا لیا جائے۔ (3) ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ شامی مسئلے پر باقاعدگی سے مشاورت کی جائے۔ (4) بغیر تشہیر کے شامی اپوزیشن کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے۔(5) شامی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مزید خون ریزی سے روکا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved