تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     10-12-2021

وکٹ،آئوٹ اور جنرل راوت

''اڑھائی محاذ‘‘ سننے میں ایک عجیب اور دلچسپ اصطلاح معلوم ہوتی ہے، دو یا تین کا لفظ استعمال ہو تو بات سیدھی اور صاف‘ آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے مگر لفظ استعمال کیا گیا اڑھائی کا۔ یہ جولائی 2017ء کی بات ہے جب اس وقت کے انڈین آرمی چیف نے یہ بیان دیا تھا کہ بھارت اڑھائی محاذں پہ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ الفاظ کہنے والا کوئی اور نہیں‘ بدھ کو ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو جانے والا بھارت کی مسلح افواج کا سربراہ جنرل بپن راوت تھا۔ اس حوالے سے آپ روزنامہ دنیا کے 9 جولائی 2017ء کے ادارتی صفحے پر راقم کا کالم دیکھ سکتے ہیں۔ میرے لیے یہ الفاظ بہت زیادہ حیران کن تھے کیونکہ اس قسم کا بیان تو شاید پولیس کا کوئی سربراہ بھی نہیں دیتا‘ وہ تو پھر دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے ملک اور دنیا کی دوسری بڑی آرمی کا سربراہ تھا مگر اس کی بات تلخ مگر حقائق پر مبنی تھی کیونکہ یہ اس کا ذاتی تجربہ، مشاہدہ اور معلومات کی بنیاد پر کیا گیا تجزیہ تھا۔ اس بیان کی تشریح یا تفصیل میں جائیں تو اس نے ایک محاذ پاکستان، دوسرا چین اور آدھا محاذ بھارت کے اندر چلنے والی مسلح علیحدگی پسند تحریکوں کو قرار دیا تھا۔ اگر آپ میڈیا پر چلنے والی علاقائی اور عالمی خبروں کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے ہیں تو آپ کو علم ہو گا کہ اس بیان سے تھوڑا پہلے اور پھر بعد میں بھی‘ بھارتی آرمی کی پستی کی خبریں ہر طرف سے موصول ہو رہی تھیں۔ بھارتی فوجیوں کی متعدد وڈیوز سامنے آئیں جن میں وہ اپنی ابتر صورتِ حال اور کرپشن کا رونا روتے دکھائی دیتے تھے۔ حالات اب بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ آئے دن بھارتی فوجیوں کی خود کشی کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں اور سب سے بڑھ کر‘ تقریباً ایک سال سے چین کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی‘ یہ سارے واقعات آنجہانی جنرل کے بیان کی توثیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر جنرل راوت کے بیان کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے قدرے محتاط بیان دیا تھا کیونکہ بھارتی آرمی کی حالت تو پنجاب پولیس کی طرح ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال بھارت کی طفیلی ریاست سمجھے جانے والے ملک نیپال نے تقریباً چار سو مربع کلومیٹر کے بھارتی زیر قبضہ علاقے پر اپنا حق ہونے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ نیا نقشہ بنا کر‘ اپنی پارلیمنٹ سے منظور کروا کر سرکاری طور پر جاری بھی کر دیا تھا۔ بھارت اور اس کی فوج چپ چاپ دیکھتے ہی رہ گئے۔ رواں سال چین کے دو سو فوجی گھوڑوں پر سوار ہو کر بھارت کے اندر کئی کلومیٹر تک گھس گئے، انہوں نے بھارت میں کئی گھنٹے گزارے اور واپسی پر‘ نشانی کے طور پر‘ ایک پل بھی تباہ کر گئے۔ اس سے پہلے‘ گزشتہ سال چین کی فوج نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مشرقی علاقے لداخ میں کئی کلومیٹر تک اندر گھس کر نہ صرف بھارتی فوج کی خوب ٹھکائی کی بلکہ بیس سے زائد بھارتی فوجی ڈنڈے مار مار کر مار دیے اور کئی کلومیٹر علاقے پر قبضہ بھی کر لیا‘ جو تاحال چین کے زیر قبضہ ہے۔ چینی فوج نے وہاں پر اپنے بنکر بھی قائم کر لیے ہیں۔ اس کے علاوہ بھوٹان کی سرحد کے قریب ڈوکلام کے علاقے میں بھی متعدد جھڑپوں میں چین کے فوجیوں نے بھارتی فوجیوں کی خوب ٹھکائی کی اور ایک مطلوبہ سڑک بنا کر دم لیا۔ اسی طرح اروناچل پردیش کی سرحد کے قریب بھی چینی فوج نے ایک گائوں بھارت کی سرحد کے اندر گھس کر آباد کیا جس کی سیٹلائٹ تصویریں بھی جاری ہو چکی ہیں۔ اس علاقے میں چین کے فوجی داخل ہوتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں اور کچھ پتھر وں پر یہ تحریر کندہ کر کے چلے جاتے ہیں کہ یہ علاقہ اب ہمارا ہے۔ اس ساری صورتحال پر بھارت کی فوج بے بس نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں سب سے اہم بات گزشتہ ماہ جاری ہونے والی وہ تصویریں اور وڈیوز ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارتی فوجیوں کو مار پڑنے کے بعد‘ ان کی مرہم پٹی کرنے کے بعد‘ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر چینی فوجی سہارا دیتے ہوئے انہیں بھارتی سرحد کی طرف چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ چند ایک تصویروں میں بھارتی فوجیوں کو زمین پر بٹھا کر کان پکڑوانے کے مناظر قید ہیں۔ یہ تصویریں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید پنجاب پولیس نے آوارہ گردی کے الزام میں کچھ منچلے گرفتار کیے ہیں اور ان کو سبق سکھانے کے لیے اس طرح بٹھا کر تصویریں اتاری جا رہی ہیں۔
ہیلی کاپٹر حادثے میں جنرل بپن‘ ان کی اہلیہ اور عملے کے دیگر 11 افراد کی ہلاکت کی خبر سے بھارت کے دوسرے وزیراعظم لال بہادر شاستری کی جنوری 1966ء میں تاشقند میں ایک انتہائی مشکوک حالت میں ہلاکت کی یاد آتی ہے۔ شاستری کی ہلاکت کے بعد جب اس کی میت بھارت کے حوالے کی گئی تو بھارت میں اس کا پوسٹ مارٹم تک نہیں کرایا گیا حالانکہ اس کے جسم پر زخموں کے کئی نشان تھے جن سے خون رس رہا تھا اور جسم کئی جگہ سے نیلا اور کالا پڑ چکا تھا، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کو زہر دے کر مارا گیا تھا حالانکہ سرکاری طور پر یہی اعلان کیا گیا تھا کہ شاستری کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔ موت کی وجہ جو بھی ہو‘ لاش کا پوسٹ مارٹم نہ کروایا جانا اس سارے معاملے کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ شاستری کی موت کے وقت دو ہی لوگ اس کے ہمراہ تھے، ایک ذاتی ڈاکٹر اور ایک ملازم، ڈاکٹر‘ جو وزیراعظم شاستری کی موت کو مشکوک کہتا تھا‘ اپنی فیملی کے ساتھ ایک کار حادثے میں مارا گیا۔ دوسرا شخص بھی ایک حادثے کا شکار ہوا‘ جس میں وہ بچ گیا‘ اس کے بعد دوبارہ اس کا ایک ایکسیڈنٹ ہوا جس میں وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو گیا۔ بھارت میں ''تاشقند فائلز‘‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی جا چکی ہے جس میں تمام حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں واضح طور پر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ لال بہادر شاستری کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا تھا۔ سوویت یونین میں مرنے والے شاستری کی موت کا ذکر اس لیے بھی ضروری بلکہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ روسی صدر پیوٹن نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کیا۔ پیوٹن نے بھارت کو ایک انتہائی اہم‘ یہ پیغام دیا ہے کہ بھارت وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا بند کر دے۔ پیوٹن نے بھی‘ جنرل راوت کی طرح‘ بھارت کو ایک انتہائی پُرمغز پیغام دیا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں مشرق اور مغرب سے تعلقات نبھانے کی کوشش نہ کرے‘ یعنی دو کشتیوں کا سوار نہ بنے۔ وجہ بڑی صاف ہے کہ چین کے علاوہ روس کے بھی امریکا سے تعلقات اچھے نہیں چل رہے۔ یوکرائن کے ساتھ کشیدگی کے باعث یورپ اور امریکا روس کو کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بھارت محض روس سے اسلحہ خریدنے کی آڑ میں دونوں متضاد طاقتوں سے اچھے تعلقات کا خطرناک کھیل رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کر کے وہ روس کو راضی کر لے گا۔
واپس آتے ہیں بھارتی فوج کی طرف‘ تو بھارت کے خلاف ایک اور آواز جنوبی ایشیا کے ایک چھوٹے سے ملک سے اٹھ رہی ہے۔ مالدیپ‘ جو جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا سا مسلم ملک ہے اور جو بے شمار جزائر پر مشتمل ہے‘ کی سکیورٹی بھارتی آرمی نے سنبھالی ہوئی ہے مگر اب وہاں عوام مظاہرے کر رہے ہیں کہ بھارتی فوج ان کے ملک سے نکل جائے۔ یہ مظاہرے ایک تحریک کے زیرِ اثر کیے جا رہے ہیں اور اس تحریک کا نام کرکٹ کی ایک اصطلاح پر رکھا گیا ہے اور وہ ہے ''انڈیا آئوٹ‘‘۔
ماضی میں سری لنکا کے اندر جاری تامل علیحدگی پسند تحریک کو بھارتی فوج اور حکومت ہر طرح سے مدد فرہم کرتی رہی مگر اس کا انجام بھارت کی ناکامی اور ہزیمت پر ہوا تھا۔ بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے ایک بار سری لنکا کا دورہ کیا تو فضائی اڈے پر موجود سلامی دینے والے دستے کے ایک فوجی نے اپنی بندوق کا بٹ وزیراعظم راجیو کی پشت پر پورے زور سے دے مارا تھا۔ اس وقت تو راجیو گاندھی بچ گیا تھا مگر بعد ازاں چنائی کے ایک جلسے میں ایک تامل عورت کے خودکش حملے میں مارا گیا تھا۔ اب ''انڈیا آئوٹ‘‘ تحریک اور صدر پیوٹن کے الفاظ کہ 'وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا بند کرو‘، ان دونوں چیزوں میں مجھے بھارت کیلئے ایک بہت گہرا اور پُرخطر پیغام محسوس ہو رہا ہے۔ ایسے میں جنرل بپن راوت کے ''اڑھائی محاذ‘‘ والے بیان کی گونج اس کی موت کے بعد مزید شدت سے سنائی دے رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved