تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-12-2021

حکومت کی اولین ذمہ داری

کسی بھی حکومت کی جو ذمہ داریاں گنوائی جاتی ہیں اُن میں معاشرے کو درست حالت میں رکھنا اور ملک کی سلامتی یقینی بنائے رکھنا نمایاں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ گھوم پھر کر کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے عوام کے لیے ڈھنگ سے گزر بسر یقینی بنانا۔ اگر عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا ڈھنگ سے اہتمام کرنا ممکن نہ ہو تو ملک ڈھنگ سے چلایا نہیں جاسکتا۔ کوئی بھی ریاست محض قدرتی وسائل کا نام نہیں بلکہ اُس کی اصل قوت تو عوام ہوتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیری روح، ترے جسم سے عبارت ہے
عوام ہی کے زورِ بازو سے ریاست چلتی ہے، پھلتی پھولتی ہے۔ اگر ریاست اپنی انتہائی بنیادی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے یا اُس سے عہدہ برآ ہونے میں دلچسپی ہی نہ لے تو مزید کس بات کی اُمید رکھی جاسکتی ہے؟
پاکستان تحریکِ انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگاکر اقتدار حاصل کیا تھا۔ یہ اُس کے لیے بہت بڑی آزمائش کا معاملہ تھا۔ تحریکِ انصاف کو اس سے قبل خیبر پختونخوا میں حکمرانی کا تجربہ تھا مگر یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ خیبر پختونخوا کی حکومت بہت حد تک سمجھوتے کا نتیجہ تھی۔ مسلم لیگ نواز اگر خیبر پختونخوا میں حکومت نہ بھی بنا پاتی تو کم از کم تحریکِ انصاف کی حکومت ختم کرانے کی پوزیشن میں ضرور تھی مگر اُس نے وفاق میں حکومت چلانے پر زیادہ توجہ دینا مناسب سمجھا تاکہ معاملات قابو میں رہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کل کو یہ کہا جائے آدھی کو چھوڑ پوری کو گئی تو آدھی بھی ہاتھ سے گئی! خیر‘ جو ہوا سو ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اب تحریکِ انصاف کی حکومت کو کیا اور کیسے کرنا ہے۔ عمران خان وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی مدت کے چوتھے سال میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تک وہ معاملات کا جائزہ ہی لے رہے ہیں۔ کسی بھی چیز کو کماحقہٗ سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں! سیاست کے داؤ پیچ سیکھے بغیر میدان میں نکل آنا ایسے ہی حالات پیدا کیا کرتا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ یہ نازک موڑ پر کھڑا ہے‘ دو راہے پر آ چکا ہے۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ حقیقت اِس سے کچھ مختلف بھی نہیں۔ اللہ کا خاص کرم ہے کہ سو طرح کے مسائل سے دوچار ہوکر بھی مملکتِ خداداد سلامت ہے۔ اس کا وجود خطرات سے گھرا ہوا ضرور ہے مگر ہم پھر بھی زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں تو اِسے اللہ کے کرم کے سوا کسی بھی بات سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ جب تحریکِ انصاف نے اقتدار کے میدان میں اپنی اننگز شروع کی تب معاملات کچھ اور تھے اور 2020ء کے آغاز تک کورونا وائرس کی آمد کے ساتھ ہی معاملات کچھ اور ہوگئے۔ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو تلپٹ کردیا۔ ایسا نہیں ہے کہ محض ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کورونا کی وبا سے شدید متاثر ہوئے۔ ترقی یافتہ دنیا بھی کچھ کی کچھ ہوگئی۔ کورونا سے منسوب سب سازشی نظریے ایک طرف‘ حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان بھلا کیونکر مستثنیٰ اور محفوظ رہ سکتا تھا؟ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے لگائے جانے والے لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات نے پاکستان کی معیشت کو بھی تلپٹ کردیا۔ یہ بالکل فطری امر تھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا کی وبا نے حکومت کی کارکردگی کو خطرناک حد تک متاثر کیا۔ معیشت ہی ڈانواں ڈول ہو جائے تو حکومت کیا کرے؟ ایک دنیا تھی کہ کورونا کی وبا سے لڑنے میں اپنا بہت کچھ کھو بیٹھی۔ ایسے میں پاکستان بھلا کیونکر اپنا سب کچھ سلامت رکھنے میں کامیاب ہوسکتا تھا؟ پی ٹی آئی حکومت کے لیے کورونا کی وبا بہت بڑی آزمائش ثابت ہوئی اور وہ اس آزمائش میں قدرے ناکام رہی۔ یہ ہونا ہی تھا۔ ایک طرف تو ناتجربہ کاری تھی اور دوسری طرف حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ معمول سے ہٹ کر کچھ کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ حکومتی معمولات میں شامل ہے وہ بھی ڈھنگ سے انجام دینا ممکن نہ رہا تھا۔ ایسے میں پی ٹی آئی حکومت کو زیادہ مطعون بھی نہیں کیا جاسکتا۔
خیر‘ حکومت کو کورنا کی وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کی روشنی میں شک کا فائدہ دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُس کا محاسبہ کیا ہی نہیں جانا چاہیے۔ جو بلند بانگ انتخابی دعوے اور وعدے کیے گئے تھے وہ تو ایک طرف ہی رہ گئے کیونکہ حالات نے اُن کے ہاتھ پیر باندھ دیے تھے۔ آج کوئی بھی اُن سے یہ نہیں پوچھنا چاہتا کہ وہ لاکھوں مکانات کہاں گئے اور اُن کروڑوں نوکریوں کا کیا ہوا جن کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کورونا کی وبا کے ہاتھوں معیشت کا جو حال ہوا وہ یقینا حکومت کے لیے تھوڑی بہت رعایت و راحت کا سامان کرگیا۔ ہاں! حکومت سے ایک انتہائی بنیادی معاملے پر حساب ضرور طلب کیا جانا چاہیے۔ یہ معاملہ ہے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی سکت سلامت رکھنے کا۔
عام آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابی مہم کے دوران اُس سے جو وعدے کرتی ہے وہ کبھی پورے نہیں کر پاتی۔ اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ انتخابی مہم کے دوران جو کچھ کہا جاتا ہے وہ سبز باغ دکھانے اور بڑھکیں مارنے کے ذیل میں آتا ہے۔ بلند بانگ دعوے ہمیشہ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرکے کیے جاتے ہیں۔ انتخابات کے زمانے میں ہر سیاست دان بے مثال قسم کی بڑھک بازی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے۔ عام آدمی انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی ہر بات کو محض دل پشوری کے کھاتے میں رکھتا ہے۔ اُس کے ذہن میں یہ تصور بالکل واضح ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی کہا جارہا ہے وہ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں انتخابی مہم کا دور عام آدمی کے لیے انتہائی نوعیت کی تفریح کا زمانہ ہوتا ہے۔ سٹیج کے عامیانہ مزاحیہ ڈرامے دیکھنے کے شوقین انتخابی جلسوں میں شرکت کے ذریعے اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں! تفنّن برطرف‘ عام آدمی کے معاملات میں حکومت اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہے کہ لاکھوں مکانات بناکر دینا اور کروڑوں نوکریوں کا اہتمام کرنا پی ٹی آئی کے بس میں نہ تھا۔ کوئی بات نہیں‘ عام آدمی اس کا رونا تو رو ہی نہیں رہا۔ وہ تو حکومت سے شاکی ہے کہ اُس نے دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑوادیے ہیں۔ حکومتی مشینری نے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیے ہیں۔ جن منتخب لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ہے اُنہوں نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ معاملات خود بخود درست ہو جائیں گے۔
حکومت کے پاس اب بھی قانونی طور پر کم و بیش پونے دو سال ہیں۔ اِس مدت کے دوران اسے عوام کو اور کچھ نہ سہی‘ اشیائے خور و نوش کے معقول نرخ تو دینے ہی چاہئیں۔ عام آدمی اِس سے زیادہ چاہتا بھی کیا ہے؟ وہ جانتا ہے کہ حکومت سب کو نوکری نہیں دے سکتی۔ تعلیم کے معاملے میں بھی وہ اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرتا ہے اور صحتِ عامہ کی سہولتوں کے حوالے سے بھی زیادہ پُرامید نہیں رہتا۔ ہاں! وہ حکومت سے اشیائے خور و نوش کے معقول نرخ ضرور چاہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی معقول حد تک کمی کی جانی چاہیے۔ حکومت اور کچھ کرے نہ کرے‘ اتنا تو کرے کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا بہ آسانی ممکن رہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہر چیز کا اختیار حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہوتا‘ بہت سے بیرونی عوامل بھی کارفرما ہیں مگر پھر بھی جو کچھ اس سے ہوسکتا ہے وہ تو ضرور کرے۔ بنیادی اشیائے ضرورت کے معقول نرخ یقینی بنانا ہر سطح کی حکومت کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی کسی بھی طور قابلِ برداشت نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved