ایک دن سی بلاک میں کچھ دستاویزات بلکہ پوری فائل ہاتھ لگ گئی۔ وزارتِ خزانہ شوکت عزیز کے ماتحت تھی۔ انہوں نے وزارتِ زراعت کو ایک نوٹ بھیجا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ امریکہ نے کسی دور میں پاکستان کو PL480 پروگرام کے تحت چند لاکھ ٹن گندم مفت دی تھی۔ اس بارے پوچھا گیا تھا کہ وہ کہاں گئی؟ جواب میں وزارت نے لکھ بھیجا کہ وہ مفت گندم افغانستان کو تحفتاً بھیج دی گئی تھی۔ اس فائل میں کچھ انکشافات بھی کیے گئے تھے۔ فائل کے مطابق جب امریکی صدر بل کلنٹن نے مارچ 2000ء میں پاکستان کا دورہ کیا تو جنرل مشرف سے ہونے والی ان کی ملاقات میں ایک ایشو اٹھایا گیا کہ ایف سولہ طیارے بنانے والی امریکی کمپنی کو پاکستان برسوں پہلے چھ سو ملین ڈالرز کے قریب ایڈوانس ادائیگی کر چکا ہے لیکن امریکی پابندیوں کے بعد وہ طیارے‘ جو تیار کھڑے تھے‘ پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا گیا۔ الٹا وہ کمپنی پاکستان سے ان طیاروں کی پارکنگ کا کرایہ بھی مانگ رہی تھی۔ پاکستان کا مطالبہ تھا کہ اگر ایف سولہ نہیں دینے تو ہمارے چھ سو ملین ڈالرز اور اس پر سود ادا کیا جائے۔ بل کلنٹن نے کہا: بات تو درست ہے کہ اگر امریکہ نے ایف سولہ نہیں دینے تو پاکستان کو پیسے واپس کرے۔ بل کلنٹن نے کہا کہ وہ واپس جا کر اس معاملے کو حل کریں گے۔ کچھ عرصے بعد کلنٹن انتظامیہ کے کچھ ذمہ دار لوگوں نے پاکستان سے رابطہ کیا اور ایک نئے معاہدے کی آفر کی گئی جس کے تحت امریکہ نے کہا کہ ہم دو تین سو ملین ڈالرز تو آپ کو نقد واپس کر دیتے ہیں لیکن باقی رقم ہم اُس گندم میں ایڈجسٹ کریں گے جو PL480 کے تحت برسوں پہلے مفت دی گئی تھی۔ امریکہ اپنے اس پروگرام کے تحت ایسے ملکوں کو مفت گندم فراہم کرتا ہے جہاں غذائی قلت کا اندیشہ ہو۔ امریکہ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ان کارگو بحری جہازوں کا کرایہ بھی پاکستان کو چارج کیا جن پر وہ گندم پاکستان بھیجی گئی تھی۔ یوں مل ملا کر اچھا خاصا بل بنا دیا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ گندم اور جہاز کے کرائے کے ریٹ بھی مارکیٹ سے ڈبل لگائے گئے تاکہ زیادہ ڈالرز ایڈجسٹ ہو سکیں۔ باقی جو کچھ بچ رہا تھا تو امریکہ نے کہا کہ ایسا کریں ہمارے ہاں سویابین کی فصل اچھی ہوئی ہے‘ ہم آپ کو ایف سولہ طیاروں کے بدلے سویابین دے دیتے ہیں اور ایف سولہ کی دی گئی رقم سے اس کابل ایڈجسٹ کر لیں گے۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شوکت عزیز اس یکطرفہ معاہدے سے انکار کر دیتے کہ ہم نے آپ کو کیش دیا تھا ایف سولہ کے لیے‘ آپ طیارے دیں یا پورا کیش سود سمیت واپس کریں۔ شوکت عزیز کو چاہئے تھا کہ وہ یہ معاملہ کابینہ میں لے جاتے‘ ساری صورت حال سامنے رکھتے اور جنرل مشرف سے کہتے کہ وہ دوبارہ بل کلنٹن سے بات کریں‘ لیکن انہوں نے یہ تکلیف کرنے کی زحمت نہیں کی۔ شوکت عزیز نے امریکہ کی سب یکطرفہ شرائط مان لیں اور باقاعدہ ایک نیا معاہدہ طے ہوا جس پر اکنامک افیئرز ڈویژن اور دیگر متعلقہ وزارتوں سے دستخط کرا لیے گئے۔ شوکت عزیزکا خیال تھا کہ چلیں دو ڈھائی سو ملین ڈالرز آرہے ہیں اور اس سے وہ اپنے ریزروز یا بیلنس آف پیمنٹ کو کچھ بہتر کر لیں گے‘ لیکن ایسا معاہدہ کوئی ہوش و حواس میں نہیں کر سکتا تھا۔ اس معاہدے کو مشرف سے خفیہ رکھا گیا اور شوکت عزیز نے اسے اپنے لیول پر ڈیل کیا۔
شوکت عزیز صاحب کی عادت تھی کہ وہ کھل کر جھوٹ بولتے تھے اور گفتگو کے دوران بائیں آنکھ بھی دبا دیتے۔ مطلب ہوتاکہ سب کچھ ''باس‘‘ کے حکم پر ہورہا ہے۔ شوکت عزیز مڈل ایسٹ میں شہزادوں اور بڑے بڑے حکمرانوں کے بینکر رہے تھے لہٰذا ان کا کانفیڈنس لیول عام پاکستانی وزیروں سے بہت بہتر تھا اور وہ کھل کر سارا دن ''باس‘‘ کے نام پر سب غلط‘ درست کام کرتے تھے۔ انہوں نے ہی آئی ایم ایف کو 57 ملین جرمانہ کے طور پر ادا کرائے جب ان کی وزارت کے اندر یہ انکشاف ہوا یا کرایا گیا کہ اسحاق ڈار نے معیشت کے جھوٹے فگرز دیے تھے۔ آئی ایم ایف کو اس کا پتہ نہ تھا‘ لیکن شوکت عزیز کو اس کا پتہ تھا۔ اسحاق ڈار سے بدلہ لینے کا اس سے بہتر موقع نہیں تھا جس نے نواز شریف کا وزیر خزانہ ہوتے ہوئے شوکت عزیز کے پاکستان میں گورنر سٹیٹ بینک لگنے کی خواہش پوری نہیں ہونے دی تھی۔ شوکت عزیز نے امریکہ میں چند دوستوں کے ساتھ اپنا ایک گروہ بنایا ہوا تھا جو پاکستانی حکمرانوں کو گھیرتے تھے۔ وہ سب خود کو معاشی ماہرین کا لقب دے کر واشنگٹن کا دورہ کرنے والے وزیر اعظم اور ان کے اہم وزیروں یا فوجی حکام کو پاکستان کی اکانومی پر بریفنگ دیتے تھے۔ اپنے تئیں بڑے بڑے حل تجویز کرتے کہ کیسے پاکستان بحران سے نکل سکتا ہے اور اپنی خدمات پیش کرتے۔ اسحاق ڈار نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا (ریفرنس ایک سیاست کئی کہانیاں) کہ امریکہ میں نواز شریف کے دورے میں شوکت عزیز بریف اور لابنگ کرتے تھے کہ انہیں گورنر سٹیٹ بینک لگا دیا جائے تو وہ پاکستان کو ٹاپ پر لے جائیں گے لیکن اسحاق ڈار اس میں رکاوٹ تھے۔ اب ڈار کے فگرز کو پکڑ کر شوکت عزیز نے خود آئی ایم ایف کو بتایا کہ آپ کو پاکستان کے بارے میں غلط فگرز دے کر ڈیل کی گئی تھی۔ اس پر آئی ایم ایف نے پاکستان پر 57 ملین ڈالرز کا جرمانہ کیا‘ جو شوکت عزیز نے راتوں رات ادا کر دیا۔ ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا تو شوکت عزیز نے جواب دیا کہ اگر ہم آئی ایم ایف کو نہ بتاتے اور انہیں خود پتہ چلتا تو وہ زیادہ جرمانہ کرتے۔ یوں شوکت عزیز نے ڈار سے گورنر سٹیٹ بینک نہ لگانے کا ایسا بدلہ لیا کہ اس لیبل سے اسحاق ڈار آج تک جان نہیں چھڑا سکے۔
خیر جب یہ پورا سکینڈل ڈان میں چھپا کہ ایف سولہ طیاروں کے بدلے برسوں پہلے مفت لی گئی گندم ایڈجسٹ ہوئی اور باقی کا سویابین لیا جا رہا ہے تو یہ اُس وقت کی حکومت پر ایک بم کی طرح گرا۔ جنرل مشرف نے ڈان کی خبر پڑھتے ہی ایمرجنسی اجلاس بلا لیا جس میں سب متعلقہ وزارتوں کے وزیروں اور سیکرٹریز کو بلا لیا گیا۔ جنرل مشرف کا موڈ اس اجلاس میں بہت بگڑا ہوا تھا کہ ان کی بل کلنٹن سے پیسوں کی بات ہوئی اور آپ لوگوں نے مفت کی بھیجی گئی گندم‘ جہازوں کے کرائے اور سویابین میں ایڈجسٹ کر لی اور اس کا پتہ انہیں اخباری خبر سے چلا۔
شوکت عزیز نے دنیا دیکھی ہوئی تھی۔ انہیں پتہ تھا کہ جنرل مشرف کی کیا کمزوری ہے۔ وہ صرف ایک بندے کا نام لیں گے اور سب کچھ سیٹل ہو جائے گا۔ اجلاس شروع ہوا تو جنرل مشرف نے بگڑے موڈ کے ساتھ پوچھا: واقعی ایسا معاہدہ ہوا ہے جو اخبار میں چھپا ہے؟ شوکت عزیز نے پورا سنجیدہ منہ بنایا اور کہا: جی سر ہوا ہے لیکن اس کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ جنرل مشرف نے بے چینی سے پوچھا: وہ کون ہے؟ شوکت عزیز نے کہا: سر اس کا نام نواز شریف ہے‘ سارا قصور اُن کا ہے۔ جنرل مشرف اور اجلاس کے شرکا چونک گئے۔ جنرل مشرف نے پوچھا: اس پورے معاملے سے نواز شریف کا کیا تعلق ہے؟ جنرل مشرف اور شرکا حیرانی سے شوکت عزیز کو دیکھ رہے تھے لیکن اب سوال یہ تھا کہ نواز شریف کا ایف سولہ طیاروں کی اس چھ سو ملین ڈالر کی ڈیل سے کیا تعلق تھا جو شوکت عزیز پرویز مشرف کے سامنے ثابت کرکے پتلی گلی سے نکل گئے اور جاتے وقت اجلاس میں ہکا بکا بیٹھے شرکا کو بائیں آنکھ دبانا بھی نہیں بھولے؟ (جاری )