تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     29-07-2013

اعتکاف

کل جب آفتاب گل ہوگا تو بہت سے لوگوں کے حجرۂ دل میں ذکرِالٰہی کے نئے چراغ جل اٹھیں گے۔یہ وہ ہیں جو معتکف ہوں گے۔اعتکاف مسلم تہذیب کاایک روحانی مظہر ہے۔ اعتکاف کیا ہے؟ عبادت کا منتہائے کمال، جب ایک بندہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ وہ کچھ دنوں کے لیے، دنیا سے الگ ہوتے ہوئے، صرف اپنے رب کا ہوکے جیے گا۔ رمضان تو ہے ہی یہی درس اور اس پر مستزاد یہ اعتکاف۔ گویا انسان ہر رشتے سے بالارادہ الگ ہوتا اور زبانِ حال سے بارگاہِ الٰہی میں ملتمس ہوتا ہے: ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا، اب تو خلوت ہوگئی عبادت اپنی روح میں ایک داخلی کیفیت ہے۔ جب انسان ایک ایسی ہستی کا احساس حرزِ جاں بناتاہے جس کی قدرت بے پناہ اور جس کی رحمت بے کنار ہے تو دل اس کی بڑائی کے خیال سے کانپ اٹھتا اور اس کی نعمتوں کے شکر کے لیے سجدہ ریز ہوجانا چاہتا ہے۔یہ دل کیا ہے… انسان کے روحانی وجود کا استعارہ۔گویا انسان کی روح ایسی ہستی کے حضور میں ڈھے جانا چاہتی ہے، جس کی عظمت اس کے فہم سے باہر اور جس کا کرم اس کی سوچ سے بھی زیادہ ہے۔یہ داخلی احساس جب خارج میں ظہور کرتا ہے تو مناسکِ عبادت وجود میں آتے ہیں۔ پھر انسان کا ظاہری وجود بھی رکوع وسجود کا نذرانہ لے کر اس ہستی کے حضور میں پہنچ جاتا ہے۔ عبادت کے باب میں چونکہ انسانوں نے اکثر ٹھوکر کھائی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ ابنِ آدم کے اجتہاد پر نہیں چھوڑا۔ اپنے پیغمبروں کی معرفت سے عبادت کے مناسک بھی انسانوں کو سکھادیے ہیں، جس سے انسان کی جبین نیاز کسی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوئی۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ یہ سب اسی عبادت کے مظاہر ہیں جو دراصل انسان کا داخلی جذبہ ہے۔ انسان پر ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے جب عبادت محض چند ظواہر کی پابندی کا نام رہ جاتی ہے۔ ایک مشق جو اسے بہرحال کرنی ہے۔ وہ رکوع وسجود تو کرتا ہے لیکن اس کا وجود اس حلاوت سے محروم رہتا ہے جو ان میں چھپی ہے۔بظاہر وہ عبادت گزار ہوتا ہے لیکن درحقیقت عبادت کی لذت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عبادت کرتے وقت، اس بزرگ وبرتر ہستی کے ساتھ وہ رشتہ نہیں قائم کرپاتا جس کا احساس اس کے اندر سے پھوٹا تھا اور جو دراصل اسے ڈھے پڑنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ وہ عبادت ہوتی ہے جس پر زمین بھی پکاراٹھتی ہے: جو میں سربسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں اس لیے انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ کچھ وقت کے بعد خود کو ان لوازماتِ حیات سے الگ کر لے، جو اس کی عبادت کو محض رسم بنادیتے ہیں۔ جو عبادت کی روح چھین لیتے ہیں۔ اسے ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جب دنیاوی مطالبات اس کے معمولات کا حصہ نہ ہوں اور اس کے روز وشب تمام تر اللہ کے لیے ہوں۔ اعتکاف وہ ماحول فراہم کرتا ہے۔ اعتکاف ٹوٹا رشتہ پھر سے جوڑتا ہے، جس کا ہمیشہ جڑا رہنا ہی مطلوب ہے۔ اعتکاف خلوت کا نام ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس میں غیرضروری کلام بھی پسندیدہ نہیں ہوتا۔ ایک تنہائی جو صرف اللہ کے ذکر سے آباد ہوتی ہے۔ جس میں صرف اس کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔ اعتکاف اصلاً جلوت سے کٹ جانے کا نام ہے۔ اس لیے مردوں کو کہا گیا کہ وہ گھر کے بجائے مسجد میں معتکف ہوں۔ مسجد کا ماحول یوں بھی اللہ کی یاد دلاتا ہے اور خلوت ہو تو نور علی نور۔ اگر اعتکاف کی یہ روح پیش نظر ہو تو اجتماعی اعتکاف کا تصور قابلِ فہم نہیں رہتا۔ہمارے ہاں کچھ عرصے سے اس کا رواج ہونے لگا ہے جسے میری طبیعت کبھی قبول نہیں کرسکی۔’’شہرِ اعتکاف‘‘ کی اصطلاح بتارہی ہے کہ منتظمین روحِ اعتکاف سے واقف نہیں ہیں۔ اس طرح ایک جلسہ یا میلہ تو منعقد کیا جاسکتا ہے اعتکاف نہیں ہوسکتا۔ نفلی عبادتوں میں تہجد سب سے برتر ہے۔اس کا اجر بھی بے پناہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ رات کے آخری پہر جب ایک بندہ صرف اپنے اللہ کی رضا کے لیے اس کے حضور میں رکوع وسجود اور مناجات کرتا ہے تو اس کا گواہ کوئی نہیں ہوتا۔ شب کے اس پہر جب مکمل خاموشی ہوتی ہے، بندہ اپنے اللہ کے سامنے بچھ جاتا ہے۔ تہجد اس لیے شخصی اصلاح کے لیے بھی غیرمعمولی کام کرتاہے۔اعتکاف کی روح بھی یہی ہے۔ تنہائی اور صرف پروردگار کے ساتھ تعلق۔ اعتکاف سال کے کسی دن بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کی مدت بھی متعین نہیں ہے۔ تاہم رمضان کے اعتکاف سے مراد آخری عشرے کی عبادت ہے۔ بیسویں روزے کو غروب آفتاب سے شروع ہونے والی یہ عبادت تب تمام ہوجاتی ہے جب شوال کا چاند دکھائی دیتا ہے۔ جن لوگوں کو اللہ نے یہ توفیق دی ہے، انہیں یقیناً ایک شاندار موقع مل گیا ہے کہ وہ اپنے پرودگار کے ساتھ اپنے تعلق کو زیادہ پختہ بناسکتے ہیں۔ وہ عبادت کی لذت سے آشنا ہوں گے اور سال کے باقی ایام میں بھی تادیر اس کے اثرات رہیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سے زیادہ قیمتی زندگی کوئی نہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو ۔ اس کی بڑائی کا احساس رکھتے ہوئے اور اس کی رحمت کا شکر ادا کرتے ہوئے۔ اس احساس سے محرومی دراصل مقامِ بندگی سے محرومی ہے۔ بندہ اگر اپنے مقام سے بے خبر ہو تو پھر پستی اس کا مقدر بن جا تی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved