تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     11-12-2021

سفارت کار کے نقوشِ پا

فارن سروس کے افسروں میں کتاب لکھنے کی روایت ایک عرصے سے موجود ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ خانہ بدوش تین عشروں سے زائد مختلف ممالک میں کام کرتے ہیں۔ نت نئی ثقافتوں اور نظام ہائے حکمرانی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اہم عہدوں پر مامور لوگوں سے تواتر سے ملتے ہیں۔ پاکستان کے مفادات کا قدم قدم پر دفاع کرتے ہیں۔ ان کے تجربات اور مشاہدات دلچسپ ہوتے ہیں۔اہم سیاسی، اقتصادی اور عسکری موضوعات اور تازہ ترین صورت حال سے اپنی حکومت کو باخبر رکھتے ہیں لہٰذا اچھی اور منطقی رپورٹیں لکھنا ان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ کتاب لکھنا ان کے لیے چنداں دشوار نہیں ہوتا۔آغا شاہی، سلطان محمد خان، عبدالستار، محمد یونس خان، اقبال اخوند، شاہد امین، شہر یار خان، جمشید مارکر، شمشاد احمد خان، ریاض محمد خان، کرامت اللہ غوری، افتخار مرشد، افراسیاب مہدی ہاشمی، عبدالباسط، سید ابرار حسین، عالم بروہی، عارف کمال، نذر عباس اور اعزاز چودھری سب کے سب کتابوں کے مصنف ہیں اور سابق سفیر بھی۔ پڑھنے لکھنے کا شوق رکھنے والے ملیحہ لودھی اور سیدہ عابدہ حسین کی تحریروں سے بھی خوب واقف ہوں گے۔ سابق فارن سیکرٹری اعزاز احمد چودھری کی کتاب Diplomatic Foot printsسفارت کاری سے متعلق کتب میں تازہ اضافہ ہے۔ اعزاز صاحب نے یہ کتاب مجھے بھیجی ہے اور ساتھ لکھا ہے کہ ''امید ہے کہ کتاب پڑھنے کو آپ انجوائے کریں گے۔ آپ کی آراء کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا‘‘۔ اب میرے جیسے سست قاری کیلئے ضخیم کتاب کو غور سے پڑھنا آسان کام نہیں۔ شروع میں یوں لگا کہ اعزاز نے ایک ''وگار‘‘ میرے حوالے کردی ہے لیکن شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔
اعزاز چودھری کا گھرانہ ایک زمانے سے پنجاب کے شہر وزیر آباد میں مقیم تھا۔ اس مڈل کلاس فیملی کا پس منظر دیہاتی بھی تھا اور شہری بھی۔ ان میں طبیب بھی تھے اور سرکاری ملازمت سے متعلق لوگ بھی۔ والدین دونوں طرح کی تعلیم کی اہمیت سے بخوبی آشنا تھے۔ مصنف کی ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ ایسے خاندان کے افراد ایک دوسرے سے قربت قائم رکھتے ہیں اور ان کی جڑیں اپنی دھرتی میں گہری ہوتی ہیں۔ پاکستان سے محبت اور قومی مفاد کی اہمیت کتاب میں جا بجا عیاں ہوتی ہے۔
اعزاز کی عمر مجھ سے بارہ سال کم ہے لہٰذا میں صرف پہلا نام ( First name)استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ اعزاز کا سکول اور کالج کا تعلیمی کیریئرشاندار اور دلچسپ ہے۔ وہ ان طلبا میں سے تھے جنہیں ٹاپ کرنے کا نہ صرف شوق رہتا ہے بلکہ وہ اس مقصد کے لیے باقاعدہ کاوش بھی کرتے ہیں۔ اس شاندار تعلیمی کیریئر کے ساتھ ساتھ زندگی کی متلاطم امواج اعزاز کو کبھی ایئرفورس اکیڈمی رسالپور لے جاتی ہیں اور کبھی انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور۔ پی اے ایف کالج سرگودھا کے اعلیٰ ڈسپلن میں تعلیم و تربیت پانے والا یہ لڑکا پہلے فضائیہ میں بطور کیڈٹ گیا مگر دورانِ پرواز طبیعت خراب ہونے لگتی ہے لہٰذا ایئرفورس کو خیر باد کہہ کر الیکٹریکل انجینئر بننے کی ٹھان لیتا ہے۔1970ء کی دہائی کا آخر ہے اور ملک میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم عروج پر ہے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں روز کے سیاسی جھگڑے اور نعرے پی اے ایف کے سابق کیڈٹ کے لیے ایک نئی اور تلخ حقیقت ہیں‘ اس کا دل انجینئرنگ یونیورسٹی مغلپورہ لاہور سے اچاٹ ہو جاتا ہے اور وہ نیو کلیئر فزکس پڑھنے کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی سی ایس ایس کا امتحان دینے کی تیاری بھی جاری ہے۔ اس طرح کی غیر مستحکم تعلیمی زندگی کے بعد سی ایس ایس کا امتحان اچھی پوزیشن سے پاس کرنا بذات خود ایک امتیاز ہے اور وہ بھی پہلی کاوش میں۔
فارن سیکرٹری کا آفس ڈائریکٹر ہونا ایک اہم پوزیشن ہے۔ اعزاز نے اس پوزیشن پر فارن سیکرٹری شمشاد صاحب کے ساتھ کام کیا جو اپنی ذات میں خود ادارہ ہیں۔ دو‘ تین سال کی اس اہم ذمہ داری نے اعزاز کی صلاحیتوں کو مزید جلابخشی، جبکہ فارن آفس کے اکثر افسران کسی نہ کسی مخصوص منطقہ سے ڈیل کرتے ہیں فارن سیکرٹری آفس ڈائریکٹر پورے عالمی منظر میں پاکستانی مفادات کے دفاع کے لیے مستعد رہتا ہے۔ اعزاز کی اس منصب پر تقرری بہت اہم وقت پر ہوئی۔ انڈیا سے کمپوزٹ ڈائیلاگ کا آغاز تھا پھر دونوں جانب ایٹمی دھماکے ہوئے تو انڈیا نے پاکستان کی جانب امن کا ہاتھ بڑھایا۔ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے۔ لاہور ڈیکلریشن پر دستخط ہوئے مگر کارگل کی مہم جوئی نے تمام محنت پر پانی پھیر دیا۔ کتاب میں ان تمام احوال کا تفصیل سے ذکر عینی شاہد نے کیا ہے اور صرف ذکر ہی نہیں ان سب امور پر اپنی رائے بھی دی ہے۔
یہ کتاب اس لحاظ سے بھی جامع ہے کہ مصنف کا اپنا کیریئر بھی ہمہ جہت ہے۔ فارن سروس میں آنے کے بعد عربی زبان سیکھی اور دو اسلامی ممالک قطر اور ایران میں کام کیا۔ فارن آفس میں ڈائریکٹر فارن سیکرٹری آفس کے بعد ڈائریکٹر جنرل سائوتھ ایشیا کا منصب نبھایا۔یہ عہدہ اس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ انڈیا کے ساتھ ڈیل کرتا ہے۔ یہ جو آپ آئے دن میڈیا پر دیکھتے ہیں کہ انڈیا کے ہائی کمشنر کو بلا کر احتجاج کیا گیا یہ کام بھی عموماً ڈی جی سائوتھ ایشیا کرتا ہے۔ اس کے بعد فارن آفس کے سپوکس پرسن کے فرائض سرانجام دیے۔ بطور ایڈیشل سیکرٹری یو این اور او آئی سی میں پاکستانی مفادات کا دفاع کیا۔ اس سے پہلے واشنگٹن اور نیو یارک میں کام کا تجربہ تھا۔ دو طرفہ (Bilateral)اور کثیر جہتی (Multilateral) سفارت کاری کا اتنا وسیع تجربہ بہت کم افسروں کو ہوتا ہے۔
یہ کتاب اعزاز کی آپ بیتی بھی ہے اور پاکستان کی تین عشروں سے زائد سفارت کاری کی داستان بھی۔ انداز داستان گوئی والا ہے لہٰذا دلچسپ اور لذیذ ہے لیکن اطلاعات کی صحت بھی درست ہے، مگر سب سے زیادہ دل کو چھو لینے والا قصہ اعزاز کے کینسر میں مبتلا ہونے اور علاج معالجے کا ہے۔ جسم پر ایک گلٹی نمودار ہوتی ہے۔ وزن کم ہونے لگتا ہے تو ٹیسٹ شروع ہو جاتے ہیں بالآخر کینسر کنفرم ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر یہ خبر سنا کر کہتا ہے کہ آپ کام کے بجائے آرام کریں۔ چند منٹ بعد اعزاز کا فارن سروس اکیڈمی میں لیکچر ہے وہ فارن آفس سے سیدھا اکیڈمی جاتا ہے اور پورا لیکچر دے کر آتا ہے۔ اس وقت کے فارن سیکرٹری جلیل عباس جیلانی نے آفر کی کہ تمہاری پوسٹنگ یورپ کے کسی ایسے ملک میں کر دیتے ہیں جہاں علاج اچھا ہو سکے لیکن اعزاز نے پاکستان میں علاج کرانے کو ترجیح دی اور وہ بھی سرکاری ہسپتالوں میں۔سرجری ہوئی تو دو دن بعد اعزاز فارن آفس میں ہفتہ وار بریفنگ دے رہے تھے۔ کسی کو معلوم بھی نہ ہوا کہ ان کے سینے پر کتنے زخم ہیں۔ یہ شجاعت، رجائیت اور یقین کی شاندار داستان ہے۔
کینسر کا مقابلہ کرتے کرتے اعزاز کی ترقی بطور فارن سیکرٹری 2013ء میں ہوئی۔ تب کے وزیر اعظم نوازشریف نے نئے فارن سیکرٹری کو جو اہداف دیے ان میں سرفہرست تمام ہمسایہ ممالک بشمول انڈیا تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔ چین کے ساتھ اقتصادی رشتوں کو مزید مضبوط بنانا بھی فارن پالیسی کا اہم ستون قرار پایا۔ سی پیک معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے۔ فارن پالیسی کے حوالے سے یہ اہم دور تھا۔ کتاب میں متعدد دلچسپ قصے ہیں لیکن 1999ء میں کارگل کی مہم جوئی کے بعد وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے بھیجے گئے مندوب خاص (Specicl Envoy)کا قصہ پڑھ کر میں بڑی مشکل سے ہنسی روک سکا۔ اعزاز نے یہ قصہ بطور عینی شاہد لکھا ہے۔ فارن سیکرٹری کے فرائض پورے کرنے کے بعد اعزاز کو بطور سفیر امریکہ بھیجا گیا۔ اب اعزاز مکمل صحت یاب ہو کر ایک اور حیثیت میں وطن عزیز کی خدمت میں پوری تندہی سے مصروف ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved