تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-12-2021

کوئی تو مجرم ہے‘ کوئی تو جواب دہ ہو گا!

جیسے ہی وزیراعظم عمران خان نے فٹ پاتھ اور سڑکوں پر سونے والے بے گھر افراد کو چار دیواری کے اندر بستر اور کھانا فراہم کرنے کے ''پناہ گاہ‘‘ منصوبے کا لاہور سے آغاز کیا تو مخالفین اور ان کے ہمدردوں نے یہ کہہ کر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ اس طرح لوگوں کو بھکاری بنایا جا رہا ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ان حلقوں کی طرف سے بھی کی جاتی رہیں اور اب بھی کی جا رہی ہیں جو دریا کے کنارے بھوک اور پیاس سے کسی جانور کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی حکمرانِ وقت پر ہونے کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ اگر دانت بجاتی سردی سے مرنے کے لیے چھوڑ دینے کے بجائے‘ کسی بے گھر و بے آسرا انسان کو گرم بستر مل جاتا ہے‘ اگر کسی بھوکے کو قیمتی کھانوں کے بجائے پیٹ بھر کر سادہ صحت بخش غذا مل جاتی ہے تو اس میں بھکاری بنانے والی کون سی بات ہے؟ کیا ناقدین اور حکومت مخالفین کے دلوں میں بے سہارا اور ہر روز سردی سے ٹھٹھر کر موت کی وادیوں میں اترنے والے افرادکے لیے کوئی ہمدردی نہیں؟ ناقدین اور اپوزیشن کی طرف سے آئے روز موجودہ حکومت کے اس طرح کے منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہتا ہے حالانکہ یہ منصوبے حق بحقدار رسید کی عملی مثال ہیں کیونکہ کوئی بھی صاحبِ حیثیت ان پناہ گاہوں میں جا کر نہیں رہتا، وہاں پر موجود تمام لوگ وہ بے گھر افراد ہیں‘ جو سر ڈھانپنے اور دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کے لیے مادرِ جمہوریت برطانیہ کی یہ خبر یقینا دلچسپی کا باعث بنے گی کہ صرف 2020ء میں‘ برطانیہ میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ایک ہزار سے زائد افراد بھوک اور سردی کی شدت سے لقمہ اجل بن گئے۔ ''سماجی انصاف گروپ اور میوزیم آف ہوم لیس نیس‘‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ برطانیہ‘ جسے اپنے سماجی انصاف کے نظام پر فخر ہے‘ وہاں 2019ء میں 730 بے گھر افراد سڑکوں پر ہلاک ہوئے تھے اور اعداد و شمار یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ہر سال بے گھر افراد کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار اس مہذب معاشرے کے نام پر بہت سے سوالات چھوڑ کر جاتے ہیں ۔ یہ صرف برطانیہ یا کسی ایک یورپی ملک کا قصہ نہیں ہے۔ پیرس‘ روشنیوں اور خوشبوئوں میں بسا رہنے والا دنیا بھر کے سیاحوں سے اَٹا ہوا اور اپنے حسن‘ خوبصورتی اور جمہوریت کے نام پر اترانے والے فرانس کا دارالحکومت‘ اس وقت وہ چند سو نہیں بلکہ ہزاروں ایسے لوگوں کا مسکن بن چکا ہے جو سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں۔ وہ فرانس‘ جس کے رافیل طیاروں نے بھارتی فضائیہ کی گردن اکڑا کر رکھ دی ہے‘ وہ فرانس جو ہوا بازی کی صنعت میں میراج کے نام سے دھوم مچا ئے ہوئے ہے‘ اس کے سب سے بڑے اور پُررونق شہر پیرس‘ جو ہر وقت سیاحوں سے بھرا رہتا ہے‘ میں بھی لوگ فٹ پاتھوں پر بھوک اور سردی کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے ٹھٹھر ٹھٹھر کر اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ بے گھر افردا کی اکڑی ہوئی لاشیں پیرس کی خوبصورتی‘ اس کی ثقافت‘ اس کے آرٹ اور اس کی معیشت پر بہت بڑا دھبہ ہیں اور یہ سوال کر رہی ہیں کہ ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟
پیرس کی سڑکوں پر سردی اور بھوک سے ہلاک ہونے والے فرانسیسی شہریوں کی تعداد‘ فرانس کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق‘ گزشتہ سال 119 رہی لیکن مجال ہے کہ دنیا بھر کے کسی بھی نشریاتی ادارے پر یہ خبر اور مرنے والے شہریوں کی اکڑی ہوئی‘ انسانیت کو شرماتی ہوئی لاشیں دکھائی گئی ہوں؟ مشتے نمونہ از خروارے‘ یہ دو مثالیں اس لیے پیش کیں کہ ان سے ہی سمجھ لیں کہ اگر برطانیہ اور یورپ کے دل پیرس کا یہ عالم ہے تو ہمارے جیسے قرضوں کی دلدل میں دھنسے اور بجلی کے مہنگے معاہدوں اور مغربی غلبے کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ملک میں کیا عالم ہو گا۔ کیا ایسے میں ضروری نہیں ہو جاتا کہ اس پسے ہوئے طبقے‘ جس کی کہیں شنوائی نہیں ہو پاتی‘ جس کے لیے کوئی ریلیف پیکیج نہیں آتا‘ جسے سب سے زیادہ مستحق ہونے کے باوجود سرکاری خزانے سے پھوٹی کوڑی تک نصیب نہیں ہو پاتی‘ اس کے لیے کچھ کام کیا جائے؟ کیا اب بھی آپ سمجھتے ہیں کہ ان منصوبوں کی کوئی افادیت نہیں ہے؟
جھنگ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک چھوٹے سے گائوں میں افتخار نامی مزدور‘ فرنیچر اور لکڑی کے کام سے وابستہ ایک دکان پر اٹھارہ ہزار ماہانہ پر کام کرتا تھا۔ شادی کے بعد خدا نے اسے بیٹی کی نعمت سے نوازا تو جاہلیت سے معمور اس معاشرے کے فرد اور خاندان میں بیٹے کی خواہش جاگ اٹھی، اور پھر ہر سال ایک نئی بچی پیدا ہونا شروع ہو گئی، جس سے گھر میں فاقے بھر گئے، بدن پر کپڑے کم ہونے لگے لیکن بیٹے کی خواہش میں بیٹیوں کی تعداد چھ ہو گئی، خیر جب بیٹا پیدا ہوا تو اس کی خوب خوشیاں منائی گئیں مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ابھی بیٹا ڈیڑھ برس کا ہی ہوا تھا کہ گزشتہ اکتوبر کی سات تاریخ کو‘ افتخار کو دل کا ایسا دورہ پڑا کہ وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ہوتا بھی کیسے کہ دور دور تک کوئی ہسپتال نہیں تھا‘ ہسپتال لے جانے والے بھی یہی سوچتے رہ گئے کہ جیب میں تو کچھ نہیں‘ ایسی حالت میں لے کر کہاں جائیں؟ اس نے وہیں تڑپ کر جان دے دی۔ اب چھ بیٹیاں‘ ایک ڈیڑھ سالہ بیٹا ‘بیوہ اور پانچ ہزار ماہانہ پر کرایے کا چھوٹا سا کمرہ نما گھر۔
جھنگ سے نکلیں تو آگے کچھ سڑک تو ٹھیک ہے مگر کچھ دور جا کر یہ سڑک اس قدر ٹوٹی پھوٹی ہے کہ لگتا ہے کہ انگریز کے جانے کے بعد یہاں کوئی سڑک بنی ہی نہیں۔ حاملہ خواتین اور بیمار افراد ان دیہات سے جب جھنگ کے سرکاری ہسپتال جانے کیلئے نکلتے ہیں تو ان میں سے کئی راستے میں ہی اذیت ناک دھکوں اور اچھل کود سے دم توڑ جاتے ہیں۔ میں جب یہ علاقہ‘ یہ سڑک اور یہاں بسنے والے لوگوں کے حالات دیکھ رہا تھا تو یہی سوچ رہا تھا کہ اب تک یہاں سے کتنے ملک، کتنے چودھری، کتنے سجادہ نشین اور کتنے مخدوم منتخب ہو کر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ کل بھی اور آج بھی‘ جھنگ سے نجانے کتنے طاقتور لوگ وزارتوں اور سرکاری عہدوں کو اپنا مستقل مسکن بنا چکے ہیں لیکن کسی بھی لیڈر اور کسی رکن اسمبلی نے یہ نہیں سوچا کہ ان دیہات میں‘ خاک اور ریت میں اَٹے ہوئے ووٹرز جیتے جاگتے انسان بھی ہیں۔ ان سینکڑوں دیہات میں رہنے والے مرد و خواتین کو ہسپتال یا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے سواری اور سڑک کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔ شاید بڑے بڑے گڑھوں والی یہ سڑکیں جانگلی کے نام سے پکارے جانے والے ان افراد کا مقدر بنا دی گئی ہیں۔ حکومت یا وزیراعلیٰ سے کون کہے کہ حضور! اگر ان پانچ لاکھ سے زائد انسانوں کیلئے کوئی اچھا ہسپتال کہیں نزدیک ہی بن جائے تو کیا مضائقہ ہے؟
قصور سے دیپالپور روڈ‘ جسے مشرف دور میں کمال محبت سے پانچ ارب کے فنڈز دے کر بنوایا گیا تھا‘ آج چودہ برس بعد اس کی حالت فقیر کی اس گدڑی جیسی ہو چکی ہے جس میں آپ کو سوائے پیوندوں کے کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ کھڈیاں جیسے بڑے اور تجارتی قصبے میں داخل ہونے پر‘ موجودہ حکومت کے آتے ہی‘ نجانے کس قانون کے تحت ٹول ٹیکس لگایا گیا جس کے ٹوکن پر لکھا ہوا ہے ''یہ ٹیکس وہ محکمہ وصول کر رہا ہے جو سڑکوں کی تعمیر و مرمت کراتا ہے‘‘۔ کھڈیاں کے مقامی صحافیوں نے کئی کئی دن کی مانیٹرنگ کے بعد ایک تجزیاتی رپورٹ مرتب کی ہے جس میں ہر روز یہاں سے گزرنے والی گاڑیوں اور اکٹھے ہونے والے ٹول ٹیکس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہاں سے گزرنے والی ٹریفک سے روزانہ پنجاب کے اس محکمے کو‘ جو سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا دعویٰ کرتا ہے‘ چار لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ اندازہ کیجئے کہ ایک ماہ اور پھر ایک برس میں کتنی آمدنی ہوتی ہو گی‘ لیکن سڑکوں کی حالت دیکھیں تو وہ کسی بیوہ کی مانگ کی طرح اجڑی ہوئی ہیں۔ مقامی صحافی اور شہری سوال کرتے ہیں کہ اگر اس سڑک کے گڑھے اور کھڈے اسی طرح رہنے ہیں تو پھر ان کی جیبوں سے ہر روز نکلوایا جانے والا چار لاکھ روپیہ کہاں جا رہا ہے؟ ان سب کا کوئی تو مجرم ہے‘ کوئی تو جواب دہ ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved