اِس وقت ایک صد ترانوے ممالک اقوامِ متحدہ کے ممبر ہیں۔ کبھی اس سے نصف یا اس سے کچھ کم ممالک پر اسلامی حکومت کا پھریرا لہراتا تھا۔ یہ ترک حکومت تھی‘ ترک خلافت تھی‘ خلافتِ عثمانیہ تھی۔ ترک حکومت یا خلافت‘ اکہتر ممالک پر مشتمل تھی۔ ان میں وہ سارے مسلم ممالک شامل ہیں جن کی اب مغرب (یعنی امریکا) جب چاہتا ہے‘ اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ یہی وہ تاریخی حقیقت ہے اور یہی وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے مغرب کے پیٹ میں بار بار مروڑ اٹھتے ہیں۔ مغرب بھلا مسلم ممالک کاایک ہونا کیسے دیکھ سکتا تھا؟ اس نے بڑی مشکلوں سے ترکوں کے زیرِ نگین ممالک کو علیحدہ کر کے جغرافیہ تبدیل کیا تھا۔ جغرافیہ تبدیل ہوتا ہے تو تاریخ کا قلع قمع ہونا لازم ہوتا ہے۔ ترک حکومت کئی براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ جب مغرب یہ بات نہیں بھول پاتا کہ ترک یورپ کے دوردراز علاقوں پر بھی حکومت کرتے تھے‘ تو ہم کیسے بھول سکتے ہیں؟ ہماری بے چینی کی بھی یہی وجہ ہے اور جو مغرب کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں‘ اس کی وجہ بھی یہی ترک حکومت تھی جو ان کے قلب میں خنجر کی طرح گڑی ہوئی تھی۔ ہمارا دکھ کی بھی اور انبساط کی بھی ایک ہی وجہ ہے کہ اکہتر ممالک ترک خلافت کے زیرِ نگین تھے۔
یہ اکہتر ممالک کون سے ہیں‘ اور یہ کب سے کب تک خلافتِ عثمانیہ کے زیر نگیں رہے ؟ کم و بیش اکہتر مسلم اور غیر مسلم ممالک‘ تین براعظموں میں اور یورپ کے دل تک پھیلے ہوئے تھے۔ یورپ کا دل جرمنی ہے اور یورپ کے شہروں کا دل پراگ ہے۔ یہ شہر بارونق عمارات کی وجہ سے مشہور ہے اور پتھر کے زمانے کی یادگار ہے۔ پتھر کا زمانہ آج سے لگ بھگ چھبیس لاکھ سال قبل شروع ہو کر دو ہزار سال قبل مسیح میں اختتام کو پہنچا تھا۔ اس شہر کے شمال مشرق میں پولینڈ اور مشرق میں سلواکیہ ہے۔ سلواکیہ پر بھی عثمانی حکومت تھی اور اڑھائی صدیوں تک اذانوں کی آوازیں یہاں گونجتی تھیں۔ یہاں پچاس سال خلافت عثمانیہ کے جنگجو برسرپیکار رہے۔ جنگِ ورنہ (Battle of Verna) وہ جنگ تھی جو صلیبی جنگوں کی ہی ایک لڑی تھی‘ جب یورپ عثمانیوں کے خلاف اکٹھاہو کر جنگ کر رہا تھا۔ ان اتحادی یورپی قوتوں میں ایک بادشاہ فلپ گڈ آف برگنڈی بھی تھا جس کا ذکر شیکسپیئر نے اپنے ڈرامے 'کنگ لیئر‘(King Lear) میں بھی کیا ہے۔ اب یہ پھانس یورپ اور امریکا کے دماغ سے کیسے نکلے ؟ یہی وہ روگ ہے جو مغرب کی اب تک نیندیں حرام کیے ہوا ہے۔ مغرب نے ہمیشہ ایک اتحاد بنا کر لڑائی لڑی ہے اور یہ حکمت عملی آ ج تک جاری ہے۔ اب انہیں نیٹو فورسز کی پخ بھی ملی ہوئی ہے۔ جہاں حملہ کرنا ہو‘ ملک کا کچھ حصہ یا سارے کا سارا غصب کرنا ہو‘ یورپ اور نیٹو فوج کا بغل بچہ ساتھ ہے۔ اصل میں تو بغل بچہ اس گوشت کو کہتے ہیں جو بغل کے نیچے ابھرا ہو اور سینے تک پھیلا ہو‘ وہ ایک دو ماہ کے بچے سے مشابہت رکھتا ہے، مطلب یہ ہے کہ جو جسم کا ہی حصہ ہو‘ الگ نہ ہو۔
سات سال قبل آرمینیا کے صدر نے چیک ریپبلک کے دورے پر ترکی پر نسل کشی کا الزام لگایا تھا۔ یہ نسل کشی ایک صدی قبل ہوئی تھی۔ اس نسل کشی کا الزام 1915 ء میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ اس کی سزائیں بھی بھگت لیں مگر مغرب اس زخم کو آج تک نہیں بھولا۔ کیسے کیسے درد ہیں‘ جو اب مغرب کو یاد آ رہے ہیں۔ ایک سو سال کے بعد بھی ان کے زخم تازہ ہیں گہری ہزیمت کے زخم۔ اسی الزام کی وجہ سے ترکی اور آرمینیا کے درمیان سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ ان دو ممالک یعنی ترکی اور آرمینیا کی مثال پاکستان اور بھارت کی سی ہے۔ ترکی نے آرمینیا کو اس کی روس سے آزادی‘ 1991ء کے وقت تسلیم کر لیا تھا مگر سفارتی تعلقات کبھی قائم نہیں رہے۔ اب بھی نہیں ہیں؛ البتہ پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کو تسلیم کیا ہوا ہے اور ان کے درمیان سفارتی تعلقات بھی قائم ہیں۔ آرمینیا صدیوں مسلمانوں کے زیر نگین رہا ہے۔ ہارون‘ جس نے اپنا لقب 'الرشید‘ خود ہی اختیار کر لیا تھا، بازنطینی حکومت سے برسرِپیکار رہا اور باسفورس تک پہنچ گیا جب گورنر بنا تو وہ آرمینیا، تیونس، مصر، آذربائیجان اور شام تک کا گورنر تھا۔ ہارون الرشید کے دور میں اس کی حکومت مغربی بحیرہ روم سے ہندوستان تک پھیل چکی تھی۔ سعدی نے کہا تھا:
بومِ نوبت می زند بر طارمِ افراسیاب
پردہ داری می کند در قصرِ قیصر عنکبوت
''الوافراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے، قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بُن لیے ہیں‘‘۔ یہی شعر فاتح محمد سلطان نے قسطنطنیہ فتح کرتے وقت پڑھا تھا۔ اُسے عربی، فارسی، یونانی اور لاطینی زبان پر عبور تھا۔ جب فاتح نے وہاں قدم رکھا تب بازنطینی سلطنت اس ایک شہر تک محدود ہو چکی تھی۔ تاریخ نے اسے عبرت بنانے کا پورا انتظام کر دیا تھا۔ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی۔ بلغاریہ بھی ایک بڑی مملکت تھی یہاں پانچ سو سال عثمانی حکمران رہے۔گریک‘ یونان قدیم تہذیب ایک گہوارہ‘ ہزاروں سال پرانا یونان‘ ارسطو کا یونان‘ افراوڈایٹ دیوی کا یونان‘ زیوس؛ دیوتائوں کے دیوتا کا یونان‘ وہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں آج جنہیں دنیا کے کسی بھی ملک سے اٹھا سکتے ہیں اور بغیر کسی مقدمے کے گوانتانامو بے میں جب تک چاہیں‘ رکھ سکتے ہیں‘ ان کیڑے مکوڑوں نے ہماری تہذیب کے مسکن پر قبضہ کیا ہوا تھا؟ یہی تھے وہ لوگ؟ یہی بے حس حکمران‘ بے حمیت حکومتیں اور ریاستیں تھیں؟ یہی وہ ملک تھے کہ جب چاہتے تھے‘ یورپ پر چڑھ دوڑتے تھے؟ اپنے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہمارے حوالے کرنے والے‘ کیا یہی تھے وہ؟
اپنے عروج میں ترک سلطنت 52لاکھ کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔ 1683ء‘ سترہویں صدی کا اواخر تھا جب محمد چہارم حکمران تھا۔ ہندوستان میں برطانیہ کے ڈاکٹر‘ طبیب مغل بادشاہوں کے پیٹ کے درد اور ان کی بیٹیوں کو مرہم پٹی کر کے یہاں رعایتیں حاصل کرنے کے جتن کر رہے تھے۔ انہیں کئی کئی ماہ تک مغل بادشاہوں کے حضور پیش ہونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ کیا شان و شوکت تھی۔ کبھی اٹلی میدان جنگ تھا۔ کبھی جنگ کا مرکز وینس ہوتا تھا۔ وینس گرا‘ تو اس کی مقامی رہی سہی طاقت بھی گئی۔ ساتھ ملحقہ مسیحی علاقے بھی باجگزار ہوئے۔ رومن سلطنت کو مغرب Holy Roman Empireکہتا تھا‘ ایک جنگ ویانا میں لڑی گئی۔ ایک صدی گزر گئی‘ ان کا اور ہمارا زخم تازہ ہے۔ یہی وہ طاقت تھی جو مغرب کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ سازشوں اور مسلمانوں میں ریشہ دوانیوں کے ذریعے اس حکومت کا خاتمہ کیا اور جی بھر کے اس کے ٹکڑے کیے۔ ترکی کو یورپ کا مردِ بیمار (Sick man of Europe) کہا۔ ترک عثمانی خلافت کے بعد نئی سرحد بندی ہوئی۔ اس سلطنت سے کیا کیا نئے ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ مغرب میں یونان، سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا، ہرزگوینیا، کروشیا، مقدونیہ، رومانیہ، ہنگری، مولڈووا، یوکرائن، آذر بائیجان، آرمینیا، قبرص، جنوبی سائپرس، اٹلی، جنرل پاشا کے آباد کردہ شہر ترانہ والا البانیہ، کسووو، ، کوہ قاف اور دخترِانگور کا گھر جارجیا‘ سب ترک حکومت کے زیرِ نگین تھے۔ 1818ء سے لے کر خلافت کے خاتمے تک‘ صرف آلِ سعود اپنی سلطنت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
مسلم ممالک صومالیہ، کینیا کے ساحل، نائجر کا حصہ، موزمبیق کے زیراثر علاقے، مراکش، مغربی صحارا، موریطانیہ، عراق، شام، اسرائیل، فلسطین، اردن، یمن، عمان، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، کویت، ایران کے مغربی علاقے، لبنان، مصر، لیبیا، تیونس، الجیریا، سوڈان، اریٹیریا، ڈی جبوتی، صومالیہ، تنزانیہ کے ساحل، چاڈ کے شمالی حصے، نائیجیریا اور کیمرون‘ سب اسی مملکت میں شامل تھے۔ پیارے قارئین! تب شام، لبنان، فلسطین، لیبیا، افغانستان، پاکستان اور یمن میدانِ جنگ نہیں بنتے تھے‘ یورپ میدانِ جنگ ہوتا تھا۔