خدایا! ایک ہی شعر انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے اور پھر کتنے دن گرفت میں لیے پھرتا ہے۔
سعود کے شعور کی آنکھ نیلا گنبد لاہور سے متصل ایونگ روڈ کی ایک بند گلی کے مکان میں کھلی تھی۔ گھر کرائے کا تھا جہاں سعود کے والدین اس زمانے میں رہا کرتے تھے۔ اس زمانے کے گھروں کی طرح پرانے نقشے پر بنا ہوا گھر۔ چھتیں لکڑی کے شہتیروں کی۔ یہ چھتیں سر چھپانے کے تو بخوبی کام آتی تھیں لیکن کسی زلزلے میں ان کی حالت کا ٹھیک اندازہ ہوجاتا تھا۔ سعود کو یاد تھاکہ ایسے ہی ایک زلزلے میں اس کی امی اپنے چھ بچوں کو لپٹائے ڈری کھڑی تھیں اور مسلسل دعائیں پڑھ رہی تھیں۔ بچے ان سے بھی زیادہ سہمے ہوئے تھے۔ چھت کے شہتیروں کے زور زور سے ہلنے کی آوازیں مزید خوف زدہ کیے دیتی تھیں۔ زلزلے کا جھٹکا تو شاید چند سیکنڈ کا تھا لیکن ذہن کے کورے کاغذ پر جو سیسموگراف بنا وہ مٹنے والا نہیں تھا۔ گھر کی اوپری منزل رہائشی تھی اور وہاں بہت بار پانی نہیں آتا تھا۔ پانی کی ٹنکی کا تو سوال ہی کیا تھا، نلکے بھی گھر میں دو تین ہی تھے۔ ایسے میں سب بہن بھائی نیچے دروازے کے قریب غسل خانے کے نلکے سے چھوٹی بڑی بالٹیوں اور برتنوں میں پانی بھر کر اوپر لاتے تھے۔ بڑے بچوں پر یہ ذمے داری زیادہ تھی۔ پانچ سالہ سعود کو وہ غسل خانہ ساری عمر اچھی طرح یاد رہا۔ وہ صرف نہانے کی جگہ تھی۔ یہ غسل خانہ ویسا ہی تھا جیسے سورج اور دھوپ کی دسترس سے دور کسی غسل خانے کو ہونا چاہیے۔ اسے بُو کہہ لیجیے، ہبکار کا نام دے لیجیے، مہک سمجھ لیجیے‘ وہی مخصوص نتھنوں سے دل میں بس جانے والی مخصوص بُو جو بند غسل خانوں کے ساتھ رہنے لگتی ہے۔ ایسی جگہ جہاں نمی، سیلن اور کائی ایک زمانے سے ٹھکانے بنائے ہوئے ہوں، یہ بھی مکین ہوجاتی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ پرانے شہر کے گھروں کا لازمی جزو ہے۔
وہ پتلی سی گلی تھی جس میں دائیں بائیں کئی گھر تھے۔ سب کے دروازے بھی گلی میں کھلتے تھے اور گھروں کے پرنالے بھی اسی میں گرتے تھے۔ ہمسایوں میں محبتوں کے باوجود یہ پرنالے کبھی کبھار توتکار کروایا کرتے تھے۔ یہ گلی اپنی اونچی نیچی اینٹوں، چند چھوٹی چھوٹی نالیوں اورپیچ و خم کے ساتھ پانچ سالہ سعود کے ذہن پر ایسی نقش ہوئی کہ ایک زمانے تک وہ اس کے ایک ایک حصے کی تفصیل بیان کرسکتا تھا۔ بات صرف گلی کی ہی نہیں تھی، بہت سی اور چیزیں بھی نقش تھیں۔ گلی کے باہر بندھے ہوئے ریڑھے اور تانگے‘ جن کے گھوڑے دن بھر کی جان توڑ مشقت کے بعد شام کو بوجھ سے آزاد ہوکر کھڑے دانہ کھارہے ہوتے تھے۔ عید کی نماز کے بعد ایک طرف کھڑا وہ غبارے والا جس کے لمبے ڈنڈے کی سب سے اونچی پھننگ پر سب سے بڑا سنہرے رنگ کا غبارہ بندھا ہوتا تھا۔ سب سے بڑااور سب سے قیمتی۔ خدایا! کون بہت امیر بچہ یہ بڑاغبارہ خریدتا ہوگا؟ نیلا گنبد چوک پربیکری کی دکان جس کے شوکیس کے شیشے کے ساتھ ناک لگاکر سعود اوراس کے ہم عمر بچے اس کئی منزلہ لذیذ کیک کو دیکھتے جو خاص طور پر عید کیلئے بنتا تھا۔
والدین کو سخت تنگی ترشی کے زمانے گزارنے کے بعد کچھ آسودگی میسر آئی تھی تو سمن آباد موڑ پر ایک قریب قریب 22 مرلے کا پلاٹ خرید لیا تھا جو اس زمانے میں ویرانہ خریدنے جیسا تھا۔ سعودکے والدین کم و بیش دوعشرے کرائے کے گھروں میں مشکلوں کے ساتھ گزارنے کے بعد، پیسہ پیسہ جوڑنے، اورباقی رقم قرض اٹھانے کے بعد، جب ذاتی گھرمیں چھ بچوں کے ساتھ منتقل ہوئے تو ہرایک کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ان بچوں کا بھی، جو ابھی اپنی چھت اور اپنی چاردیواری کی خوشی ٹھیک سے سمجھتے بھی نہیں تھے۔ ایک زمانے کے بعد یہ آسودگی میسرآئے کہ گھر اپنا ہو، نیا ہو، اور بڑا سا ہو تو یہ خوشی کون سمجھ سکتا ہے‘ سوائے اس کے جس پر بیتی ہو۔
بیتی ہوئی کیسے بھولی جاسکتی ہے؟ یہ مکین اور یہ مکان سعود کبھی بھول ہی نہیں سکتا۔ ماں باپ، چھ اوپر تلے کے بچوں پر مشتمل ایک متوسط روایتی وضع دار گھرانہ، جس پر تنگی ترشی اور خوشحالی کے ٹکڑے رہ رہ کر گزرتے رہتے تھے۔ کمانے والا ایک تھا اور وہ قرض تلے زیر بار ہوچکا تھا۔ خاندان بڑا، مہمان داریاں مسلسل، مستقل رہنے والے عزیز بھی مستقل۔ والد کا حلقۂ احباب متنوع بھی تھا اور بڑا بھی۔ دعوتوں کے شوقین تھے اور خاطرداری میں کسر نہ چھوڑتے تھے۔ جس شخص کی سرشت میں دلداری، گھرداری اور خاطرداری، یعنی تین طرح کی ذمے داری ہو، اس کے مسائل کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ بچے اس وقت ان مسائل کا اندازہ کچھ کچھ کرسکتے تھے لیکن بس کچھ کچھ۔ گھر کی خوشی اس اندازے پر بھاری تھی۔
اور مکان؟ خوبصورت‘ ہوادار اور وسیع‘ لیکن سوچا جائے توآسائشیں رہیں ایک طرف، اس وقت کی ضروریات کسی طرح پوری کرلی گئی تھیں۔ جو پوری نہیں ہوئیں، بہتر وقت کیلئے چھوڑدی گئیں۔ خواب اور خواہش کس کے نہیں ہوتے۔ یہ گھرانہ بھی ان سے بھرا ہوا تھا‘ لیکن ان کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز بھی اسے ورثے میں ملی تھی اور وہ تھی قناعت‘
وہ سب جو خواہشیں ہوتی ہیں، خواب ہوتے ہیں
کسی طلسم نے معدوم کر دیا تھا انہیں
ضروریات کی ترتیب و انتظام کے بعد
جو کچھ خلا تھے قناعت نے بھر دیا تھا انہیں
سعود کا داخلہ جب پہلے گول چکر، سمن آباد کے قریب طارق ماڈل سکول میں چوتھی جماعت میں ہوا، تو سب کچھ نیا تھا۔ چھوٹا سا پرائیویٹ سکول جس کی پانچویں جماعت تک لڑکوں لڑکیوں کی اکٹھی، اور پانچویں سے آٹھویں تک لڑکوں کی الگ تعلیم کا بندوبست تھا۔ ایک ہی گلی میں دونوں سکول چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں موجود تھے۔ سمن آباد نئی آبادی والا علاقہ تھا اورمشہور لوگوں کا گڑھ۔ اس گلی میں بھی بہت سے نامور لوگ رہتے تھے۔ ڈرامہ نگار اطہر شاہ خان جیدی، فلمی شاعر تنویر نقوی، فلمی اداکار زلفی اور شاید منور ظریف کے گھرانے بھی یہیں یا قریب ہی رہتے تھے۔ سکول کے راستے میں سمن آباد موڑسے آگے آتے ہوئے پہلے دائیں طرف جسٹس سجاد احمد جان کی کوٹھی تھی جو معروف سیاستدان سینیٹر وسیم سجاد کے والد تھے۔ چند گھر آگے اس زمانے کی مشہور اداکارہ شمیم آرا کی یک منزلہ کوٹھی تھی جن کا قدآور کتا راہگیروں کو خوف زدہ کیے رکھتا تھا۔ خاکی پینٹ، سفید قمیص پہنے سعود تختی جھلاتا، بھاری بستہ اٹھائے سکول پہنچتا تو ایک نئی دنیا میں پہنچتا۔ سکول میں متوسط اور نچلے متوسط گھرانوں کے بچے پڑھتے تھے۔ ایسے بچوں کے دلوں میں کئی تشنگیاں، کئی محرومیاں مقیم ہوکر بالآخر یہیں ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔ کثیرالعیالی میں گھروں کی ضروریات پوری ہوں توبچوں کے چونچلے پورے کیے جائیں ناں۔ Recess time کو بچے آدھی چھٹی کہتے تھے۔ لنچ گھر سے ملنا تو خواب و خیال کی بات تھی۔ چند آنے بھی کبھی ملتے تھے، کبھی ہفتہ ہفتہ ان کی بھی پوری چھٹی‘ لیکن والدین کی محبت اور ان کے مسائل کا احساس یہ نقش ہربار اس طرح مٹا دیتے تھے جیسے سعود اپنی تختی لکھ کرحروف دھو ڈالتا تھا۔ ان گھرانوں کے بچے بہت حساس ہوں تب بھی ذہنی اور جسمانی طورپر اتنے مضبوط ہوجاتے ہیں کہ معمولی خراشیں انہیں زندگی بھر یاد تو رہتی ہیں لیکن تنگ نہیں کرتیں۔
خراشیں چھل گئی تھیں۔ میں نے آنکھیں پونچھیں۔ دل ذرا ہلکا ہوا تو ایک بار پھر عرفان صدیقی مرحوم (لکھنؤ) کا وہ شعر پڑھا اور ایک بار پھر میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
لوگ کیا جانیں کہ گزرے ہوئے موسم کیا تھے
جب قبا پر کوئی پیوند نشانی کا نہ ہو