دیکھنے اور سننے والے اب یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان مانگے تانگے کی سواریوں سے تنگ آ چکے ہیں اور اٹھارہویں ترمیم سے ملکی مفادات اور یکجہتی کو پہنچنے والے نقصان سے رنجیدہ لگتے ہیں ۔یہ بھی سنا ہے کہ اپنے اتحادیوں اور جماعت کے اراکین ِاسمبلی کی آئے روز پیش کی جانے والی نت نئی خواہشات اور مطالبات کی بلیک میلنگ سے بھی تنگ ہیں۔ان حالات کا تقاضا ہے کہ قومی سلامتی کونسل کو شامل کر کے ایک ایسا احتسابی اور معاشی سسٹم لایا جائے جس سے ملک کی معیشت اپنی منزل کی جانب سفر شروع کر سکے ۔ بلا شبہ وزیر اعظم عمران خان مرکز اور صوبوں میں اپنی کمزور ٹیم اور بد عنوان عنا صر سے تنگ آ چکے ہیں اور ان سے جس قدر جلد چھٹکارا حاصل کر سکیں ان کے لیے بہتر ہو گا۔ وہ اگر اپنی ہیرو سے زیرو ہوتی ہوئی شہرت کو پھر سے بام عروج پر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس کے لیے ہر محب وطن حلقے سے بات کرنا ہو گی کیونکہ جس طرح ملک میں چل رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ کوئی بنانا سٹیٹ ہے۔ وہ گھر ‘معاشرہ‘ ریا ست جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہواور سب بااثر حلقے دھڑوں میں بٹ جائیں وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ حضرت علی ؓ سے منسوب یہ قول یاد آ رہا ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ جہاں طاقتور اور بد عنوان اپنی دولت اور حیثیت سے فائدہ اٹھا کر بچ نکلیں اور غریب ‘ مسکین دھر لیے جائیں وہ جنگل کا معاشرہ کہلاتا ہے‘ کوئی مہذب ملک یا ریا ست نہیں۔ونسٹن چرچل نے بھی تو دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے ہر گھر کی تباہی اور بربادی دیکھنے کے بعد یہی پوچھا تھا کہ عوام کو انصاف مل رہا ہے اور جب انہیں بتایا گیا کہ برطانوی عوام کو انصاف مل رہا ہے تو پھر سب نے دیکھا کہ برطانیہ ایک عظیم فاتحہ قوم کی حیثیت سے ابھر کردنیا کے سامنے آگیا۔ لیکن اگر میں آج کے پاکستانی معاشرے کے بارے میں یہ سوال کروں تو اس کا جواب نفی میں ملے گا کیونکہ ہمارے ملک میں لوگ اپنے آئینی‘ قانونی اور سماجی حقوق سے محروم ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ریاست نے ہر فرد کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنی بقا کے اسباب خود مہیا کرے۔ دوا‘ علاج‘ تعلیم‘ تربیت اورذاتی تحفظ جیسے مسائل اب پاکستان کے افراد کا نجی معاملہ بنا دیا گیا ہے۔ جو اس کی طاقت رکھتے ہیں وہ یہ سہولیات بہم پہنچا لیتے ہیں جو نہیں رکھتے وہ محروم ہیں اور قدرت کے بھروسے پر ہیں۔
موجودہ حکومت کے طاقتور لوگ اپنے تمام عزیزوں ‘دوستوں اور کاسہ لیسوں کو جس طرح جی بھر کر نواز رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انہیں سوائے اس کے اور کوئی کام ہی نہیں۔ہر نئی پوسٹنگ اور کسی بھی ادارے میں طاقتورا ور منا فع بخش حیثیت کی سربراہی دلوانے کے لیے وہ وزیر اعظم کے کندھوں پر سوار رہتے ہیں۔ یہ وزرا تحریک انصاف کے اصلی اور پرانے عہدیداروں اور خان صاحب کے جانثار ساتھیوں اور ان کی جدوجہد کے دیرینہ رفقا اور تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد میں ہر طرح کی مصیبتیں برداشت کرنے والوں کو اپنا عدو سمجھتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے ایسے کارکنوں اور ساتھیوں کو خان صاحب کے قریب نہ پھٹکنے دیا جائے کیونکہ انہیں ہمہ وقت خوف ستاتا رہتا ہے کہ کہیں ایسے لوگوں کو دیکھ کر‘ ان سے مل کر عمران خان صاحب چاپلوسوں کے سحر اور خوشامدی حلقے سے نکل نہ آئیں‘ وہ دوست اور دشمن کی پہچان کرنا شروع نہ کر دیں۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ وزیر اعظم صاحب ایک دیانتدار شخصیت ہیں۔ عمران خان صاحب کا کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی ان پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں لگاتا اور یہ بھی واضح ہے کہ وہ ملک سے محبت اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ لئے ہوئے ہیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ان کی کابینہ کے اندر اور ارد گرد کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو سب اچھا کے سوا ان کے کچھ گوش گزار ہونے ہی نہیں دیتے۔ ان لوگوں کے کمالات کی طاقت دیکھئے کہ وزیر اعظم صاحب کا ویژن اور سوچ ایک طرف اور ان کے روزمرہ کے بیانات دوسری طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس حکومت کی پالیسی کیا ہے۔آپ مہنگائی ہی کو لیں‘وزرا ملک میں مہنگائی کم ہونے کے بیان دے رہے ہوتے ہیں مگر حقیقت میں اشیا کے نرخ اوپر جارہے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں جب بجلی ‘ گیس اور اشیائے خورونوش مہنگی ہو رہی ہوں اگر کوئی حکومتی شخصیت یہ بیان دے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عوام کے ذہنوں پر ایسے بیانات کے کیا اثرات ہوتے ہوں گے۔ ایسی وضاحتیں تو اپنے ناقدین کو خود مواد مہیا کرنے والی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومتی وزرا ایسے بیانات کے ذریعے اپوزیشن کی مدد کرتے ہیں‘ ان کی بندوقیں بھرتے ہیں۔
مہنگائی کا عفریت صرف پاکستانی عوام کو ہی نہیں بلکہ قومی اداروں کو بھی بری طرح متاثر کر رہا ہے۔اس صورتحال میں بھی دفاعی بجٹ میں دس فیصد کمی کا فیصلہ افواج پاکستان نے رضاکارانہ طور پر کیا۔ اس کے لیے انہیں کسی نے تجویز نہیں بھیجی تھی بلکہ ملک کی معاشی صورتحال کو سامنے رکھ کر اپنے پہلے سے منظور شدہ بجٹ کا دس فیصدحکومت پاکستان کوو اپس کر دیا۔فوجی فائونڈیشن اور اس کے ماتحت چلنے والے ایک درجن سے زائد صنعتی اور معاشی یونٹس ملک کی معاشی ترقی کا اہم حصہ دار ہیں اور روزگار کے مواقع پیدا کر نے کی مقدور بھر کوشش کررہے ہیں۔ قومی معیشت کے ان اہم شراکت داروں کے معاملے میں کسی پراپیگنڈے کا شکار ہونے یا معذرت خواہانہ اور دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں اس نقطہ نظر کو پروموٹ کرنا چاہیے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں عسکری خدمات سے ریٹائر ہونے والے‘ معذور یا جسمانی طور پر اَن فٹ ہو کرقبل از وقت فوج سے سبکدوش کر دیے جانے والے جوانوں اور افسروں کو اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے روزگار کہاں سے دیے جا ئیں ؟ہمارے ناقدین جن کمرشل اداروں کو ہدف بناتے ہیں‘ فرض کریں وہ نہ ہوتے تو کیا یہ پاکستان کی معیشت کے لیے اچھا تھا ؟ جو روزگار کے مواقع ان اداروں سے فراہم کئے گئے ‘ اگر یہ نہ ہوتے تو اتنے لوگوں کو کہاں کھپایا جاتا؟ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ امریکہ سمیت تمام ممالک اپنے سابقہ فوجیوں کیلئے ریٹائرمنٹ کے بعد بہت بہتر زندگی گزارنے کے مواقع پیدا کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس سوال کو بے وجہ متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب پندرہ بیس سالہ سروس کے بعد ایک فوجی ریٹائر کیا جاتا ہے تو اس کے بچے یاتو سکول کے ہائی درجہ یا کالج تک پہنچ چکے ہوتے ہیں ‘ان کی اعلیٰ تعلیم اور شادیوں کے اخراجات سر پرکھڑے ہوتے ہیں‘ایسے میں صرف پنشن میں یہ سب مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوجاتاہے‘ اس لئے اگر ان کی ایک بہت بڑی تعداد کو فوجی فائونڈیشن کے صنعتی اور تجارتی یونٹوں میں کھپا دیا جائے تو یہ عین قومی مفاد میں ہے‘کیونکہ اتنی بڑی تعدادکو سرکاری یا پرائیویٹ سیکٹرز میں کھپانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ‘ جبکہ کسی بھی فوج اور سکیورٹی ایجنسی کے بہت سے اخراجات ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے طے شدہ بجٹ بہت ہی کم پڑ جاتا ہے۔ اس کے لیے بہت سے مالیاتی ذرائع استعمال کرنا پڑتے ہیں ‘دنیا بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک ایسے ہی نہیں چلائے جاسکتے۔ جب اسرائیل اور بھارت سمیت دشمنوں کا ایک کارٹل آپ کے مد مقابل ہو‘ جب یہ گروپ آپ کی جڑیں کاٹنے اور کسی بھی لمحے آپ کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے منصوبے بنا رہا ہو تو اس کے لیے ان کے پہلو کے قریب سرنگیں اور سیڑھیاں لگانا ضروری ہو جاتا ہے اور یہ سب مفت میں نہیں ہو تا۔