کمزور حکومتی پالیسیز کے باعث روز ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں جو کسی صدمے سے کم نہیں ۔ غریب عوام کے لیے یہ خبریں بم شیل ثابت ہوتی ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کے خوابوں اور امیدوں کو تباہ کر دینے کا باعث بنتی ہیں اور صاحب حیثیت لوگوں کے لیے یہ ڈپریشن اور مایوسی کا سبب بنتی ہیں۔جیسا کہ حکومت نے بجلی کی قیمت میں 4 روپے 74 پیسے اضافہ کر دیا جس سے عوام پر 60 ارب روپے کا مزید بوجھ پڑ گیا۔ ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں‘ حکومت نے چالیس ماہ میں پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا قرض لے لیا ہے‘ شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ ہو گیاہے ‘بینک حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں‘ پٹرول کی قیمت پر ہر ماہ چار روپے پٹرولیم لیوی بڑھائی جائے گی‘ منی بجٹ میں ٹیکس چھوٹ ختم کر دی جائے گی‘چینی کی قیمت میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہو گیا‘ آٹے کا بحران پیدا ہو گیا‘ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر کے بدلے پاکستان کا سب کچھ لکھوا لیا‘ حکومت نے انڈسڑی کو گیس سپلائی بند کر دی اور گیس پر سبسڈی ختم کر دی گئی۔ یہ خبریں حکومتی غلط فیصلوں کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔
اگر گیس سپلائی معطل کرنے کے معاملے کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو حکومتی کارکردگی کی قلعی کھل جائے گی۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 11 دسمبر سے برآمدات نہ کرنے والی انڈسٹری کو گیس کی سپلائی نہیں کی جائے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں صنعتیں جو سستی توانائی کے لیے گیس پر انحصار کر رہی ہیں وہ کس طرح اپنے آپریشن جاری رکھ پائیں گی؟ کیا ایک ہی جھٹکے میں ہزاروں فیکٹریوں کو بند کر دینا اور لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کر دینا درست عمل ہے؟ سرکار کا یہ رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ وزراتِ توانائی سے جب اس حوالے سے استفسار کیا گیا تو ایک ذمہ دار آفیسر نے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی کہ سردیوں میں گیس کی بجائے بجلی سے صنعتیں چلائی جائیں‘ حکومت نے سردیوں کے لیے بجلی کی قیمت کم کر دی ہے۔مگریہ حکومتی بیان ''گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے‘‘ کے مترادف دکھائی دیتا ہے۔ مقامی صنعت سے وابستہ صنعت کاروں کا موقف ہے کہ جن نئے ریٹس پر حکومت بجلی فراہم کر رہی ہے وہ گیس کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں‘ اتنی مہنگی چیزیں بنانے سے بہتر ہے کہ فیکٹریاں بند کر کے گھروں میں بیٹھ جائیں کیونکہ مارکیٹ سے قیمت وصول نہیں ہو سکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کاروباری طبقہ کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے‘ ہمارے ساتھ ہزاروں خاندانوں کے روزگار جڑے ہیں لیکن سرکار نے ہم سے مشاورت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ ملک میں جاری گیس بحران سے نمٹنے کے اور بھی طریقے ہیں جن پر کام کر کے انڈسٹری بھی چلتی رہے گی اور گھریلو صارفین کو بھی گیس کی فراہمی معطل نہیں ہو گی۔ ہفتے میں انڈسٹری کو سات دن گیس دینے کی بجائے تین دن گیس فراہم کر کے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ سارا بوجھ مقامی ضرورت پوری کرنے والے فیکٹری مالکان پر ڈال دینا ناانصافی ہے۔ گھریلو صارفین اور برآمدات سے جڑی انڈسٹری کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ متاثرہ صنعت کاروں کا یہ مطالبہ درست دکھائی دیتا ہے۔ سرکار کو پالیسیز بناتے اور فیصلے لیتے وقت انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ متوازن فیصلے ہی بہتر نتائج پیدا فراہم کر سکتے ہیں۔
اس سے پہلے گیس پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کے اعلان نے بھی بد اعتمادی کی فضا پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ۔ عوامی سطح پر پہلے ہی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ کاروباری طبقہ حکومت کے غیر متوازن فیصلوں کے باعث اپنی پالیسیز بنانے اور مستقل مزاجی کے ساتھ کاروبار کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ حکومت چھ ماہ پہلے اشیا پر ٹیکس چھوٹ کا اعلان کرتی ہے‘ کاروباری طبقہ اس فائدے کے پیش نظر نئی انڈسڑی لگاتا ہے‘ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور ایک دن سرکار ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیتی ہے اور اس طبقے سے مشاورت کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والوں کا جو نقصان ہوا اس کا ازالہ کون کرے گا؟ جن کا سرمایہ ایک مرتبہ ڈوب جائے وہ کس طرح دوبارہ سرمایہ کاری کریں گے اور ان سے منسلک دیگر شعبوں اور صنعتوں کے لوگ کس طرح حکومت پر اعتماد کر سکیں گے؟ وزیراعظم صاحب یہ گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آ رہی۔ نئے مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں 12 فیصد سے زیادہ کمی ہو چکی ہے اور موجودہ حالات کے پیش نظر اس میں مزید کمی ہو سکتی ہے جس سے نہ صرف پاکستانی معیشت پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر حکومتی پالیسیز پر بھی اعتماد کا فقدان دکھائی دے رہا ہے۔
مشیران وزیراعظم کو حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے سارا بوجھ افغانستان پر ڈال رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم صاحب کو یہ رپورٹ دی گئی ہے کہ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں کمی کی وجہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے۔ پاکستان کی جانب سے طالبان کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ بین الاقومی سطح پر یہ تاثر تقویت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ اگر مستقبل میں افغانستان اور طالبان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو پاکستان بھی ان سے بچ نہیں پائے گا جس کے باعث بیرونی سرمایہ کار پاکستان آنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ سرکاری بابوؤں کا یہ بیانیہ آدھا سچ اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ بیرونی سرمایہ کار فیصلہ سازی سے پہلے اس ملک کے مقامی سرمایہ کاروں کا موقف جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر مقامی سرمایہ کار منفی رپورٹ دیں تو حکومت چاہے کتنی یقین دہانیاں کروا لے وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو قائل نہیں کر سکتی۔ اصل مسائل تک پہنچنے اور ان کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کاروباری طبقوں اور سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لے کر ان کی مشکلات سنی جائیں اور باہمی مشاورت سے جو لائحہ عمل طے ہو اس پر من و عمل عمل کیا جائے۔
ایک طرف صنعت کار پریشان ہیں اور دوسری طرف مشیر خزانہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ حکومت درست راستے پر چل رہی ہے اور اب تو میں بھی یہ کہتا ہوں کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صنعتیں بند ہونے پر بھی نہیں گھبرانا تو پھر کب گھبرانا ہے؟ اگر آپ مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتے تو عوام کے زخموں پر نمک پاشی بھی مت کیجیے۔ مہذب معاشروں میں غیر سنجیدہ رویہ کرپشن سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس کی علاوہ گیس کی کمی پیدا کرنے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس معاملے کا بھی احتساب کیا جانا چاہیے کہ گیس کے ممکنہ بحران کی اطلاعات ہونے کے باوجود بروقت سپلائی کو کیوں ممکن نہیں بنایا جا سکا؟ ایل این جی کمپنیوں سے مبینہ طور پر کمزور معاہدے کس نے کیے؟ کن افسران‘ سیاستدانوں اور ان کے دوستوں کی کمپنیوں نے گیس بحران پیدا کر کے اس سے فائدہ اٹھایا ہے؟ سرکار سے جب اس معاملے پر استفسار کیا جائے تو واضح جواب دینے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔حماد اظہر صاحب آج تک یہ نہیں بتا پائے کہ گیس بحران کاذمہ دار کون ہے‘جس کے باعث یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ وزیر موصوف یا تو مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں یا مافیا کا حصہ ہیں۔وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کر کے عوام کے سامنے حقائق لے کر آئیں تا کہ حکومت پر عوام کااعتماد بحال ہو سکے اور آنے والے سالوں میں گیس کا بحران دوبارہ پیدا نہ ہو۔