ووٹ ووٹر کی ایک بھاری ذمہ داری ہے یہ ذمہ داری اس کو بہت بھاری پڑتی ہے۔
انتخابات سیاست کا رِنگ روڈ ہیں۔
ننھے بچوں اور سیاستدانوں کی گفتگو کانوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔
سیاست میں نظریہ دو ٹوک نہیں‘ دو ٹھوک نظریہ ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتیں سیاسی دواخانے ہیں‘ جہاں ہر قسم کا جوشاندہ دستیاب ہوتا ہے۔
ووٹ اور الیکشن کا ایک دن معین ہے‘ موت کا بھی ایک دن معین ہے۔
سیاست اور سیاست دان کا چولی دامن کا ساتھ ہے؛ چولی کس کی اور دامن کس کا‘ خود اندازہ کر لیں۔
سیاست کا عشق اور سیاستدان کا عشق‘ دونوں جاری رہتے ہیں۔
سیاست کھیت ہے اور عوام اس کھیت کی مولی۔ انتخابی نشانوں میں ایک نشان مولی کا بھی ہے۔ اس ضمن میں ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔
زندگی بھی سیاست ہے مگر اسے الیکشن سے نہیں جیتا جا سکتا۔
سیاستدان اور ڈاکٹر عوام کو مسلسل گولی دیتے رہتے ہیں۔ گولی گول ہونے کی وجہ سے گولی کہلاتی ہے سیاستدان گول ہونے سے روکتا ہے‘ وہ خود گول پوسٹ ہے۔
سیاست میرا تھن ہے اور سیاستدان پیرِ تسمہ پا۔
سیاستدان وہ جیب کی گھڑی ہے جسے چابی کہیں اور سے ملتی ہے۔
سیاست میں کمانا جائز ہے خواہ پیسہ ہو یا نام۔
اردو‘ اردوئے معلی ہو سکتی ہے مگر سیاست‘ سیاستِ محلہ ہی رہتی ہے۔
ناک میں دم کرنا کی عملی شکل دیکھنا مقصود ہو تو اپنے سیاستدان دیکھ لو۔
کہتے ہیں انسان پہلے بوزنہ ہوتا تھا‘ سیاستدان مگر پہلے بھی سیاستدان ہی ہوتا تھا۔
حرکت میں برکت ہوتی ہے مگر سیاست میں صرف سیاست ہوتی ہے۔
ہر مال ملے گا دو آنے کا عملی مظاہرہ ایوان میں دیکھا جا سکتا ہے۔
استاد نے بتایا: آوازے کسنا کو جملے میں استعمال نہیں کیا جاتا‘ اسمبلی میں کیا جاتا ہے۔
''قہاری و غفاری و قدوسی وجبروت‘‘ یہ چار عناصر مل کر بھی سیاستدان نہیں بنا سکتے۔
اسمبلی میں بیمار آدمی بھی چار گھنٹے تقریر کر سکتا ہے‘ مسئلہ تقریر کرنے کا نہیں اتنی دیر تالیاں بجانا کارے دارد ہے۔
اظہر عنایتی نے کہا تھا:
وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
شعبدہ باز شعبدے دکھاتا ہے‘ سیاست دان سیاست کرتا ہے۔
دنیا گول ہے یقین نہ آئے تو سیاستدان سے پوچھ لیں۔
فائزر اور سائنوفارم ویکسین تو کورونا کا علاج ہیں‘ وزراکس مرض کی دوا ہیں؟مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی؟
سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا:عمرِ دراز مانگ کے لائی تھے چار دن۔ غالباً ان کا اشارہ عمردراز رکن اسمبلی کی جانب ہو گا۔
سیاسی بیان اصل میں سنیاسی بیان ہوتا ہے۔
آواگون کا نظریہ کہتا ہے کہ دوسرا جنم بھی لیا جاتا ہے‘ سیاست تو نام ہی جنم لینے کا ہے۔ پتا نہیں ان کا آخری جنم کس یُگ میں ہو گا۔ ہمارے لیے یہ کلجگ ہے۔
دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘ فقرہ نامکمل ہے اسے آپ مکمل کر سکتے ہیں۔
ستارہ چمکے نہ چمکے سیاست ضرور چمکتی ہے۔
ووٹ دینا ہمارا حق ہے‘ ووٹ لینا سیاستدان کا حق نہیں بلکہ اس کا فرض ہے‘ خواہ جیسے بھی لے۔
کہتے ہیں پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی بعینہٖ سیاستدان کا ہے فرض خدمت آپ کی۔
ووٹرز سیاستدانوں کی خدمت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
بلھے شاہ نے کہا تھا:
تینوں کافر کافر آکھدے توں آہو آہو آکھ
پتا نہیں وہ کس کو کہہ رہے ہیں‘ کم از کم وہ جھوٹ تو نہیں بولتے ہوں گے۔
صبح کی سیر اور شام کی تقریر سے ہمارا مکمل پرہیز ہے۔ تقریر خواہ گھر میں نہ ہو‘ سنی تو گھر میں ہی جاتی ہے۔
قومی اسمبلی کی کارروائی کور کرنے والے رپورٹر بھی ہوتے ہیں‘ وہ جو کچھ وہاں ہوتا ہے‘ اس کو بیان کرتے ہیں۔ اشاروں کی زبان کو وہ کیسے بیان کریں گے؟ اگر وہ اشارے ترجمہ ہو سکتے تو اشاروں اشاروں میں کیوں کہے جاتے؟
شاعر نے کہا تھا: ''ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا‘‘ ہمیں تو یہ سیاستدان دیکھ کر خدا یاد آیا ہے‘ شاعر کا روئے سخن کس طرف ہے وہ شاعر جانے۔
ووٹر الیکشن کے دن اپنے حق راے ''دَہی‘‘ کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ امیدوار حقِ رائے ''دودھ‘‘ کے لیے نکلتا ہے۔
پطرس نے فرمایا تھا: بکری کے فوائد ہیں کہ دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی‘ ان دونوں کو آپس میں ملا کر سیاستدان ہی پیش کرتا ہے۔
ووٹ امید وار کو الیکشن کے دن سلامی ہے‘ وہ اس سلامی کو اکیس توپوں کی سلامی سمجھتا ہے‘ ان تمام اکیس توپوں کا رخ صرف اس امیدوار کی جانب ہونا چاہیے۔
تمام سیاسی جماعتیں یہی سمجھتی ہیں کہ وہ ووٹ کی صحیح حقدار ہیں‘ اس سے بڑا اور کیا مذاق ہو گا۔
کہتے ہیں ہاتھ کی لکیروں میں اقتدار چھپا ہوتا ہے‘ ہر چیز چھپی ہوئی ہوتی ہے مگر کردار نہیں چھپ سکتا۔
ہماری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ الیکشن کا رزلٹ شام تک معلوم ہو جاتا ہے‘ سلیکشن کا عوام کو پتا نہیں چلتا۔
کسی نے کہا تھا ''یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘، کمپنی تو چل رہی ہے‘ غالباً اسے اب یہ کہنے والے نے ہی خرید لیا ہو گا۔
پہلے کمپنی بہادر کی حکومت ہوتی تھی‘ اب کمپنی بہادر کے سیاستدان ہوتے ہیں۔
سیاستدان اپنی سرگزشت بھی لکھتے ہیں‘ مشتاق یوسفی نے اپنی پہلی تصنیف کا نام زرگزشت رکھا تھا، اچھا ہوا یوسفی صاحب نے یہ نام رکھ لیا‘ ورنہ ہر سیاست دان یہی نام رکھتا۔
عدالتوں میں سیاستدان ایسے پیش ہوتے ہیں جیسے وہ ہمیں درپیش ہوتے ہیں۔
الیکشن والے دن جیتنے والے کو خوشی سے نیند نہیں آتی‘ پانچ سال ہارنے والا نیند میں بھی ہڑبڑا اٹھتا ہے۔ مان لیں‘ ہم سچ کہہ رہے ہیں: چینلز پر آٹھ اور نو کے درمیان اپوزیشن رہنمائوں کی سوجی ہوئی آنکھیں اس کی گواہ ہیں۔
سلطان ٹیپو نے کہا تھا: شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے، سلطان ٹیپو بہادر اور دلیر تھے مگر سیاست دان نہ بن سکے۔ اب تو اصل اصول ہے کہ گیدڑ بن جائو اور شیر کی طرح‘ سو سال کی زندگی گزار لو، ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔