تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     14-12-2021

Plutocracy …(3)

Plutocracy میں حکمرانوں کا واحد مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے نہ کہ عوامی خدمت اور نہ ہی فلاحی مملکت کا قیام۔ وہ قوتِ اُخوت عوام کی بجائے اپنے ناجائز طریقہ سے کمائے ہوئے سرمائے کی بدولت Electable بن کر عرصہ کرسیٔ اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں۔
پرانے وقتوں کی بات ہے جب میرے دوست میاں محمد یاسین وٹو مرحوم پاکستان کے وزیر خزانہ بنائے گئے۔ میاں صاحب پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے اور زمیندار ہونے کے باوصف ذرائع پیداوار کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے مگر اُنہیں معاشی امور کی الف ب بھی نہیں آتی تھی۔ وفاقی سیکرٹری اُن کے آگے جو بھی فائل رکھتا وہ بغور پڑھے بغیر‘سرسری نظر سے دیکھ کر اُس پر دستخط کر دیتے تھے۔ اس طرح گاڑی بخوبی چلتی رہی۔ سیکرٹری خوش اور وزیربھی خوش۔ ناخوش صرف کروڑوں عوام تھے جن کا ایک بھی معاشی مسئلہ حل کرنا نہ سیکرٹری اور نہ وزیر کی ترجیحات میں شامل تھا۔ سوچتا ہوں کہ وٹوصاحب (اپنی مکمل لاعلمی کے باوصف) ڈاکٹر محبوب الحق‘ شوکت عزیز‘ حفیظ شیخ‘حفیظ پاشا اور شوکت ترین سے بدرجہا بہتر تھے۔ جودعویٰ معاشی ماہر ہونے کا کرتے ہیں مگر مریض کا علاج جس دوا سے کر تے ہیں وہ مریض کی بیماری کو کم کرنے کے بجائے اور بڑھا دیتی ہے۔ بیماریاں ایک نہیں کئی ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بجٹ خسارہ‘ قرضوں پر انحصار۔ گرتا ہوا روپیہ اور اُوپر چڑھتا ہوا ڈالر۔ ان کا کیا علاج ہے؟ وہ کون کرے گا اور کب؟ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ لاکھوں ایکڑ زمین بنجر اور بے کار پڑی ہے۔ دوسری طرف ہمارے لاکھوں کا شتکار بے زمین ہیں۔ آپ یہ زمین انہیں آسان قسطوں پر کیوں نہیں دیتے؟ وہ اپنی خوراک خود اُگائیں گے اور ہمیں بھی کھلائیں گے۔ اگر راولپنڈی میں بارانی یونیورسٹی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی تو اس کا کیا مصرف ہے؟ ماضی قریب میں عاصمہ جہانگیر فائونڈیشن کے زیر اہتمام تاریخی اجلاس نے ثابت کر دیا کہ سول سوسائٹی کو حکم اذاں مل چکا ہے اب صرف اس سے خیرکی توقع کی جا سکتی ہے۔ کالم نگار کی رائے میں قومی اتفاق رائے ہمیں بڑھتے ہوئے اندھیرے سے اُس روشنی کی طرف لے جا سکتا ہے جس کا خواب تحریک پاکستان میں (کالم نگار کی طرح) حصہ لینے والے ہر شخص نے دیکھا تھا۔
ہمارے کسی بہت اچھے شاعر نے بھلے وقتوں میں ایک بڑا مناسب سوال ہمارے سامنے رکھا تھا کہ وہ ملک جو عوام نے اپنے قائد کے پیچھے چل کر اور بڑی قربانیاں دے کر بنایا تو اُن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہاں خلقِ خدا راج کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ کب راج کرے گی خلق خدا؟ 73 سال گزر گئے مگر سوال بدستور جواب طلب ہے۔ Plutocracy(امیر شاہی) کے راج میں خلق خدا کا کیا کام؟ کیا مقام؟ کیا کردار؟ کیا حیثیت؟ وہ تو زمین پر رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح سمجھی جاتی ہے۔ عوام نہیں (وہ تو آزاد اور جمہوری ملکوں میں ہوتے ہیں) صرف اور صرف رعایا۔ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ جسے ڈنڈے سے ہانکا جا سکتا ہے۔ اور جاتا ہے۔ بھلا کرے کالم نگار کے ممدوح ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا جو ہمیں بتاتے ہیں کہ لوٹی ہوئی چوری (ہر قسم کی چوری )اور ٹیکس چوری کی دولت کو ملک کے اندر چھپانے اور کالے دھن کو سفید کرنے کا سب سے محفوظ طریقہ اُسے زمین اور مکان میں تبدیل کرنا ہے۔ پانامہ اور پنڈورالیکس کے مطابق دور دراز جزیروں میں جو اربوں ڈالر چھپائے گئے ہیں۔ اُن کی وصولی اور بازیابی تو کٹھن کام ہے۔ مقابلتاً زیادہ آسان کام ملک کے اندر امیر شاہی کے چھپائے ہوئے اربوں روپے بازیاب کرانا ہے۔
تحریک انصاف کا منشور ایک نظر دیکھ لیں۔ وعدہ کیا گیا تھاکہ زرعی شعبہ اور جائیداد سیکٹر پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ کیا ایسا ہوا؟ جواب نفی میں ہے۔ کیوں نہیں؟ امیر شاہی اور مافیا کی وجہ سے۔ مذکورہ بالا منشور میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ریاست اُس جائیداد کو قومی ملکیت میں لے آئے گی جس کی مالیت مارکیٹ کے نرخ سے کم ظاہر کی جائے؟ کیا ایسا ہوا ؟ ہرگزنہیں ہماری معیشت کو دستاویزی بنانا۔ کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا۔ جائیدادوں کے سرکاری ریٹ کو مارکیٹ کے برابر لانا۔ ہرکمانے والے شخص کی آمدنی کو ٹیکس کے دائرے میں لانا۔ جنرل سیلز ٹیکس کو پانچ فیصد کم کرنا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ ہمارے ہر وزیر کا ایک ہی کام رہ گیاہے‘ امیرشاہی اور مافیاسے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنے دوست ملکوں اور اپنے پرانے سرپرست امریکہ کے اشاروں پر چلنے والے IMF سے مزید قرض لے کرپہلے لئے گئے قرضوں کی قسطیں ادا کرنا۔ آپ نے دیکھا کہ پہلے کارواں کی متاع لوٹ لی گئی اور پھر کارواں کے دِل سے احسا س زیاں جاتا رہا۔
سوال یہ ہے کہ ہم اب اس دلدل سے باہر نکلیں تو کیونکر؟ رونے پیٹنے سے کام تو نہیں بنے گا۔ کالم نگار کی رائے میں صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ تمام سیاسی جماعتوں کے محب الوطن اور روشن دماغ افراد‘ اساتذہ‘ کسان‘ مزدور‘ صحافی اوریونیورسٹی طلبہ و طالبات اور دانشور ہر شہر میں ہر ماہ باقاعدگی سے اجلاس منعقد کریں اور مل جل کر قومی مسائل کا حل سوچیں۔ قومی مسائل صرف قومی اتفاق رائے سے حل کئے جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت الیکشن جیت جائے تو اُسے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ دو تہائی لوگ (کم از کم) اس کے مخالف ہوتے ہیں یا (زیادہ سے زیادہ) بدترین دشمن۔ وہ کچھ کرنا چاہے بھی تو اُسے اُس کی توفیق نہیں ہوتی۔وہ مصنوعی تنفس کے سہارے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر‘ اپنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر اراکین اسمبلی کو کروڑوں روپوں کے سالانہ فنڈز دے کر اور امریکہ کی نہ صرف گھرکیاں اور دھمکیاں سن کر بلکہ اس کے نادر شاہی احکامات کی تعمیل کر کے چند سال گزار لیتی ہے۔ برسر اقتدار افراد برُی طرح ناکام ہو جائیں (جس طرح ان 73 سالوں میں ہوتا چلا آیا ہے) تو لوگوں کو حزبِ مخالف کی فاش غلطیاں‘ مہلک فیصلے اور عوام دشمن حکمت عملی بھول جاتی ہیں اور کروڑوں سادہ دل‘ بے بس و لاچار آفت زدہ اور دکھی عوام پھر پُرانے عطار کی دکان پر دوا لینے پہنچ جاتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ برسر اقتدار طبقہ ایک قبیلہ ہے۔ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے۔ ایک ہی گھر کے افراد نے اپنی دو ٹیمیں بنا رکھی ہیں۔ شائستہ زبان میں انہیں Electableکہا جاتا ہے۔ (انگریزی محاورہ کے مطابق) انتخابات ہوں تو رائے دہندگان کے ایک طرف سنگلاخ چٹان ہوتی ہے اور دوسری طرف گہرا سمندر۔ کالم نگار نے مندرجہ بالا سطور لکھ کر اپنے پڑھنے والوں کا دل کافی دکھایا۔ مناسب ہوگا کہ کالم ایک لطیفے پر ختم کیا جائے تاکہ آپ مسکرا سکیں۔
قریباً ساٹھ سال پُرانی بات ہے کہ ایک اسمبلی کے اراکین آپس میں لڑ پڑے۔ سپیکر صاحب بہت ناراض ہوگئے۔ اُنہوں نے بلند اور غصیلی آواز میں کہا کہ یہ قانون ساز اسمبلی ہے چنگڑ محلہ نہیں‘ Behave yourself۔ چند ماہ بعد چنگڑ محلہ میں پنچا یت کے اجلاس میں شرکا آپس میں لڑ پڑے۔ سر پنج کو اتنا ہی غصہ آیا جتنا اسمبلی کے سپیکر کو آیا تھا۔ اُس نے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے اپنی برادری کو یاد دلایا کہ وہ چنگڑ قبیلے کے معزز رکن ہیں اور جہاں بیٹھے ہیں وہ چنگڑ محلہ ہے قانون ساز اسمبلی نہیں‘ Behave yourself۔
پس تحریر: Plutocracyپر تین اقساط میں کالم لکھنے کیلئے سینئر ایڈووکیٹ سید فیروز شاہ گیلانی صاحب کے ایک پرُانے بصیرت افروز مقالہ سے استفادہ کیا گیا‘ اُن سے پیشگی اجازت مانگے بغیر میری تحریر کا ثواب یقینا گیلانی صاحب کو جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved