افغان جنگ میں شکست نے اگرچہ دنیا بھر میں امریکی اتھارٹی کو کمزور اور ٹرانس اٹلانٹک اتحاد میں گہری دراڑیں ڈالیں لیکن اس کے باوجود فی الحال امریکہ اپنا راستہ بدلنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ اُسے واحد سپرپاور بن جانے کے رومانس سے باہر نکلنے کیلئے کچھ وقت درکار ہو گا؛ تاہم امریکیوں کا یہی طرزِعمل اُس یورپی سیاست کی حرکیات کو بدل سکتا ہے جس کا انحصار ہمیشہ واشنگٹن کی طاقت پہ رہا۔ ورچوئل ڈیموکریسی سمٹ کے ذریعے چین کے خلاف نئی سردجنگ کی صف بندی ہو یا ہیومین رائٹس واچ کی رپوٹ کو بنیاد بنا کرافغانستان جیسی کمزور مملکت کے اندرونی معاملات میں مداخلت‘ سب اُسی احساسِ برتری کا شاخسانہ ہیں جس کے وبال نے مغرب کی اندرونی کمزوریوں کو عریاںکرڈالا اورکم و بیش یہی طرزِ عمل کانگریس کے مباحثوں میں دیکھنے کو ملا جہاں امریکی جرنیلوں کے محاسبے کے دوران اراکین کے تلخ سوالات کا لب و لباب یہی تھا کہ افغانستان میں امریکہ کی فوجی جارحیت کا استقبال کیوں نہیں کیا گیا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکہ کرۂ ارض کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت بن کے ابھرا، اس سے پہلے کبھی تاریخ میں کسی تہذیب کو اتنی وسیع معاشی بنیادیں میسر نہیں آئی تھیں، دنیا کی اقتصادی پیداوار کا تقریباً 20 فیصد ڈالر میں ماپا گیا، بین الاقوامی تجارت کا 80 فیصد امریکی ڈالر کے تابع رہا، عالمی صنعت کے ہر شعبے؛ بینکنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، دفاع، خلائی اور ایروناٹکس انجینئرنگ؛ میں امریکی کمپنیاں سرفہرست رہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں امریکی صدارتی انتخابات عالمی میڈیا کا سب سے بڑاموضوع رہا۔ دنیا امریکی صدر کی بات کو سنجیدگی سے لیتی رہی کیونکہ ان کے فیصلے بین الاقوامی سیاست پہ اثر انداز ہونے کی قوت رکھتے تھے بلکہ عالمی سلامتی کی وضاحت دنیا کی مضبوط ترین امریکی فوج کی چالوں کے بغیر ممکن نہیں تھی لیکن افغانستان میں شکست کے بعد واشنگٹن دنیا کی رہنمائی کا وہ مقام کھوبیٹھا ہے جس نے مغرب کے سرمایہ دارانہ تمدن کو مربوط رکھا ہوا تھا۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ عراق اور شام کی جنگوں سے لے کر افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری مہمات تک پہ اپنی گرفت مضبوط نہیں رکھ سکی۔ افغانستان سے فوجی پسپائی نے ہی عالمی قیادت کا اعزاز برقرار رکھنے کی امریکی صلاحیت کو گہنا دیا؛ چنانچہ جیو سٹریٹیجک اہمیت کی حامل امریکی خارجہ پالیسی اپنی سمت کھو بیٹھی جس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مابین بداعتمادی کی خلیج پیدا ہونے لگی۔ 2011ء میں ایبٹ آباد آپریشن سے پہلے ہی‘ صدر اوباما نے افغانستان میں کامیابی کو مستحکم پاکستان سے جوڑتے ہوئے جو نئی پاک افغان پالیسی متعارف کرائی‘ بہت جلد وہ امریکی مقتدرہ کے مابین تضادات کا شکار ہو گئی۔ امریکہ 20 سالوں تک افغانستان میں قوم سازی کی مشق کا معمار بنا رہا لہٰذا صدر جو بائیڈن جب کہتے ہیں ''امریکی مشن کو کبھی بھی قوم سازی نہیں کرنا چاہیے تھی‘‘ تو ان کے خیالات افغانستان میں قوم سازی اور جمہوریت کے قیام کے حوالے سے امریکی عزم کی تردیدکرتے ہیں۔
سرعت کے ساتھ بدلتی دنیا میں افغانستان اپنی جغرافیائی حیثیت کے اعتبار سے جب نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور، بھارت کی سینٹرل ایشیا کی منڈیوں تک رسائی اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کیلئے بین الاقوامی تجارتی راستوں کا اہم لنک بنتا نظر آیا تو تاریخ کے اس اہم مرحلے پہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں افغانستان پر طالبان کے قبضے نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی۔ جنوبی ایشیا میں امریکی موجودگی صرف دفاعی مقاصد تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ خطے کے ممالک بالخصوص چین کے معاشی محاصرے کے مقاصد کو بھی پورا کرتی تھی۔ اس لیے افغانستان میں امریکہ نے صرف جنگ نہیں بلکہ بادی النظری میں عالمی اقتصادیات کی پوری بازی ہار دی ہے۔ بلاشبہ امریکی انخلا بین الاقوامی تعلقات کے لئے گیم چینجر ثابت ہوا۔ افغانستان میں محض امریکہ نے شکست نہیں کھائی بلکہ اس مہم کا تعلق امریکی اتحادیوں کی بقا سے بھی جڑا ہوا تھا۔ یورپی یونین کے سینئر سفارت کار تسلیم کرتے ہیںکہ ''یورپ بھی ناکامی کا پوری طرح ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ صرف امریکی جنگ تھی‘‘۔ سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے اکتوبر 2001ء میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف فضائی حملوں کا اعلان کرتے وقت کہا تھا کہ افغانستان میں ہمارے مشن کے پیچھے ''دنیا کی اجتماعی مرضی‘‘ شامل ہے۔ 7 اکتوبر 2001ء کو ٹریوس ایئربیس پر امریکہ ''ناکام نہیں ہو گا‘‘کا عزم کر کے آغاز کی جانے والی طویل جنگ کے باوجود مغرب مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار گیا، جس کے بعد امریکی انخلا کا منصوبہ نااہلی نظر آنے لگا۔ واشنگٹن کی اسی غلطی نے اتحادیوں کو اُس دلدل میں کھینچ لیا جس سے نکلنے کیلئے امریکہ کو اپنی عالمی قائدکی حیثیت قربان کرنا پڑی۔ سب کو اس حقیقت کے ساتھ حساب لگانا پڑا کہ 20 سال کی طویل جنگ میں ساڑھے ہزاروں جانیں گنوانے اورکھربوں ڈالرخرچ کرنے کے بعد بھی ان کے پاس اپنے لوگوں کو دکھانے کیلئے کچھ نہیں بچا، شایداس لیے لندن، برلن اور برسلز کے لیڈروں اور ریاستہائے متحدہ کے مابین باہمی الزام تراشی کا آغاز ہوا۔ سابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے پارلیمنٹ میں سوال اٹھایا کہ ''کیا واقعی ہماری ذہانت اتنی کمزور تھی؟ کیا افغان حکومت بارے ہمارے اندازے اس قدر ناقص تھے؟ کیا زمین پر ہمارا علم اتنا ناکافی تھا؟یا ہم نے صرف یہ سوچا کہ ہمیں امریکہ کی پیروی کرنی ہے‘‘۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس سوال نے کہ امریکہ نے انخلا کی ٹائم لائن پر اتحادیوں سے کتنی مشاورت کی؟پھر اس بحث کو زندہ کر دیا جس نے برسوں سے ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ کیا برطانیہ اور یورپی ممالک سلامتی کیلئے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے رہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ یورپ میں امریکی خارجہ پالیسی کے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں جو غیر یقینی پائی جاتی ہے‘ شاید اِنہی اختلافات کا حصہ ہے، جسے ہم اب دیکھ رہے ہیں اورجس کی جڑیں اس بے چینی کے احساس میں پائی جاتی ہیں کہ مستقبل میں یورپ کے معاملات کیسے چلیں گی۔ بظاہر یہی لگتا ہے اس شکست نے نیٹو کے مستقبل کو مخدوش بنا دیا ہے۔ اگرچہ جنرل سٹولٹن برگ نے کہا ہے ''ہم اکٹھے افغانستان گئے، ہم نے ایک ساتھ اپنی کرنسی کو ایڈجسٹ کیا اور ہم ایک ساتھ افغانستان چھوڑنے کے لیے متحد ہیں‘‘۔ یہ یکجہتی طے شدہ تھی کیونکہ امریکہ کے جانے کے بعد نیٹوکے پاس افغانستان میں رہنے کی صلاحیت نہیں تھی، اسی سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یورپی ممالک کا امریکہ پہ کتنا انحصار تھا۔
اتحادیوں کی ان تمام باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی صورتحال پر ان کا کنٹرول کتنا کم تھا، کم از کم جرمنی میں اسے ''بے بسی‘‘ کے احساس کے طور پر بیان کیا گیا۔ ہرچند کہ اوباما انتظامیہ نے واضح کر دیا کہ امریکہ ہمیشہ کیلئے جنگوں کے بارے میں اپنی سوچ بدل رہا ہے لیکن ٹرمپ کی ''امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسی اور بعض اوقات یورپی یونین اور نیٹو کے ساتھ کھلی مخاصمت نے ان خدشات کو مزید بڑھا دیا کہ یورپ ہمیشہ امریکہ پر بھروسہ نہیں کر پائے گا۔ جوبائیڈن نے بھی اتحادیوں سے تعلقات کی ازسر نو تعمیر کا وعدہ کیا لیکن افغانستان سے نکلنے کے بعد یہ احساس مزید پختہ ہوا کہ شاید ٹرمپ سے منسوب کچھ چیزیں درحقیقت ان گہرے حقائق کا جُز تھیں جو امریکہ میں سیاسی عمل کے دونوں طرف چل رہے ہیں۔ افغانستان تازہ ترین کینوس ہے جس پر اس بے چینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو یورپ کے دارالحکومتوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کا رخ امریکہ کی جانب مُڑ سکتا ہے لیکن بہر طور یہ انحراف ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپی ممالک اتنے طاقتور نہیں جتنا وہ بننا چاہتے ہیں۔ کیا واقعی افغانستان ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کو تبدیل کر دے گا؟افغانستان نے نیٹو میں نئی فالٹ لائنیں کھول دی ہیں؛ تاہم عالمی سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ممکنہ طور پر وہ محرک نہیں جو مکمل طور پر اس تعلق کو توڑ ڈالے۔