کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں پہاڑوں سے وابستہ ہوں۔ میرا دل کرتا ہے کہ میرا ایک چھوٹا سا گھر پہاڑوں کے دامن میں ہو اور ہفتے کے تین دن میں وہاں بسر کروں‘ وہاں بیٹھ کر گھنٹوں بادلوں‘ پہاڑوں اور جھرنوں کو دیکھوں‘ پگڈنڈیوں پر چلوں‘ جنگلی حیات کو دیکھوں‘ حشرات الارض پر غور کروں‘ خوب فوٹوگرافی کروں اور وی لاگ بنائوں۔ وہاں بیٹھ کر کالم لکھوں‘ زندگی کے مقصد کو سمجھوں‘ اللہ کی عبادت کروں۔ پہاڑوں کی خاموشی اور جھینگر کی آواز سنوں۔ پھولوں کی خوشبو‘ پہاڑ‘ برف ‘بارش اور گہرے بادل مجھے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ پہاڑی سلسلے ہوں یا بلند و بالا چوٹیاں‘ مجھے سب پسند ہیں۔
پاکستان سے بہت سے عظیم پہاڑی سلسلے گزر رہے ہیں‘سو میں نے سوچا کہ پہاڑوں کے عالمی دن کے حوالے سے ان پر بات کی جائے۔ پہاڑوں کا عالمی دن 11 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں کئی پہاڑی سلسلے ہیں؛ تاہم اگر میری پسند کی بات کی جائے تو مجھے ملکہ کوہسار مری، بھوربن اور ایبٹ آباد بہت پسند ہیں۔ان کے علاوہ بھی بہت سے پہاڑی سلسلے ہیں جو پاکستان کی شان کو چارچاند لگارہے ہیں۔ دنیا میں 8 ہزار سے بلند چودہ چوٹیاں ہیں جن میں سے 5 پاکستان میں ہیں ؛ان کے نام کے ٹو، نانگا پربت، گاشر برم ون، پروڈ پیک اور گاشر برم ٹو ہیں۔ اگر ہم پہاڑی سلسلوں کی بات کریں تو کوہ ہمالیہ‘ کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کا جس جگہ ملاپ ہوتا ہے‘ وہ جگہ پاکستان میں ہے۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پاکستان میں ہے۔ اس کے علاوہ ''کِلر مائونٹین نانگاپربت‘ جو دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے‘ بھی یہیں ہے۔ 15 بڑے اور اہم پہاڑی سلسلے اس وقت پاکستان میں موجود ہیں جن میں کوہ ہمالیہ، کوہ قراقرم، پاسو، کوہ ہندو کش، سپن گھر، کوہ سلیمان، سالٹ رینج، مارگلہ ہلز، توبا کاکڑ، مکران رینج، چاغی رینج، کیرتھر، راس کوہ رینج اور دیگر شامل ہیں۔
ہمارے ملک میں اتنے خوبصورت مقامات ہیں کہ پوری دنیا یہاں سیاحت کیلئے آسکتی ہے تاہم اس کیلئے کچھ ضروری اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے لوگوں کو سیاحت کی طرف راغب کرنے کے لیے ہر علاقے میں انٹرنیٹ کی فراہمی ضروری ہے۔ میرے جیسے لوگ‘ جو ورکنگ ہیں‘ وہ دورانِ سیاحت شدید مشکل میں آجاتے ہیں۔ میں پہاڑوں کے دامن میں بیٹھ کر یہ آرٹیکل لکھ رہی تھی مگر وہاں انٹرنیٹ کام نہیں کررہا تھا اور اس وجہ سے آرٹیکل بھیجنے میں کچھ لیٹ ہوگیا۔ جب مری‘ ناران‘ کاغان اور ہنزہ جیسے سیاحتی مقامات پر موبائل کے سگنلز نہیں آرہے ہوتے تو کام کا حرج ہوتا ہے اور ٹرپ ختم کرکے واپس آنا پڑتا ہے۔ جب تک حکومت موبائل سگنلز اور 4G انٹرنیٹ کی پورے ملک میں یکساں فراہمی یقینی نہیں بنائی جاتی‘ تب تک سیاحت محدود رہے گی اور لوگ ایک یا دو دن کا ٹرپ کرکے واپس آجائیں گے لہٰذا انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بہتر بنایا جائے۔ اسی طرح انفراسٹرکچر پر فوکس کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ پہاڑی علاقوں میں سڑکیں اور دیگر تمام ضروری سہولتیں بھی ہونی چاہیے۔ گیس‘ بجلی‘ لینڈ لائن فون اور پکی سڑکیں سیاحت کیلئے بہت ضروری ہیں۔ امن و امان اورسکیورٹی کا ہونا لازمی امر ہے کیونکہ اگر حالات ٹھیک نہیں ہوں گے تو کوئی نہیں آئے گا۔ اس کے ساتھ مقامی لوگوں کا رویہ بھی سیاحوں کے ساتھ اچھا ہونا چاہیے‘ دوسری طرف سیاحوں کوبھی مقامی روایات کا احترام کرنا چاہیے۔ قیام و طعام، بجلی، سکیورٹی، موبائل سگنل جیسی سہولتیں نہیں ہوں گی تو عوام ان علاقوں کا رخ نہیں کریں گے۔ ہمیں باہر کے ممالک کے سیاحتی مقامات کی طرف دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا سہولتیں دے رہے ہیں‘ اسی طرز پر ہمیں بھی اپنے عوام کو سہولتیں فراہم کرنا ہیں۔
چھوٹے ریزوٹ‘ موٹلز اور گھر بھی ہونے چاہئیں جن کو سیاح کرایے پر لے سکیں۔ اس طرح لوکل عوام بھی کمائی کر سکیں گے۔ حال ہی میں پرائیوٹ سیکٹر نے بھوربن میں محل نما گھر بنائے ہیں جن کو دیکھ کر سکاٹ لینڈ کے کاسل یاد آجاتے ہیں۔ یہ بہت خوبصورت ہیں اور بہت مہنگے بھی‘ ہر کوئی افورڈ نہیں کرسکتا۔ افورڈ کرنے والے بھی بار بار اتنی مہنگی تفریح نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لیے حکومت اپنے تمام اداروں کے بنگلے‘ عمارتیں‘ ریسٹ ہائوسز اور میس عوام کیلئے کھولے، اس سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اورسیاحوں کو بہت سے نئے مقامات کم پیسوں میں دیکھنے کا موقع ملے گا۔ خاص طور پر محکمہ ڈاک کی بہت سی ایسی عمارتیں اور ریسٹ ہائوسز ہیں جن کو عوام کیلئے کھول کر حکومت اپنی آمدنی بڑھا سکتی ہے۔
پرائیوٹ سیکٹر کو بھی دعوت دی جائے کہ وہ قدرتی ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر نئی تعمیرات کرے اور عوام کو سہولتیں دے۔ پہاڑوں پر تعمیرات کرتے ہوئے بہت خیال کرناہوتا ہے کہ یہ تعمیرات قدرتی ماحول کو نقصان نہ پہنچائیں۔ گزشتہ دنوں پیرسوہاوہ سے آگے میں نے ایک بڑی تعمیر ہوتے دیکھی‘ شاید کوئی بچوں کا پارک بنایا جارہا ہے جس میں عجیب و غریب بڑے بڑے جھولے تھے اور ایک دیوقامت بن مانس کا ماڈل بھی‘ ایسا خوفناک کہ انسان رات کو اس کو دیکھ کر ہی ڈر جائے۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ حکومت نے اتنی بلندی پر بچوں کا پارک بنانے کی منظوری کیسے دی۔ پہاڑی مقامات پر جھولوں سے زیادہ قیام و طعام کی سہولتوں کی ضرورت ہے۔ وہاں باتھ رومز ہوں‘ پٹرول پمپ ہو‘ اے ٹی ایم ہو‘ پی سی او ہو۔ جھولے بھی ضرور ہوں مگر جگہ کی مناسبت سے، اتنے بڑے بڑے جھولے قدرتی مناظر کو خراب کرتے ہیں۔ سفر کرنے والوں نے یہ بات بھی ضرور محسوس کی ہو گی کہ مارگلہ ہلز سے پیرسوہاوہ تک ایک بھی پٹرول سٹیشن نہیں ہے، کوئی پبلک ٹیلی فون بوتھ یا اے ٹی ایم نہیں ہے۔ یہ سب سہولتیں ہونی چاہئیں نیز پولیس کی چوکی بھی ہونی چاہیے تاکہ سیاح جب یہاں رکیں تو امن و امان کا مسئلہ نہ ہو۔ ویسے تو مارگلہ ہلز بہت محفوظ ہیں؛ تاہم قدرتی ماحول کا خیال کرتے ہوئے یہاں کچھ تعمیرات ناگزیر ہیں لیکن یہ ایسی تعمیرات نہیں ہونی چاہئیں جن سے نیشنل پارک کی حیثیت متاثر ہو۔ سیاحوں کیلئے کھانا‘ پانی پٹرول‘ یہ چیزیں بہت ضروری ہیں۔ پہاڑوں پر کھیلوں کو فروغ دیں۔ یہاں پر کیمپنگ سائیکلنگ کو فروغ دیا جائے کیونکہ ہمارے ملک کی آبادی کا غالب حصہ نوجوان ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کو کھیلوں میں انگیج کرنا ہوگا۔ پاکستان کے پاس برفانی پہاڑ بھی ہیں اور خشک چٹیل پہاڑ بھی‘ لہٰذا ان چوٹیوں کی اونچائی اور ماحول کے مناسبت سے کھیلوں کا اہتمام کیا جائے۔
برف پوش چوٹیوں پر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو مکمل سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کوہ پیما اور سیاح پاکستان آئیں۔ ملکی کوہ پیمائوں کی حکومتی سطح پر سرپرستی کی جائے کیونکہ زیادہ تر اپنی مدد آپ کے تحت غیر ملکی کوہ پیمائوں کے ساتھ پہاڑ سر کرتے ہیں۔ گزشتہ سال سرمائی مہم جوئی میں نیپال کے کوہ پیمائوں نے موسم سرما میں کے ٹو سر کرکے ریکارڈ قائم کیا تھا۔ سرمائی مہم جوئی برف پوش پہاڑوں میں آسان نہیں لیکن سرمائی کھیلوں کا انعقاد قدرے آسان ہے‘ اس لیے ہمیں ایسی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے۔ آئس ہاکی، سنو بورڈنگ، آئس سکیٹنگ اور فگر سکیٹنگ کا انعقاد ہو سکتا ہے، اس سے سرمائی کھیلوں کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ گرمیوں میں دیگر بہت سے کھیلوں اور ہائیکنگ ٹریکنگ کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ راک کلائمبنگ پیرا گلائیڈنگ‘ کینیانگ‘ سائیکلنگ‘ گالف‘ فٹ بال اور کرکٹ کا انعقاد ہو سکتا ہے۔ کیمپنگ کیلئے اچھی جگہیں قائم کی جائیں جہاں انٹرنیٹ‘ کھانے پینے کی اشیا اور صاف واش رومز موجود ہوں۔
دوسری جانب سیاحوں کو بھی چاہیے کہ جب پہاڑوں پر جائیں تو آگ مت لگائیں‘ اس سے پورے جنگل میں آگ لگ سکتی ہے۔ جلتا ہوا سگریٹ مت پھینکیں‘ وہاں پر گندگی مت پھیلائیں‘ اپنا کچرا ڈسٹ بن میں پھینکیں‘ سیاحتی مقامات پر وال چاکنک مت کریں نہ ہی پتھروں اور درختوں پر دل بنا کر اپنے نام لکھیں۔ جیسے حکومت کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں ویسے ہی عوام کی بھی یہ ذمہ داریاں ہیں کہ وہ سیاحتی مقامات کوگندا نہ ہونے دیں اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔