تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-12-2021

حقیقت پسندی کی ضرورت

گزشتہ برس کے اوائل میں جب کورونا کی وبا پاکستان میں وارد ہوئی تھی تب بہت کچھ ایسا ہوا جس نے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ کوروناکی وبا تو حقیقی تھی مگر اُس کے بارے میں جو سوچ اپنائی گئی وہ حقیقت پسندی پر مبنی نہ تھی۔ وبا کے ابتدائی دنوں میں مختلف سطحوں کی حکومتوں نے جو طرزِ فکر و عمل اختیارکی اُس نے خرابیوں کو کئی گنا کردیا۔ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا تھا تو ہم بھلا کیسے بچ سکتے تھے؟ ہمیں اس وبا کا سامنا کرنا تھا اور اِس سے کماحقہٗ نمٹنا ہی تھا۔ ہاں! اس معاملے میں جو طریق ہائے کاراختیار کیے گئے وہ بہت الجھے ہوئے اور پریشان کن تھے۔ عالمی وبا کو حقیقت پسندی کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی جاتی تو وہ تمام خرابیاں پیدا نہ ہوتیں جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔
یہ کورونا ہی تھا جس نے اپنے ابتدائی دنوں میں عوام وخواص‘ سبھی کو شدید ذہنی دباؤ سے دوچار کیا اور بہت سوں کا یہ حال ہوا کہ وہ اپنی طرزِ فکر و عمل سے ذہنی مریض دکھائی دینے لگے۔ ڈیڑھ‘ پونے دو برس کی مدت میں پاکستانی معاشرے کا عجیب حال رہا۔ ایک طرف انتظامیہ کا بے ڈھنگا پن تھا اور دوسری طرف عوام کی بد حواسی۔ ایسے میں معیشت و معاشرت کے لیے انتہائی نوعیت کی پیچیدگیوں کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ جب کورونا کی وبا نقطۂ عروج پر تھی تب باقی دنیا کی طرح ہمارے ہاں ہڑبونگ اور دھماچوکڑی کی سی کیفیت تو پیدا نہیں ہوئی مگر عمومی طرزِ فکر میں رونما ہونے والی کجی نے بہت سے معاملات کو شدید بے ڈھنگے پن کا اسیر بنادیا۔ زندگی ہمیں اس موڑ پر بھی لائے گی‘ یہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ہمارا معاشرہ بہت سے معاملات میں حیران کن حد تک انوکھا ہے۔ دنیا بھر میں جو معاملات انتہائی نوعیت کی پریشانی پیدا کیا کرتے ہیں وہ معاملات ہمارے ہاں کسی بھی سطح کی پریشانی پیدا کرنے سے مجتنب رہتے ہیں۔ اور جن معاملات سے دنیا ذرا بھی نہیں گھبراتی ہم اُن سے ایسے پریشان ہو اٹھتے ہیں کہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ گزشتہ برس کورونا کی وبا نے معاشرے میں شدید اُکھاڑ پچھاڑ پیدا کی۔ شدید نوعیت کی سیاسی بے چینی اور لسانی و نسلی بنیاد پر پھیلائی جانے والی نفرت بھی وہ خرابیاں پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہیں جو کورونا کے ہاتھوں پیدا ہوئیں اور معیشت و معاشرت‘ دونوں کیلئے عذاب ثابت ہوئیں۔ ہمارا معاشرہ کسی بھی نوعیت کی تفریق میں زیادہ یقین نہیں رکھتا۔ ہمارے ہاں تفریق کی بنیادیں مختلف ہیں۔ دنیا بھر میں جن بنیادوں پر تفریق پائی جاتی ہے وہ تمام بنیادیں ہمارے ہاں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ دین سے وابستگی کا احساس ہم میں عمومی خرابیوں کو پیدا ہونے سے روکتا ہے۔ ہاں! پروپیگنڈا کو بروئے کار لانے کی صورت میں بہت سی ایسی معاشرتی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں جو عمومی طور پر نہیں ہوتیں۔
ایک بار پھر کورونا کی وبا کی نئی صورت میں آمد آمد ہے۔ کچھ لوگ اِسے دوسری اور بعض تیسری لہر قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ برس کورونا کی وبا کا پہلا حملہ مکمل ہونے کے بعد ڈیلٹا ویری اینٹ آیا تو بھارت میں قیامت سی برپا ہوگئی۔ ڈیلٹا ویری اینٹ نے پورے بھارت کو شدید خوف میں مبتلا کیا۔ اس کے نتیجے میں پورے ملک میں معاملات شدید بد حواسی کی نذر ہوئے۔ تب لوگوں نے اپنی اقدار بھی بھلادیں۔ بہت سے معاملات میں معمر افراد کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ بعض گھروں میں یہ بھی ہوا کہ جسے کورونا کی وبا نے گھیرا وہ اہلِ خانہ کی شدید بے حِسی کا بھی شکار ہوا کیونکہ وہ تعلق برقرار رکھنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ چھوٹے اور بڑے تمام ہی بھارتی شہروں میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران انسانیت سوز واقعات دیکھنے کو ملے۔ بعض افراد نے کورونا میں مبتلا ہونے کے خوف سے پیدا ہونے والے ذہنی تناؤ کے چنگل میں پھنس کر خود کشی کرلی۔ بہت سوں نے اہلِ خانہ کو مار ڈالا۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ افراد بھی کورونا کی وبا سے اِتنے بد حواس ہوئے کہ تمام تہذیبی و ثقافتی اقدار بھول گئے۔ پاکستان میں ایسی صورتِ حال تو پیدا نہیں ہوئی مگر ہاں، معاشی خرابیوں نے پورے معاشرے کو ایک خاص حد تک بد حواسی کا شکار ضرور کیا۔ اس بد حواسی ہی کے نتیجے میں آج ہمارا معاشرہ ہوش رُبا مہنگائی کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ ڈیڑھ‘ دو سال کے دوران جو معاشی خرابیاں پیدا ہوئیں اُن کے اثرات سے نمٹنے کی کوشش میں اب سبھی ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں مصروف ہیں۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں قومی معیشت شدید سست روی کا شکار ہوئی اور ملک بھر میں کروڑوں افراد کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اب کورونا کا نیا ویری اینٹ اومی کرون سامنے آیا ہے۔ دنیا بھر میں اس ویری اینٹ کے حوالے سے طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں معاملات اب تک قابو میںہیں۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی بظاہر تیاری کی حالت میں ہیں۔ وہ شاید کورونا کی وبا کے ذریعے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک سے لوگوں کی آمد و رفت محدود کرنے کا کام لینا چاہتے تھے اور اس مقصد میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ڈیلٹا نے جو قیامت ڈھائی تھی کچھ ویسی ہی قیامت اومیکرون کے ہاتھوں بھی برپا ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اومیکرون کے حوالے سے بھارت سمیت کئی ممالک میں ابھی سے خاصا خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ جہاں لوگ سُکون سے ہیں وہاں خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت میں ایک ڈاکٹر نے اپنی بیوی اور جواں سال بیٹے اور بیٹی کو مار ڈالا اور خود روپوش ہوگیا۔ اُس نے لاشوں کے پاس ایک نوٹ بھی چھوڑا جس میں لکھا تھا کہ اومیکرون کی وبا پوری دنیا کو چَٹ کر جائے گی اور میں بھی کورونا کا شکار ہوچکا ہوں‘ اس لیے اپنے اہلِ خانہ کو قتل کر رہا ہوں تاکہ میرے مرنے کے بعد یہ بے سہارا ہوکر مانگے تانگے کی زندگی بسر نہ کریں! اس نوعیت کے واقعات نے بھارت، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ میں خاصی خوفناک فضا پیدا کردی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی ایسی بد حواسی کی نذر ہوسکتا ہے۔
حکومت کے سامنے اس وقت سب سے بڑا ٹاسک یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اس وبا کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرے۔ مثبت سوچ کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ گزشتہ برس جیسی لاک ڈاؤن کی کیفیت پیدا ہونے پر لوگ زیادہ نہ الجھیں اور بہت حد تک حواس میں رہتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ اومیکرون کس نوعیت کی مجموعی کیفیت پیدا کرسکتا ہے یہ فی الحال کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔ دنیا بھر میں اومیکرون کے سبب ہونے والی ہلاکتیں برائے نام ہیں۔ اومیکرون کی زد میں آنے والوں کی تعداد بھی ابھی تک زیادہ نہیں۔ بڑی آبادی والے ممالک کو اس معاملے میں حقیقت پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ فی الحال جنوبی افریقہ کو مطعون کیا جارہا ہے۔ اگر کورونا کے اس ویری اینٹ کا شکار ہونے والوں کی تعداد بڑھی تو کئی دوسرے ممالک بھی اِس کی گرفت میں آئیں گے اور اُن سے بھی امتیازی نوعیت کا سلوک روا رکھا جانے لگے گا۔ ڈیلٹا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی تباہی کا مشاہدہ کرنے والوں پر لازم ہے کہ اومیکرون کے حوالے سے غیر معمولی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ کورونا کی وبا سے حقیقی اموات کتنی ہوئی ہیں اِس پر اب تک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ کورونا کی وبا کے حوالے سے جو انتہائی پریشان کن باتیں پھیلائی گئی تھیں وہ اب تک دکھائی نہیں دیں۔ جن لوگوں نے اس وبا کو دل و دماغ پر سوار کیا صرف وہی پریشان رہے۔ پاکستان میں کروڑوں افراد نے ماسک لگائے نہ ہی ویکسین لگوائی‘ اس کے باوجود خدا کا خاص فضل رہا اور اُن کے لیے زندگی کسی بڑی آزمائش میں تبدیلی نہیں ہوئی۔ زیادہ الجھن میں وہی دکھائی دیے جنہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے بنیاد باتوں کو سنجیدگی سے لیا۔
اومیکرون ہمارے ہاں کوئی بڑی اور خطرناک صورتحال پیدا کرے‘ اِس سے بہت پہلے حکومت کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہیے۔ وبا کی روک تھام کے اقدامات میں لاک ڈاؤن کو آخری نمبر پر رکھا جائے۔ گزشتہ برس کے لاک ڈاؤن کے شدید منفی نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ حکومت کو اومیکرون سے نمٹنے کی حکمتِ عملی میں حقیقت پسندی کو ہر حال میں پہلے نمبر پر رکھنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved