گوادر کے لوگوں کی معیشت ماہی گیری اور سمندری راستے سے ایران سے تجارت سے وابستہ ہے۔ اس تجارت کیلئے حکومت کی جانب سے ٹوکن سسٹم کا اجرا کچھ مقامی افراد کیلئے نا قابل قبول ہی نہیں ناقابل برداشت بھی ہو چکا ہے۔ یہ تجارت عام آدمی نہیں بلکہ طاقتور مقامی اشرافیہ اور سیاسی عناصر کا سب سے بہترین اور انتہائی منا فع بخش روزگار بن چکا تھا جسے ٹوکن سسٹم نے جھٹکا دے کر لرزا دیا۔ جہاں تک بڑے ٹرالر سے ماہی گیری کا تعلق ہے تو گوادر کے لوگوں کا یہ شکوہ انتہائی مناسب اور جائز ہے کہ ان بڑے غیر ملکی ٹرالرز پر جس قدر جلد پابندیاں عائد کر دی جائیں‘ اتنا ہی بلوچستان سمیت گوادر بندرگاہ کیلئے اچھا ہو گا کیونکہ اس میں اب کسی قسم کا شک نہیں رہا کہ بھارت اور کچھ دوسرے ممالک اس احتجاج اور اس کے رہنمائوں کو ہائی جیک کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جس کا مقامی صحافیوںکو بھی ادراک ہو چلا ہے اور وہ حکومت سمیت تمام اداروں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ قبل اس کے کہ بات کچھ اور بڑھے‘ اس مسئلے کو یہیں پر حل کر لیا جائے۔
گوادر کی تاریخ میں اب تک نکالی جانے والی خواتین کی سب سے بڑی ریلی نے بے شک ہر ایک کو چونکا کر رکھ دیا ہے کیونکہ مکران کے رسم و رواج جاننے والوں کیلئے یہ ایک ناقابل یقین منظر تھا۔ کل تک ملک کے دفاعی اداروں کی جانب سے دستکاری اور کمپیوٹر کی تعلیم کے حوالے سے بنائے گئے سکولوں اور سنٹرز میں گوادر اور اس سے ملحقہ علاقوں کی خواتین کو شامل ہونے کی ترغیب دی جا تی تھی تو چند عناصر اسے مقامی بلوچ ثقافت پر حملہ قرار دیتے تھے لیکن اب یہ انقلاب کیسے آیا‘ یہ معاملہ بہت سے سوالات چھوڑ رہا ہے۔ میں نے گوادر میں پاک بحریہ کے زیر انتظام بہترین اور جدید ٹیکنیکل ہنر مندی کے سنٹرز اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں لیکن ان میں مقامی بلوچ خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اب گوادر کے دھرنے میں خواتین کی بڑی تعداد اور ان کی ریلیوں کا منظر دیکھا تو ساتھ ہی اس کا پس منظر بھی ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ ایک موقر اطلاع کے مطابق بلوچ خواتین کو گوادر کی سڑکوں پر لانے کیلئے ایک مقامی تعلیمی ادارے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت کرنے والی خواتین اور بچیوں کی اکثریت کو اس ریلی میں شرکت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
گوادر میں احتجاجی دھرنوں کا آغاز پندرہ نومبر سے کیا گیا لیکن صوبائی انتظامیہ شاید اس لیے ان مطالبات کی جانب توجہ نہ دے سکی کہ ہر کوئی اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں مصروف تھا۔ میں پچھلے کئی سالوں سے بار بار لکھ رہا ہوں کہ پاکستان بھر میں عمومی اور بلوچستان میں خصوصی طور پر‘ کھمبیوں کی طرح وجود میں آنے والی نام نہاد سول سوسائٹی اور نت نئی این جی اوز پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو مختلف ناموں سے ریاستی اداروں اور ملک کے میگا پروجیکٹس کے خلاف منظم تحاریک چلا رہی ہیں اور بعض تحقیقات میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انہیں ہمسایہ ممالک کے علاوہ کچھ اوربڑوں کی بھی سرپرستی حاصل ہے جن کے مفادات پر گوادر پورٹ کے فعال ہونے سے ضرب پڑتی ہے۔ جب عوام ان کی زبانوں سے نکلے ہوئے الفاظ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ نام نہاد تجزیہ کاروں اور بھارتی اور امریکی سمیت غیر ملکی میڈیا کی چمنیوں سے نکلنے والا کثیف دھواں ان کی آنکھوں کی بصارت اور کانوں کی سماعت گم کر کے رکھ دیتا ہے۔ مجھ سمیت بہت سے لوگ بار بار لکھ رہے ہیں کہ ایسے عنا صر کو کھلی چھٹی کیوں دی جا رہی ہے؟ اب یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں رہی کہ بلوچستان اور ہمارے قبائلی علا قوں میں پاکستان کی سلامتی کے خلاف پلنے والی دہشت گرد تنظیموں کے پیچھے کن ممالک کا ہاتھ ہے۔
14 اپریل 2006ء کو ''پاکستان، گوادر اور پرویز مشرف‘‘ اور اس کے بعد 14جولائی 2006ء کو ایک اور کالم ''گوادر، گوادر اور گوادر‘‘ میں جو کچھ لکھا تھا‘ ان الزامات اور خدشات کا اعتراف بھارت کی بحریہ کے اس وقت کے سربراہ ایڈمرل سریش مہتا نے نئی دہلی میں ایک لیکچر کے دوران یہ کہتے ہوئے کیا کہ گوادر کی بندرگاہ بھارت کیلئے سنجیدہ نوعیت کی سٹریٹیجک پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ بھارتی بحریہ کے چیف ایڈمرل مہتا کے مطابق گوادر کی بندرگاہ آبنائے ہر مز کی خارجی گزرگاہ سے محض 180 ناٹیکل میل کے فاصلے پر واقع ہے‘ ایسی صورت میں پاکستان توانائی کی عالمی شہ رگ کا کنٹرول سنبھال کر بھارتی آئل ٹینکروں کیلئے رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے۔ سریش مہتا نے کہا تھا کہ چین بحر ہند میں اپنی توانائی کی آبی گزرگاہ کو محفوظ بنانے کیلئے اس کی راہ میں اپنے اڈوں کا قیام چاہتا ہے اور یہ گزرگاہ شمال کی جانب گوادر کی گہری بندرگاہ تک آتی ہے۔ ایڈمرل مہتا کے مطابق ''گوادر سے کراچی کیلئے سڑک اور اسے قراقرم ہائی وے تک توسیع دینے کا منصوبہ چین کو بحر ہند تک رسائی دے گا‘‘۔ واضح رہے کہ یہ سب باتیں 2006ء میں دہلی میں کی گئی تھیں۔ بھارت اور بھارتی بحریہ کے سربراہ کو اس وقت ہی گوادر کی اہمیت کا بخوبی انداز ہو گیا تھا۔
بلوچستان اور وزیرستان میں بم دھماکوںاور فوج کے خلاف گوریلا کارروائیوں کا آغاز ہوا تو پاکستان کے خلاف بچھائی جانے والی اس سازش پر میں نے 14 جولائی 2006ء کو اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ''ہر کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ آخر گوادر میں ایسی کون سی بات ہے کہ اس منصوبے کو ختم کرانے کیلئے بھارت اور کچھ دوسرے ممالک بلوچستان اور وزیرستان میں روزانہ بم دھماکے اور سکیورٹی فورسز پر حملے کرا رہے ہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ گوادر کو اپنے جغرافیائی محل وقوع اور قدرتی دولت کے علاوہ جو شے خطے کی دوسری بندرگاہوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ خطے کی دوسری بندرگاہیں خلیج فارس کے مخالف سمت میں واقع ہیں اور وہ گوادر کے مقابلے میں سینٹرل ایشیا اور افغانستان کو تجارتی سرگرمیوں کیلئے براہِ راست کوئی مدد نہیں دے سکتیں۔ اردگرد کی تمام بندرگاہیں گوادر کے مقابلے میں congested اور war zones میں ہیں۔ ابھی حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم کا دورۂ متحدہ عرب امارات اور اردن سے سعودی عرب تک ایک بڑی سڑک کی تعمیر کیلئے اسرائیل کی سر توڑ کوششیں خطے میں نئی تبدیلی کی خبریں دے رہی ہیں۔ سی پیک کی دشمن قوتیں گوادر میں حالات خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں ۔
پاکستان کیسے بھول سکتا ہے کہ1971ء کی جنگ میں بھارت نے کراچی سمیت پاکستان کی سمندری حدود کی مکمل ناکہ بندی کر لی تھی جس سے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا تھا۔ گوادر چونکہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے بھارت کی پہنچ سے مکمل باہر ہے اس لیے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ گوادر کھلے سمندر اور خلیج ہرمز کی سیدھ میں واقع ہونے کی وجہ سے کبھی بھی congested ایریا نہیں بنے گا۔ یہ واحد بندرگاہ ہو گی جس کے آسان زمینی راستے چین کے علاوہ افغانستان، ایران اور تمام ایشیائی ریاستوں سے منسلک ہیں۔ انڈس ہائی وے کے ذریعے گوادر اور چین کا براہِ راست زمینی رابطہ مکمل ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں چین کا قازقستان، کرغیزستان اور ازبکستان کے ساتھ ریلوے اور سڑکوں کا معاہدہ ہو چکا ہے جس سے سینٹرل ایشیا اور گوادر ایک دوسرے سے منسلک ہو رہے ہیں۔ چینی صوبے سنکیانگ سے حویلیاں تک ریلوے ٹریک پر کام بھی جاری ہے۔ بھارتی ایڈمرل سریش مہتا کے مذکورہ بیان کے بعد ایک برطانوی اخبار نے لکھا: گوادر کی بندرگاہ چین کو سینٹرل ایشیا سے جوڑ دے گی۔اس سے مغربی چین کا مڈل ایسٹ اورافریقہ کے ساتھ بھی رابطہ قائم ہو جائے گا۔ یہ ایسا منصوبہ لگتا ہے جس میں گوادر سے سیدھی سڑک چین تک جائے گی۔
دشمن کے منصوبوں کو کامیاب بننے سے پہلے ہی اگر گوادر کے عوام کو بڑے ٹرالرز سے ماہی گیری کے تسلط سے نجات دلا دی جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ دشمن تو تاک میں رہتا ہی ہے‘ کیا یہ بہتر نہیں کہ سانپ کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جائے؟ بلوچ عوام اور ان کی خوشحالی ہی تو گوادر پورٹ اور سی پیک سمیت پاکستان کی بقا کی ضامن ہے۔