تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     15-12-2021

تبدیلی؟

معیشت، معاشرت اور اخلاقیات کی تباہی‘ مہنگائی کا طوفان‘ اندھا دھند قرضے‘ ناقص خارجہ پالیسی‘ بدامنی کا دور دورہ اور پھر حقائق کو چھپانے کی کوششیں‘بظاہر تو تباہی میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی۔ معیشت کی حالت دیکھ لیں‘ گورنر پنجاب بھی یہ کہنے پر مجبور ہوچکے کہ صرف چھ بلین ڈالر کی خاطر پورا ملک گروی رکھ دیا گیا۔ تین سالوں میں ہمیں آئی ایم ایف سے جو قرضہ ملا ہے‘ اُس کی اتنی کڑی شرائط ہیں کہ تحریک انصاف کے اہم رہنما کا بیان سب کی آنکھیں کھولنے دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ باتیں تو ہم ہمیشہ خودمختاری کی کرتے ہیں لیکن کون نہیں جانتا کہ کاسہ لے کر گھومنے والوں کی بھی بھلا کوئی خود مختاری ہوتی ہے۔ ان کے بس میں صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنا ہاتھ پھیلا دیں‘ اب یہ دوسرے کی مرضی کہ وہ کچھ دے یا انکار کر دے۔ وہ جو کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے پر خود کشی کرنے کو ترجیح دیں گے‘ سب دیکھ رہے ہیں کہ آج کل کیا کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ برادرانہ تعلق بھی قرضوں کے بوجھ تلے دب کر سسکنا شروع ہوچکا ہے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ سعودی عرب سے اتنی کڑی شرائط پر قرض حاصل کیا گیا۔ ماضی میں کبھی ایسی کوئی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی ورنہ یا تو قرض کے بڑے حصے کو گرانٹ میں تبدیل کردیا جاتا تھایا پھر کچھ حصہ معاف کردیا جاتا تھا۔ ماضی میں کبھی یہ بھی نہیں ہوا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو چار فیصد شرحِ سود پر قرض دیا ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اب کے جوقرض ملا ہے وہ خالصتاً کمرشل بنیادوں پر ملا ہے تبھی اِس کے لیے ایسی کڑی شرائط رکھی گئی ہیں؛ چند ایک ملاحظہ کیجئے۔ سعودی عرب تین ارب ڈالر کا قرض کسی بھی وقت محض بہتر گھنٹوں کے نوٹس پر لوٹانے کا کہہ سکتا ہے‘ اگر پاکستان ادائیگی نہیں کرپاتا تو اسے ڈیفالٹر سمجھا جائے گا یا اگر یہ آئی ایم ایف کی رکنیت چھوڑتا ہے تو بھی ڈیفالٹر ہوجائے گا‘ شرحِ سود کی ادائیگی نہ کرنے پر بھی یہی صورت حال ہوگی۔ دیکھا جائے تو شاید سعودی عرب بھی ہماری مدد کرتے ہوئے اب تھکن محسوس کر رہا ہے کہ ہمیشہ مشکل وقت میں وہی ہمارے کام آیا ہے۔ اب ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ ہرکسی کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جو اُسے بہرصورت مقدم ہوتے ہیں۔ باقی ہم اپنا دل بہلانے کی خاطر جو مرضی کہتے پھریں۔
دوسری جانب بیانات اور ٹویٹس کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس سے عوام کو بہلایا جارہا ہے۔ کورونا وبا کی شدت کے دنوں میں ایسا تاثر پیدا کیا گیا تھا کہ وہ کورونا‘ جس نے یورپ سمیت بھارت کو بے بس کر دیا‘ ہم نے اِس وبا کا مقابلہ کچھ اِس طرح سے کیا کہ پوری دنیا ہماری پالیسیوں پر اَش اَش کر اُٹھی۔ تاثر یہ دیا گیا کہ دنیا بھر میں کوروناسے نمٹنے میں ہماری پالیسیوں کو سراہا گیا ہے لیکن اندر سے نکلاکیا؟ چند نابغے ہرصبح پریس کانفرنس کرنے بیٹھ جاتے تھے اوراپنی تعریفوں کے پل باندھ دیتے تھے۔ جب ذراگردبیٹھی ہے توآڈیٹر جنرل کی رپورٹ نے ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوڑ دی ہے۔ رپورٹ میںانکشاف کیا گیا ہے کہ پانچ سو ارب کے کورونا فنڈز میں سے عوام تک صرف 116 ارب روپے پہنچے ہیں۔ انکشاف ہوا کہ اشیا کی خریداری کے دوران خلافِ ضابطہ اقدام کیے جاتے رہے۔ 140 مردہ افراد کے ناموں پر بھی رقوم جاری کی گئیں جبکہ 6 ارب 84 کروڑکی ادائیگیاں مشکوک قرار دی گئی ہیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں متعدد دیگر حقائق کو بھی آشکار کیا گیا ہے جن سے آگاہی نے ہاتھوں کے طوطے اُڑا دیے ہیں۔ صرف وینٹی لیٹرز کی خریداری میں 9 لاکھ 94 ہزار ڈالر کے نقصان کی نشاندہی کی گئی ہے۔ عوام کو یوٹیلٹی سٹورزسے سستی اشیائے صرف کی فراہمی کے لیے50 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی لیکن 80 فیصد فنڈز جاری ہی نہیں کیے گئے‘ صرف ڈھنڈوراپیٹا جاتا رہا۔ اندازہ کرلیجئے کہ بجلی کے سو ارب روپے کے ریلیف پیکیج کے لیے صرف 15 ارب روپے جاری کیے گئے۔ اِسی طرح وزیراعظم صاحب کا 12سو ارب روپے کا ریلیف پیکیج بھی کونوں کھدروں تک ہی محدود رہا۔ یہ تھی انتہائی مہلک وبا سے نمٹنے کے لیے ہماری تیاری۔ ظاہر ہے جب ہر شعبے میں ایسی ہی کارکردگی ہوگی توپھر ملک کاوہی حال ہوناتھا‘ جو نظر آ رہا ہے۔ بس اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں میں اُلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ ثابت کیا جاتا ہے جیسے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔
معیشت سے ہٹ کر معاشرت کا حال دیکھ لیں‘ کہ ہرکوئی بیان بازی میں اپنے ساتھیوں سے بازی لے جانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ شاید وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس طرح کی گفتگو سے صرف وہی خوش ہو پاتے ہیں جنہیں خوش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ہرشام کچھ احباب ٹی وی ٹاک شوز میں آکرایسی ایسی گفتگوکرتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ پوری قوم کوعموماً اور اپوزیشن کو خصوصاً اخلاقیات کا در س کچھ ایسے دیا جاتا ہے کہ سر پیٹ لینے کوجی چاہتا ہے۔ دودھ کی دھلی تو اپوزیشن بھی نہیں ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قوموں کی رہنمائی حکومتیں کیاکرتی ہیں۔ کسی بھی قوم کے رہنما اُس کے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اُنہی پر یہ حکایت صادق آتی ہے کہ اگر بادشاہ مفت میں باغ سے ایک سیب توڑے گاتواُس کی فوج پورا باغ ہی اُجاڑدے گی۔ حکمران ہی قوم کے محافظ ہوتے ہیںلیکن اُس قوم کی حفاظت کون کرے گا جس کے سربراہ ابھی تک مانگ تانگ کر اپنی معیشت چلا رہے ہوں۔ ہروقت ایک ہی گردان کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں کاکیادھراہے‘ اُن کے قرضے اُتارنے کے لیے نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ ہربات کی تان سابقہ حکومتوں کی گردان پر آ کر ٹوٹتی ہے اور یہ سلسلہ ہے کہ ختم ہونے میںہی نہیں آرہا۔ اگر وہ حکومتیں اتنی ہی بری تھیں توآپ نے کیوں اُن کے وزراکو اپنی کابینہ کا حصہ بنایا؟آج یہ عالم ہوچکاہے کہ جنہیں کبھی پنجاب کا سب سے بڑے ڈاکوقرار دیا جاتا تھا‘ اب حکومت ان کے سہارے پر اس طرح کھڑی ہے کہ وہ کروٹ بھی تبدیل کریں تو یہ ہلنے لگتی ہے۔
سابقہ حکومتوں کے وزرائے خزانہ کے سہارے ملکی معیشت چلائی جارہی ہے اور طعنے بھی اُنہی کو دیے جارہے ہیں۔ کسی کو یہ احساس نہیں کہ عوام کس حال کو پہنچ چکے ہیں‘ مہنگائی کا گراف کہاں سے کہاںجا پہنچا ہے‘ عوام کی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی ہیں‘ نہیں سنائی دے رہیں تو ہمارے حکمرانوں کو نہیں سنائی دے رہیں۔ جب کبھی مہنگائی کی بات ہوتی ہے تو دوسرے ممالک سے تقابل کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ جن ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں‘ وہاں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح کتنی ہوتی ہے۔ یہ بتانے کاترددبھی نہیں کیا جاتاکہ وہاں عوام کی قوتِ خرید کتنی ہے۔ عالم یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ڈالر کنٹرول میں نہیں آ رہا اور تقابل کیا جا رہا ہے دوسرے ممالک سے۔ سوال یہ ہے کہ اِن حالات میں خودمختاری اورقومی سلامتی کہاں ''سٹینڈ‘‘ کرتی ہے؟ آئندہ کچھ دنوں میں منی بجٹ بھی آ جائے گا کیونکہ ہمیں 12جنوری سے پہلے آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کرناہے۔ شنیدیہ ہے کہ کم از کم 360 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں‘ جن اشیاپر سیلزٹیکس سترہ فیصد سے کم ہے، اُن پر ٹیکس سترہ فیصد کی شرح پر لایاجائے گا۔ صرف اتنا ہی نہیں‘ ترقیاتی بجٹ میں بھی کم ازکم 2سوارب روپے کی کٹوتی کی جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ عوام کومہنگائی جلدکم ہونے کالالی پاپ بھی دیاجاتا رہے گا۔ حسبِ روایت منی بجٹ کے لیے بھی صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جائے گا۔ قصہ مختصریہ کہ تبدیلی تو کیا آنی تھی ‘تباہی ضرورآچکی ہے۔ آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں نہ تو آگے کا راستہ سجھائی دے رہا ہے اور نہ ہی پیچھے مڑنے کی کوئی جگہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved