8دسمبر 2021 کو دوپہر لگ بھگ 12:22 کا وقت ہوگا جب ہندوستان کے صوبے تامل ناڈو کے ایک گاؤں کونوور کے دیہاتیوں نے آسمان پر اچانک خوفناک شور سنا۔ آواز غیرمعمولی تھی۔ اس کے فوراً بعد کچھ لوگوں نے ایک ہیلی کاپٹر شعلوں میں گھرا دیکھا جو چند ہی سیکنڈز میں زمین پر آگرا۔ قریب پہنچنے والے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ اس نے دو تین افراد گرتے دیکھے۔ ان میں سے جھلسا ہوا ایک آدمی کھڑا ہوا لیکن پھر گرگیا۔ ایک اور غیرمصدقہ خبر کے مطابق اس نے پانی مانگا لیکن پینے سے پہلے ختم ہوگیا۔ سولور(Sulur) ائیربیس اور ولینگٹن فوجی اکیڈمی کی وجہ سے ہیلی کاپٹرز کی آمدورفت تو اس علاقے کے لوگوں کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی لیکن ہیلی کاپٹر گرنا بہت غیرمعمولی تھا۔
اور یہ تامل ناڈو ہی کے لیے نہیں پورے ہندوستان کیلئے بہت ہی غیرمعمولی تھا۔ ایک سناٹا سا پورے ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا۔ ہندوستان کے پہلے چیف آف ڈیفنس سٹاف، سابق آرمی چیف جنرل بپن راوت دیگر 12 افراد کے ساتھ اس انتہائی جدید اور محفوظ سمجھے جانے والے ہیلی کاپٹر میں سوار تھے، جن میں انکی بیوی مدھولیکا بھی شامل تھیں۔ حادثے میں ایک کے سوا تمام افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی۔ گروپ کیپٹن ورون سنگھ تشویشناک حالت میں زیر علاج رہے لیکن جانبر نہ ہو سکے۔
بڑے فوجی افسروں کی حادثوں میں ہلاکت کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن جنرل بپن راوت کے ہیلی کاپٹر کا یہ حادثہ بہت سے ایسے سوال چھوڑ گیا جن کے تسلی بخش جواب نہیں مل رہے۔ اسی لیے یہ بات مسلسل کہی جارہی ہے کہ یہ حادثہ تکنیکی خرابی کے باعث نہیں ہے۔ ان سوالات میں وزن ہے اور اس معاملے کو چین کی طرف سے سرکاری بیانات نے بھی ہوا دے دی ہے۔ آغاز اس طرح ہوا کہ دفاعی تجزیہ کار براہما چیلانے نے ٹویٹ کیا اور بپن راوت کریش کے ڈانڈے تائیوان میں 2020 کے آغاز میں ہونے والے ایسے ہی ایک ہیلی کاپٹر کریش سے جوڑے جس میں تائیوان کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل شین یی منگ سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ چیلانے نے ان دونوں ہیلی کاپٹر حادثوں کی مماثلتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ضروری نہیں کہ ان واقعات کا باہمی ربط ہو لیکن اس ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بے شمار لوگوں نے بپن راوت حادثے کا الزام چین پر رکھا اور لداخ میں موجود تناؤ کی صورت کو بھی اس سے جوڑ دیا۔ اس پر چین کے ایک سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے اس ٹویٹ کا نوٹس لیا اور تیز الفاظ میں اس کا جواب دیا۔گلوبل ٹائمز ہی نے اس حادثے پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا تھاکہ یہ حادثہ ہندوستان کے فوجی نظم و ضبط کے فقدان اور جنگی معاملات میں عدم تیاری کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے بھارتی فوج کو جدید بنانے کی کوششوں پر ایک کاری زخم لگے گا۔ اسی کے ساتھ گلوبل ٹائمز نے کچھ ماہرین کی آرا کا ذکر کیا کہ بھارت کا چین کی طرف جارحانہ رویہ بپن راوت کے جانے سے تبدیل نہیں ہوگا۔
سوالات بہت سے ہیں لیکن اگر پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو کئی حقائق سامنے آتے ہیں۔ بپن راوت بھارت کے وہ فور سٹار جنرل تھے جو اپنی جارحانہ حکمت عملی کے لیے بھی مشہور تھے۔ مسلح بغاوتیں کچلنے کے بھی ماہر سمجھے جاتے تھے اور بلند علاقوں میں لڑائی کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔ وہ چین کے ساتھ سرحد پر طویل عرصہ تعینات رہے تھے۔ دسمبر 2016 میں انہیں دو جرنیلوں کو سپرسیڈ کرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیا۔ اس عہدے پر وہ دسمبر 2019 تک فرائض سرانجام دیتے رہے۔انہی کے دور میں پاک بھارت شدید تناؤ کی کیفیت پیدا ہوئی اور پھر پاکستان نے ونگ کمانڈر ابھی نندن کا طیارہ گرا لیا تھا۔ نریندر مودی جنرل بپن راوت کو پسند اور ان پر اعتماد کرتے تھے، بلکہ اپوزیشن نے یہ الزام لگائے کہ راوت سیاسی بیانات دیتے ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد بھارتی فوج کو جدید بنانے کیلئے ایک نیا پروگرام شروع کیا گیا اور ایک نئی پوسٹ چیف آف ڈیفنس سٹاف تخلیق کی گئی جو جنرل راوت نے یکم جنوری 2020 سے سنبھال رکھی تھی۔
اب آئیے اس بات کی طرف کہ یہ ہیلی کاپٹر MI-17V5‘ جو روسی ساختہ ہے، کس حد تک محفوظ تھا؟ بھارتی فوج نے 150 کی تعداد میں یہ ہیلی کاپٹر خریدے تھے اور اپنی بے شمار خصوصیات کی بنا پر یہ نہایت محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کئی موسمی ریڈارز سمیت بہت سے ایسے آلات ہیں جو اسے نہایت محفوظ بناتے ہیں۔ تکنیکی طور پر اچانک کسی معمولی یا بڑی فنی خرابی کے باعث آناً فاناً حادثہ پیش آجانا بھی اس ہیلی کاپٹر کے ریکارڈ میں نہیں ہے اور آگ لگ جانے یا انجن فیل ہوجانے کی صورت میں انتظامات موجود ہیں۔ اب تک یہی وجہ بتائی جارہی ہے کہ کونوور کے علاقے میں دھند تھی‘ لیکن اس ہیلی کاپٹر کیلئے، جو دس بارہ میل کے علاقے کے موسم کو جانچ سکتا ہے، یہ دھند کوئی بڑی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ پائلٹ پرتھوی سنگھ چوہان بھی خاصا تجربہ کار تھا۔ پھر سولور ائیربیس سے ڈیفنس سروسز سٹاف کالج، ویلنگٹن، کونوور تک کی فلائٹ بھی زیادہ طویل نہیں بلکہ کم و بیش چالیس منٹ کی تھی۔ جنرل کو وہاں خطاب کیلئے جانا تھا۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ موسم کے بارے میں پائلٹ اور ائیربیس کو اطلاع کیوں نہیں تھی۔ پھر یہ کہ عینی شاہدوں نے ہیلی کاپٹر کو آگ کی لپیٹ میں دیکھا یعنی پہلے آگ لگی اور بعد میں وہ گرا۔ ہیلی کاپٹر کا آگ بجھانے کا نظام کہاں گیا؟ اس پر بھی کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ریسکیو ٹیمیں کیوں بہت تاخیر سے پہنچیں جبکہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا؟ جب کالج میں ہیلی کاپٹر وقت پر نہیں پہنچا تو اس کے بارے میں معلومات کیوں نہیں لی گئیں؟ ہیلی کاپٹر سے ہنگامی مدد یعنی مے ڈے کا بھی کوئی سگنل نشر نہیں کیا گیا؟ کیوں؟ کیا یہ اتفاق ہے کہ اس حادثے کا دن وہی ہے جب ہندوستانی قوم کی توجہ کترینا کیف اور وکی کوشل کی شادی کی طرف تھی اور پوری قوم اسی ہیجان میں مبتلا تھی؟
اگر یہ سبوتاژ تھا تو اس کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟ جنرل راوت کے دشمن کون ہو سکتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ باہر کے دشمنوں کو اگر فی الوقت چھوڑ دیں تو ہندوستان کے اندر بھی جنرل کے بہت سے دشمن بن چکے تھے۔ تامل ناڈو میں علیحدگی پسند تامل لبریشن آرمی کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ کشمیریوں کے بارے میں جارحانہ بیانات کے باعث کشمیر میں بھی ان کی ناپسندیدگی بہت تھی۔ ایک اہم بات یہ کہ بھارتی فوج کو جدید بنانے کیلئے جو کام مودی نے جنرل راوت کے سپرد کیا تھا، اس میں تینوں فورسز ان کے تحت آتی تھیں اور بہت سے معاملات متنازع ہوچکے تھے۔ خاص طور پر انڈین ائیرفورس اس سے سخت ناخوش تھی۔ راوت نے ائیرفورس کے خلاف جارحانہ تقاریر بھی کی تھیں جن کا جواب ائیرفورس کے سربراہ کو دینا پڑا تھا۔ بیرونی عناصر میں بھارت جو روسی میزائل سسٹم خریدنے کی بات چیت کر رہا ہے، اور جس پر امریکہ کو نہ صرف اعتراض ہے بلکہ اس نے بھارت کو پابندیوں کی دھمکی بھی دی ہے۔ یاد رہے اس میزائل سسٹم کے سب سے بڑے حامی بپن راوت ہی تھے۔
انکوائری کمیشن بنا دیا گیا ہے لیکن ایسے کمیشنز کی رپورٹ اس وقت آتی ہے جب معاملے پر مٹی پڑ چکی ہو اور زندگی کسی اور طرف مصروف ہوچکی ہو۔ کیا اب بپن راوت کے ساتھ بھی یہی ہوگا؟