اکہتر کی پاک بھارت جنگ کے وقت میں ریڈیو لاہور پر تعینات تھا۔ ریڈیو سٹیشن پر رونق سن پینسٹھ کی جنگ والی تھی صرف نور جہاں نہیں تھیں۔ وہ کسی ثقافتی طائفے کے ہمراہ ٹوکیو گئی ہوئی تھیں اور جنگ کے دوران ہی کراچی پہنچی تھیں۔ ریڈیو پر نغمے ریکارڈ اور نشر ہو رہے تھے،پینسٹھ والے بھی نشر ہو رہے تھے۔ نغموں میں عنایت حسین بھٹی کی آواز میں ''دیو رگڑا اینہاں نوں دیو رگڑا‘‘ بہت مشہور ہوا۔ یہ مولانا ظفر علی خاں کے ایک مصرع سے متاثر ہو کر نازش کشمیری نے پنجابی میں لکھا تھا۔
مشرقی پاکستان میں ہماری فوجوں کی بہادری پر بھی گیت لکھے گئے۔ ایک گیت کے متن سے اندازہ لگا لیں کیسی معلومات بہم پہنچائی جا رہی تھیں۔ گیت تھا '' نمازیاں اتے کرم نبیؐ دا۔ رب دے کم نیارے نیں... ساڈے صرف بیالی شیراں پنج سو چالی مارے نیں‘‘، یعنی نمازیوں پر نبی ﷺ کا کرم ہے‘ اللہ کے کام نیارے ہیں، ہمارے صرف بیالیس شیر جوانوں نے دشمن کے پانچ سو چالیس فوجی مارے ہیں۔ جو تبصرے ہو رہے تھے ان میں اندرا گاندھی کو مخاطب کرکے کہا جا رہا تھا کہ تم تاریخ کے پہیے کو الٹا چلانے کی کوشش کر رہی ہو‘ یہ ناممکن ہے۔ جو کچھ مشرقی پاکستان میں اس وقت ہو رہا تھا اس سے ریڈیو پاکستان کے سامعین کو بے خبر رکھا جا رہا تھا اور کچھ لوگوں‘ جو غیر ملکی نشریات سنتے تھے‘ کو کسی حد تک صورتحال کا بہتر پتا تھا مگر عوام الناس میں مکمل بے خبری تھی۔
مغربی محاذ پر کچھ مقامات تھے جہاں ہماری افواج نے بھارتی علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ بس انہی مقامات پر مقامی اور غیر ملکی صحافیوں کو لے جایا جاتا تھا۔ میری اور میرے ایک ساتھی پروڈیوسر اسد نذیر کی ڈیوٹی لگی کہ ہم ان محاذوں پر جائیں۔ ہمیں سب سے پہلے سلیمانکی سیکٹر لے جایا گیا۔ میرے ساتھ اس گروپ میں پی ٹی وی کے کیمرہ مین سلطان خان تھے جنہوں نے خود اپنا ذاتی ایک پستول بھی کائو بوائے سٹائل میں باندھا ہوا تھا اور کہتے تھے کہ اگر مقابلہ ہو گیا تو کئی دشمنوں کو مار کر مروں گا۔ خیر مقابلہ کیا ہونا تھا‘ ہم تو فوجیوں کی حفاظت میں تھے۔ کیپٹن الطاف نامی ایک فوجی افسر ہمارے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ وہ ہمیں پکا گائوں لے کر گئے تھے جو ہماری فوجوں نے فتح کیا تھا۔ سرحد کے بالکل پاس کا گائوں تھا۔ جب ہم سلیمانکی کے مقام پر دریائے ستلج کے پل سے گزر رہے تھے تو بھارتی جہاز نمودار ہوئے۔ پل پر نصب توپوں سے فائرنگ ہوئی اور بھارتی جنگی جہازوں نے بھی گولیاں چلائیں۔ ہماری جیپ اللہ کے کرم سے محفوظ رہی۔ جب ہم پکا گائوں پہنچے تو نقشہ ایسا تھا کہ مقامی لوگ اچانک سب کچھ چھوڑ کر بھاگے تھے۔ ہمیں کہا گیا کہ کسی بھی شے کو ہاتھ نہیں لگانا۔ ہم انہیں صرف دیکھ سکتے تھے۔ فوٹو گرافر تصویریں بنا رہے تھے۔ میں اس فوجی کا انٹرویو کر رہا تھا جو یہ گائوں فتح کرنے والوں میں شامل تھا۔ وہاں بھارت کا ایک ٹینک بھی ہمارے قبضے میں آیا تھا۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے فوٹو گرافر محمد عالم ہمارے ساتھ تھے۔ انہوں نے آکر مجھے روکا اور کہا کہ انٹرویو ٹینک کے اوپر چڑھ کر کرو‘ میں تصویر بنائوں گا۔ وہ فوجی اور میں‘ دونوں ٹینک پر چڑھ گئے اور ریکارڈنگ کی۔ ایسے میں انٹرویوز اور میرے اپنے بیان پر بنی رپورٹیں‘ جب میں واپس پہنچا تو‘ قومی نشریاتی رابطے پر نشر ہوئیں۔ اور محمد عالم نے جو تصویر لی تھی وہ پاکستان ٹائمز میں چھپی اور بین الاقوامی میڈیا کو بھی ریلیز کی گئی۔
سلیمانکی وہ سیکٹر تھا جہاں میجر شبیر شریف شہید (نشانِ حیدر) نے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ جس روز ہم پہنچے اس سے پچھلی رات انہوں نے شہادت پائی تھی۔ کیپٹن الطاف نے ہم سب کو شہید کا دیدار کرایا۔ بریگیڈیئر امیر حمزہ سیکٹر کمانڈر تھے‘ ان سے بھی مختصر ملاقات ہوئی۔ ان کے حوالے سے کیپٹن الطاف نے بتایا کہ بریگیڈیئر صاحب میجر شبیر شریف شہید کیلئے نشانِ حیدر کی سفارش کر رہے ہیں۔
دوسری مرتبہ مجھے ہڈیارہ برکی والے علاقے میں لے جایا گیا۔یہاں بھی ہماری فوج نے کچھ بھارتی علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ اس مرتبہ ہمارے ساتھ غیر ملکی صحافی بھی تھے۔ وہاں ایک غیر ملکی نے مجھ سے پوچھا کہ جنگ کے صوتی اثرات ریکارڈ کیے ہیں آپ نے؟ میں نے کہا کہ ابھی تو آئے ہیں‘ سب کچھ آپ کے سامنے ہے‘ ابھی تو خاموشی ہے۔ وہ یہ سن کر وہاں موجود کمانڈر کے پاس گیا اور بولا There is no war۔کمانڈر خاموش رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر کہا: Where is the war۔ اس پر کمانڈر نے ایک طرف کوئی اشارہ کیا اور ہماری طرف سے تھوڑی فائرنگ ہوئی۔ اس کے جواب میں ادھر سے زوردار فائرنگ ہوئی۔ اس طرح سب نے ریکارڈنگ کی۔ پس منظر میں گولیاں چل رہی تھیں اور اوپر نمائندگان کمنٹری کر رہے تھے۔ظاہر ہے کہ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔
میں اور میرا ساتھی پرڈویوسر اسد نذیر‘ بارہ دسمبر کو جو جنگی قیدی پکڑے تھے ان کے انٹرویو کرانے لے جائے گئے۔ وہاں وہ پہلے ایک گورکھا لائے گئے کہ اس کا انٹرویو کیا جائے۔ اسد نذیر آگے کھڑے تھے‘ وہ مائیک لے کر گئے اور سوال کیا آپ کیسے پکڑے گئے۔ اسد نذیر کا تعلق یوپی سے تھا‘ وہ ویسے بھی آپ جناب کہہ کر ہی بات کرتا تھا۔ اس گورکھا کی کچھ سمجھ میں نہ آیا تو جو فوجی اسے لایا تھا وہ ہنسنے لگا۔ اس نے قریب جا کر گرجدار آرڈر میں کہا: نمبر بولو۔ اس نے فوراً اپنا شناختی نمبر بتایا۔ پھر اسی گرجدار آواز میں پوچھا: کیا ہوا تھا؟ وہ گورکھا بولا۔ کمپنی کیلئے کھانا لا رہا تھا ایمبوش(Ambush) میں آ گیا۔ پھر کافی دیر ہم دونوں دیگر قیدیوں کے انٹرویو کرتے رہے اور ریڈیو سٹیشن پر آ کر اس سب کو پروگرام کی شکل دی اور نشر کیا۔
بی بی سی کے رپورٹر اپنی رپورٹ ہمارے سٹوڈیوز کے ذریعے لندن ریکارڈ کرواتے تھے۔ اس زمانے میں سرکٹ بک کرنا پڑتا تھا اور پھر کسی ریڈیو سٹیشن کے ذریعے رپورٹ فیڈ کی جاتی تھی۔ اس لئے ہم بی بی سی کی رپورٹ کچھ گھنٹے پہلے سن لیتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہاں سے بھیجی جانے والی رپورٹوں میں مشرقی پاکستان کی صورتحال کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ یہاں کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا کہ ''پاکستانی فوجی حکام دعویٰ کرتے ہیں... وغیرہ وغیرہ‘‘۔ لیکن مقامی ریڈیو سٹیشنوں سے جو کچھ نشر ہو رہا تھا اس میں مشرقی محاذ کی خبریں کراچی سے بلٹن میں شامل ہوتی تھیں اور وہ حکومت کی فراہم کردہ ہی ہوتی تھیں۔ جنگ کی اصلی صورتحال کے بارے میں خبریت کا یہ عالم تھا کہ یہاں کسی کے چہرے پر کوئی فکر مندی کے آثار نہیں پائے جاتے تھے۔ اور یہ بے خبری سولہ دسمبر شام پانچ بجے تک لاہور ریڈیو سٹیشن کی حد تک برقرار تھی ۔ پھر پانچ بجے کی خبروں میں آیا کہ مشرقی محاذ پر ہمارے کمانڈروں کا مقامی کمانڈروں کے ساتھ سمجھوتا ہو گیا ہے اور وہاں جنگ بند ہو گئی ہے۔ پانچ بجے کی خبریں دس منٹ تک نشر ہوتی تھیں جس کے بعد مقامی طور پر لاہور سے خبروں پر تبصرہ نشر ہوتا تھا۔ سولہ دسمبر کو خبروں پر تبصرہ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے کرنا تھا۔ مسودہ ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ ڈیوٹی روم میں بیٹھے تھے۔ جب یہ خبر نشر ہوئی تو وہ اٹھے اور باہر گاڑی کی طرف چل دیے۔ میں ان کے پیچھے گیاکہ ڈاکٹر صاحب آپ نے تبصرہ پڑھنا ہے۔ بولے: خبریں نہیں سنیں؟ میں نے کہا: میں تو باہر تھا‘ کیا ہوا ہے؟ بولے: مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے‘ اب کچھ اور نشر کرو۔ جلدی جلدی ڈیوٹی روم میں موجود ایمرجنسی ٹیپوں کا جائزہ لیا‘ کلامِ اقبال کی ٹیپ پر نظر ٹک گئی۔پہلا آئٹم تھا: ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان۔ خبریں ختم ہوئیں اور کلام اقبال شروع ہو گیا:ہر لحظہ ہے مومن کی... ملک بھر میں جب یہ معلوم ہو گیا کہ ہمیں مشرقی پاکستان میں شکست ہو گئی ہے تو مغربی پاکستان میں لوگوں کو جو ازحد مایوسی اور دکھ ہوا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اس جنگ کے دوران اصل صورتحال سے مسلسل بے خبر رہے۔