سولہ دسمبر کا دن کوئی نہیں بھول سکتا‘ چاہے سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ہو یا سانحہ اے پی ایس ۔ ایسی دلخراش یادیں اس سے وابستہ ہیں جو تاقیامت نہیں بھلائی جاسکتیں۔ سولہ دسمبر کو دو بھائی جدا ہوئے تھے؛ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ ان کو جدا کرنے والا دشمن بہت عیار اور مکار تھا۔ جو یہ دیکھ چکا تھا کہ ان کو جنگ میں نہیں ہرا سکتا تو پھر سازشیں کر کے دونوں بھائیوں کے مابین نااتفاقی کرائی اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ یہ بات کوئی افسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ اندرا گاندھی پاکستان کو توڑنے کی خواہاں تھیں۔ را کے قیام کے بعد یہ سازشیں مزید تیز کردی گئیں۔ مکتی باہنی کے روپ میں را کے افسران لڑے اور بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا۔ مجیب نگر کی سازش بھی کلکتہ میں تیار ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے حوالے سے نفرت پھیلائی گئی۔ یقینا اس میں را کی سازشوں کے ساتھ ہماری سیاسی غلطیاں بھی شامل تھیں۔ ریاست کو ان عناصر کو کبھی معاف نہیں کرنا چاہیے جو ملک دشمنوں کے ساتھ مل جائیں۔ اگرتلہ سازش کیس ایک حقیقی کیس تھا جس میں شیخ مجیب کو گرفتار بھی کیا گیا تھا؛ تاہم بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا۔ یہ میرے نزدیک ایک فاش غلطی تھی‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
71ء کی جنگ ہوئی‘ پاکستان دولخت ہو گیا اور ساتھ ہی اَنگنت رشتے بھی اس جنگ کی رو میں بہہ گئے۔ میرے خاندان کے بزرگ 71ء کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑتے تھے اور ان دنوں کی دردناک یادیں بتاتے تھے۔ کچھ لوگ جو مشرقی پاکستان میں تھے‘ انہوں نے قید کی تکلیف کاٹی۔ جو یہاں تھے وہ بھی تڑپ رہے تھے کیونکہ ملک کا دولخت ہوجانا نہایت تکلیف دہ سانحہ تھا۔ سب اس گمان میں تھے کہ ہم جیت جائیں گے لیکن تمام تر کاوشوں کے باوجود ملک ٹوٹ گیا۔ وقت گزرتا گیا‘ کچھ زخم بھرگئے‘ کچھ اب بھی رِستے ہیں۔ پھر ایک اور قیامت ہماری قسمت میں اسی سولہ دسمبر کو لکھی تھی۔ معصوم بچے اور ان کے فرشتہ صفت اساتذہ سکول گئے لیکن زندہ واپس نہ آسکے۔ جنگ کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں‘ بچوں، عورتوں، بوڑھوں، درختوں، جانوروں اور کھیت کھلیانوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا مگر جس دشمن کا ہمیں سامنا ہے‘ وہ گھٹیا، کم ظرف اور رزیل ہے۔ اس نے ہمارے بچوں کو نشانہ بنایا‘ وہ بھی مکتب میں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا ہو گا۔ اس سے پہلے ہم سنتے تھے کہ امریکا میں سکول میں کسی بچے نے بچوں پر فائرنگ کردی؛ تاہم تعلیمی اداروں کو منظم دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا ایسا واقعہ نہ سنا تھا اور نہ ہی دیکھا تھا۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں‘ بھلا ان سے دشمنی نبھانے میں کیا بہادری؟ وہ سب تو نہتے تھے اور سکول میں پڑھ رہے تھے‘ کسی میدانِ جنگ میں نہیں تھے۔ یہ حملہ پاک آرمی کے اُس ننھے دستے پر ہوا تھا جس نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا تھی۔
اس ساری دہشت گردی کی پلاننگ ملا فضل اللہ نے کی تھی اور اس کی فنڈنگ را نے کی تھی۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں نے اس کام میں معاونت فراہم کی۔ 16 دسمبر کی صبح‘ دہشت گرد پشاور میں واقع آرمی پبلک سکول وارسک روڈ میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے میں 150 افراد شہید ہوئے تھے جن میں 122 بچے ،22اساتذہ اور باقی سکول سٹاف تھا۔ یہ ایسا سانحہ تھا کہ جب بھی یاد کرو‘ آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں خصوصی بچوں کیلئے کام کرنے والے ذوالفقار صاحب کے ماموں‘ شہاب صاحب جوپشاور میں رہتے ہیں‘ کا بیٹا علی اس سانحے میں شہید ہوا تھا۔ علی ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔یہ بہت بڑا غم تھا جو اس خاندان نے سہا۔ اس خاندان کی وجہ سے میں اے پی ایس کے متاثرین دیگر خاندانوں سے بھی جڑ گئی اور پھر اس سانحے پر ایک کتاب بھی لکھی۔ ہر باب لکھتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور لیپ ٹاپ بھیگ جاتا تھا۔ لواحقین روتے ہوئے اپنی داستان سناتے تو میں بھی روتی رہتی۔ یوں ہم سب ایک خاندان کا حصہ بن گئے جن کا آپس میں درد اور احساس کا رشتہ تھا۔ مجھے بہت شدید رنج ہوا جب رفیق بنگش شہید کے والد عابد رضا بنگش امسال کورونا کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ انہوں نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے شہدا کیلئے انصاف کے حصول میں بہت جدوجہد کی۔ وہ پشاور سے راولپنڈی شفٹ ہوگئے تھے، اللہ نے ایک بیٹی کی نعمت سے بھی سرفراز کیا لیکن وہ اپنی بیگم اور چھوٹی بیٹی کو چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سوئے۔ وہ رفیق کو بہت یاد کرتے تھے اور اندر ہی اندر گھٹتے رہے مگر اپنے آنسو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیے۔ اسی طرح حسن زیب شہید کے والد اورنگزیب بھی بہت تڑپے‘ اندر ہی اندر ان کو یہ دکھ دیمک کی طرح کھاگیا۔ ایک دن انہیں اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کا دوسرا بیٹا زرک دربدر کی ٹھوکریں کھارہا ہے۔ وہ پڑھا لکھا ہے‘ نان لینیئر ایڈیٹنگ کا کام جانتا ہے لیکن اس کو نوکری نہیں مل رہی۔ اس کا بھائی چلا گیا‘ پھر باپ بھی چلا گیا اور اب وہ زمانے بھر کی خاک چھان رہا ہے۔ وہ کئی مقتدر افراد سے اپیل کرچکا ہے لیکن ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے‘ اب تک وہ بیروزگار ہے۔ یہ خاندان اتنے صدمات کے باوجود بہت صابر ہے۔ کبھی شکوہ کناں نہیں ہوتا‘ رو کر سب چپ ہوجاتے ہیں۔
احمد نوازاس سانحے کا غازی ہے‘ اس کو بازو میں گولی لگی تھی جس کی تکلیف آج بھی اس کے ساتھ ہے۔ اس کے والد محمد نواز خان نے بہت کڑا وقت دیکھا۔ ایک بیٹا حارث شہید ہوگیا اور احمد ہسپتال میں پڑا تھا۔ احمد کے علاج کے لیے وہ برطانیہ گئے اور پھر وہیں سکونت اختیار کرلی۔ احمد آج آکسفورڈ میں پڑھ رہا ہے اور پاکستان کا نام عالمی فورمز پر روشن کررہا ہے۔ اسی طرح طاہرہ قاضی شہید ہیں جو اے پی ایس کی پرنسپل تھیں۔ ان کے بچوں نے صدمات کا جس طرح سامنا کیا‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ پہلے والدہ چلی گئیں، پھر طاہرہ قاضی کے شوہر کرنل (ر) قاضی ظفراللہ اپنے بیٹے کی شادی کے دن ہارٹ اٹیک سے چل بسے۔ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ مدفون ہیں۔ ان کے بچوں‘ احمد اور عارفہ نے بہت دکھ دیکھے ہیں۔ دعا ہے کہ اب دونوں صرف خوشیاں دیکھیں۔ اس ہی طرح سطوت اور باقر‘ دونوں اے پی ایس کے غازی ہیں۔ انہوں نے اپنی والدہ کو اس سانحے میں کھو دیا تھا۔ سیدہ فرحت حافظِ قرآن تھیں‘ ایم اسلامیات، ایم اے عربی اور بی ایڈ کررکھا تھا۔ وہ اے پی ایس میں پڑھاتی تھیں۔ ان کا گھر ان کے بنا سونا ہوگیا ہے۔ بچے آج بھی ان کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ مائیں تو آج بھی دروازے کی طرف دیکھتی رہتی ہیں کہ شاید ان کے بچے واپس آ جائیں۔ وہ بچے جن کے والدین اس سانحے میں شہید ہوگئے تھے‘ وہ بھی آرزو کرتے ہیں کہ شاید کوئی ایسا لمحہ ہو کہ ان کے والدین واپس آ جائیں۔ شاہانہ اجون ہوں، گل رعنا ہوں، نجمہ ہوں، پلواشہ، مہوش یا شگفتہ‘ ان کے لواحقین آج بھی روتے رہتے ہیں۔ عمر بٹ، فواد گل، طاہرخان، ڈاکٹر نعیم، مظہر صاحب اور رشید صاحب‘ کتنے نام لکھوں؟ سب کا غم بہت بڑا ہے۔ سب آج بھی رنجیدہ ہیں اور عدالت سے انصاف کی اپیل کر رہے ہیں۔
اس دہشت گردی کی پلاننگ افغانستان اور پاک افغان سرحدی علاقے میں ہوئی۔ کچھ سہولت کار پاکستان میں بھی تھے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے مختلف آپریشنز میں ان کو گرفتار کیا۔ ان کی تعداد بارہ تھی۔ ان میں سے آدھوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومت اور پاک فوج نے لواحقین کی ہر ممکن داد رسی کی اورمالی امداد بھی دی؛ تاہم پیسے یا پلاٹ کسی جان کا نعم البدل نہیں ہوتے۔ ایسے سانحات پر داد رسی کرنا ریاست کا فرض ہے؛ تاہم انصاف دینا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے اور شہدا کے لواحقین کو انصاف ملنا چاہیے۔ میں دعاگو ہوں کہ اللہ کرے ایسا دن پھر کبھی نہ آئے کہ ہمارے بچے اور اساتذہ دہشت گردی کا سامنا کریں۔ ایک قیامت تھی جو گزر گئی لیکن اس دن کی ہولناکی آج بھی تکلیف دیتی ہے۔ 16 دسمبر 1971ء ہو یا 16 دسمبر 2014ء، دونوں ہماری تاریخ کے تکلیف دہ باب ہیں۔ ان کے محرکات اور اسباب و اثرات پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔ اقوام اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے ہی سیکھتی ہیں اور جو تمام لوگ ان سانحات کے ذمہ دار ہیں ان کوقرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔