بھارت میں اگرچہ عام انتخابات اگلے سال اپریل مئی میں متوقع ہیں لیکن سیاسی جماعتیں ابھی سے انتخابی جنگ کیلئے کمر کس رہی ہیں۔ جہاں حکمران کانگرس پارٹی نے پاکستان کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرز پر غریبوں کی آمدنی میں اضافہ کی خاطر اور مختلف اشیا پر دی جانے والی سبسڈی کے بدلے مستحق افراد کو براہ راست کیش ٹرانسفر کے نظم کو لاگو کرنے کا اعلان کیا ہے‘ وہیں مخالف بی جے پی بھی عوام کو لبھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دے رہی۔ چونکہ اس کا ہدف زیادہ تر نوجوان اور مڈل کلاس ووٹر ہیں‘ جو تجزیہ کاروں کے بقول کانگرس پارٹی کی انا پرستی اور کرپشن سکینڈلوں سے تنگ آ چکے ہیں، اس لیے پارٹی نت نئے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے۔ پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے دعویدار گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ملک کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں قوم پرستانہ جذبات ابھار کر مڈل کلاس کے ووٹ بٹورنے کی کوشش میں ہیں، وہیں ان کے حامی دوسرے اہم صوبہ بہار میں ان کو نچلی ذاتوں کے لیڈر کے طور پر پیش کر کے ذات پات کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ مودی کے حمایتی جلد ہی ان کے نام پر ایک اسمارٹ موبائیل فون لانچ کرنے والے ہیں۔ ان کے میڈیا مینجمنٹ نیٹ ورک نے تو پہلے سے ہی سوشل میڈیا پر ایک طرح سے قبضہ کر رکھا ہے۔ مودی یا ان کی پالیسیوں کے خلاف آج کل کچھ کہنا تو ایک طرح سے بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے جیسا ہے، ٹویٹر ہو یا فیس بک‘ ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ کانگرس کی میڈیا مینجمنٹ کمزور ہی سہی لیکن جوں جوں انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں، پارٹی کے جھولے سے پٹارے نکلتے آ رہے ہیں۔ تازہ ترین پٹارا غذائی تحفظ قانون کو ایک آرڈیننس کے توسط سے نافذ کرنا ہے‘ گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی مخالفتوں اور اعتراضات کی وجہ سے جس پر عمل نہیں ہو پا رہا تھا۔ ایک طرف برسراقتدار پارٹی دعویٰ کر رہی ہے کہ 2004ء میں اس کے برسراقتدار آنے کے بعد ملک میں غریبوں کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے، تو دوسری طرف کیش ٹرانسفر اور فوڈ سکیورٹی جیسی سکیمیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ سپر پاور کا خواب دیکھنے والا ملک ابھی تک آبادی کے ایک بڑے حصے کو خط افلاس کے نیچے سے باہر نہیں نکال پایا ہے۔ پلاننگ کمیشن کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق بھارت کی 22 فیصد آبادی یعنی 260 ملین افراد صرف 33 روپے یومیہ (شہری علاقوں میں) اور 27 روپے یومیہ (دیہی علاقوںمیں) کمانے کی استطاعت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ آبادی کا بڑا طبقہ غذائی اجناس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے۔ بی جے پی نے کانگرس کو یہ کھلا چیلنج دیا کہ وہ بتائے کہ یومیہ 33 روپے میں کس طرح ایک شخص گزارا کر سکتا ہے۔ اس کے ترجمان پرکاش جاوڑیکر نے کہا ہے کہ کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ‘ جس میں خط افلاس کے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں کمی دکھائی گئی ہے‘ ایک سازش ہے تاکہ غریبوں کو سرکاری سکیموں کے فوائد سے محروم رکھا جا سکے۔ حزب اختلاف نے کہا ہے کہ حکومت ایک خوشنما اور جھوٹی تصویر پیش کر رہی ہے جبکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ارجن سین گپتا کمیٹی رپورٹ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ملک کی ستر فیصد سے زیادہ آبادی خط افلاس کے نیچے رہتی ہے۔ بہرحال انتخابات سے قبل اس طبقہ کے ووٹ بٹورنے کے لیے حکومت نے فوڈ سکیورٹی قانون کا اطلاق ایک آرڈیننس کے ذریعے کر کے اس امر کو لازمی قرار دیا ہے کہ مستحقین کو فی کس ہر ماہ رعایتی نرخ پر پانچ کلو چاول (تین روپے فی کلو) گندم ( دو روپے کلو) اور باجرا یا جوار (ایک روپیہ فی کلو) کے حساب سے فراہم کیا جائے۔ اس کے مستحقین کی شناخت کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی ہو گی اور نہ صرف 22 فیصد خط افلاس سے نیچے بلکہ ملک کی 67 فیصد آبادی اس سے مستفید ہو گی۔ چونکہ یہ بل حکمران جماعت کے نزدیک ایک موثر انتخابی حربہ ہے اس لئے بی جے پی کے ہاتھ پائو ں پھول گئے ہیں ۔ کانگرس اس بل کے انتخابی فوائد کے پیش نظر اس کے نفاذ میں کوئی کسر چھوڑنا نہیں چاہتی ہے۔ پارٹی کے صوبائی صدور نے حال ہی میں مطالبہ کیا کہ اپوزیشن کی قیادت والی ریاستوں میں کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جائے جس سے کانگرس کو کریڈٹ ملے۔ حکومت اس آرڈیننس کو پارلیمان کے اجلاس میں پاس کرنے کے لئے کوشاں ہے جو 5 اگست سے شروع ہوگا۔ خیال رہے دسمبر 2011ء میں حکومت نے یہ بل لوک سبھا میں پیش کیا تھا جس پر اعتراضات کے بعد اسے پھر سے پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کیا گیا جس نے بل کی ان شقوں سے اتفاق کیا ہے کہ دیہی آبادی کے 75فی صد حصے کو اور شہری آبادی کے50فی صد حصے کو عوامی تقسیم کے نظام کے دائرہ میں لایاجائے۔ حکومت کے اس اقدام نے حزب اختلاف کی جماعتوں بالخصوص بی جے پی کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ سیاسی لحاظ سے یہ قدم کانگرس کو زبردست فائدہ پہنچانے والا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت اس بل کی کھل کر مخالفت نہیں کرسکتی ہے کیونکہ وہ ایک غریب دشمن پارٹی ہونے کا خطرہ مول لے نہیں سکتی ۔ دوسری طرف ایم ایس سوامی ناتھن فائونڈیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی مشترکہ طور پر تیار کردہ ایک رپورٹ (The State of Food Insecurity in Urban India ) کے مطابق بھارت کی ریاستوں آندھرا پردیش، آسام، مدھیہ پردیش، گجرات، ہریانہ اور کرناٹک کے شہری علاقوں میںغذا کا مسئلہ سنگین بنتا جارہا ہے، حتیٰ کہ ترقی یافتہ ریاستوں جیسے پنجاب اور کیرالا میں بھی 2006ء کے بعد صورتحال خراب ہوئی ہے۔ایک اور قومی سروے کے مطابق معاشی عدم مساوات اور تفاوت میںبھی اضافہ ہوا ہے جس نے خوراک کے مسئلہ کو مزید سنگین بنادیاہے ۔ حکومت کے ایک ادارے کی ہی ایک اور تازہ رپورٹ کے مطابق جہاں 10فیصدآبادی کی آمدن میں 35سے40فیصد کا اضافہ ہواہے، وہیں90فیصدآبادی کی آمد ن میں محض تین سے چار فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اس کے علاوہ ملک کے ہر شہری کی خوراک میں سات گرام کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ا چنبھے کی بات یہ ہے کہ ان حقائق کے باوجود دوسری طرف لاکھوں ٹن اناج سرکاری گوداموں میں نا مناسب اور ناکافی حفاظتی اقدامات اور سرکاری عملہ کی لا پروائی کے سبب برباد ہو رہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا تھا کہ اس ا ناج کو غریبوں میں مفت تقسیم کیا جائے مگر حکومت نے اس کی تعمیل نہیں کی ۔ایک اندازے کے مطابق ملک میں اناج کی مجموعی پیداوار 241ملین ٹن ہے۔ جبکہ فوڈ سکیورٹی قانون کے اطلاق کے بعد اناج ایک چوتھائی پیداوارپبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے لئے درکار ہوگی ۔ بھارت میں تاحال عام آدمی کی غذاکی مقدار نہ صرف بہت ہی کم ہے بلکہ غذائیت کے اعتبار سے بھی اس کا معیار اطمینان بخش نہیں ہے ۔اگر ایک عام بھارتی شہری غذا کے معاملہ میں فرانس اور اٹلی تو دور کی بات چین کی بھی ہمسری کرنے لگے تواناج کی زبردست قلت پیدا ہوجائے گی ۔اسی لیے کانگرس کے مقتدر لیڈر ڈگ وجے سنگھ نے غربت کے پیمانہ کو آ مدن کے بجائے ،غذائی قلت اور خون کی کمی سے جوڑنے کی وکالت کی ہے، جس کا آسانی سے پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ غذائی تحفظ کے اس قانون میں حاملہ خواتین اور بچوں کی غذائیت کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے، کیونکہ ناقص تغذیہ کے باعث ہر دن تین ہزار بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ بچوں میں وٹامن اے کی کمی کا شکار سب سے زیادہ تعداد بھارت میں ہے، حتیٰ کی ملک کی سب سے خوشحال ریاست گجرات کی حالت بھی اس معاملے میں تسلی بخش نہیں۔ بہرحال ورلڈ بینک اور دیگر اداروں نے اس غذائی تحفظ کے قانون پر اپنے تحفظات ظاہر کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے مالی خسارے میں اضافہ ہوگا۔زراعت سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بعد کسانوں کیلئے خاصی مشکلات پیدا ہو جائیں گی ۔ اگر کسی گاوٗں میں سستی در پر اناج بٹ رہا ہو، تو وہاں کسان سے کون اناج خریدے گا۔تاہم حکومت کے اندر جو عناصر اس طرح کے خدشات ظاہر کررہے تھے، ان کو یہ کہہ کر خاموش کرا دیا گیا کہ کانگرس کی صدر سونیا گاندھی اس قانون کے نفاذ کے لیے بضد ہیں، اس لیے کسی بھی طریقے سے اس قانون کو لاگوکرناہے۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ اس بل کے پاس ہونے کی صورت میں چھ کروڑ دس لاکھ ٹن غلہ کی ضرورت ہوگی ۔ اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے صرف تیس لاکھ ٹن اضافی غلہ حاصل کرنا ہوگا۔ جبکہ رواں مالی سال میں فوڈ سبسڈی کی رقم80 ہزار کروڑ مقرر کی گئی ہے ۔ لیکن اس بل کو عملی شکل دینے کے لئے ایک تخمینہ کے مطابق ایک لاکھ 17ہزار کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی۔اس قانون کے نفاذ سے بھارتی معیشت کس قدر متاثر ہوگی، اس کا اندازہ اگلے دوبرسوں کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے، لیکن اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوڈ سکیورٹی قانون کی شکل میں حکمران کانگرس کو ایک ایسا موثر ہتھیار میسر ہو گیا ہے، جس سے اس کی شبیہ جو بدعنوانی اور پے در پے سکینڈلوں کے منظر عام پر آنے سے بری طرح متاثر ہوئی ہے ، کی پردہ پوشی بھی ہوگی اور ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو واپس کانگرس کی طرف لبھایا بھی جاسکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved