یہ ایک اَفسُوں ہے‘ Mythہے‘ مفروضہ اور تاثّر ہے کہ پاکستان کو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی تارکینِ وطن چلاتے ہیں۔ یہ تاثر خاص طور پر جنابِ عمران خان ایک عشرے سے چلا رہے ہیں۔ اُن کے شوکت خانم ہاسپیٹل یا نمل یونیورسٹی کے بارے میں یہ کہنا کافی حد تک بجا ہو گا کہ اُن کو زیادہ عطیات باہر سے آتے ہیں‘ لیکن بیرونِ ملک مقیم پاکستانی تارکینِ وطن پاکستان میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے‘ بلکہ ہمارے ملک کا قانون یہ ہے کہ جو پاکستانی چھ ماہ یا اُس سے زائد بیرونِ ملک رہے‘ اس پر بھی پاکستان میں ٹیکس عائد نہیں ہوتا۔ لہٰذا پاکستان کے محصولات اور بجٹ آمدنی میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کا کوئی حصہ شامل نہیں ہوتا۔ البتہ وہ پاکستان میں مقیم اپنے خاندانوں کی کفالت یا دینی و رفاہی اداروں اور اپنے آبائی علاقوں میں مستحقین کی مدد کے لیے رقوم بھیجتے ہیں‘ یہ اُن کی ایک قابلِ قدر خدمت ہے اور ہم اس کی تحسین کرتے ہیں‘ لیکن یہ رقم اُن مقاصد پر خرچ ہوتی ہے جن کے لیے وہ بھیجتے ہیں‘ یہ پاکستان کی قومی آمدنی کا حصہ نہیں ہوتی؛ تاہم اس سے پاکستان کو زرِمبادلہ کی صورت میں معتد بہ سہارا مل جاتا ہے اور اس کے لیے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے‘ کیونکہ پاکستان ہمیشہ زرمبادلہ کے بحران سے دوچار رہتا ہے۔
جن پاکستانی تارکین وطن نے برطانیہ‘ یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور دیگر ممالک کی شہریت اختیار کر لی ہے‘ اُن کا اور اُن کی اولاد کا مستقبل انہی ممالک سے وابستہ ہے‘ البتہ اُن میں سے باوسائل لوگ اپنے نام و نمود اور کرّوفر کے لیے پاکستان کے بڑے شہروں یا اپنے آبائی علاقوں میں عالی شان مکانات بنا لیتے ہیں اور جائدادیں خرید لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے اُن کاتعلق شوقیہ یا فطری ہوتا ہے‘ وہ پاکستانی میڈیا کو دیکھتے ہیں اور پاکستان کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔اُن کا پاکستان اور پاکستانیوں کے حقیقی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
یہ بھی ہمارے ہاں فیشن بن چکا ہے کہ جس ملک میں پاکستانیوں کی ایک معتَد بہ تعداد موجود ہوتی ہے‘ وہاں پاکستان کی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کی ایک ذیلی تنظیم کا قیام بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اپنی جماعتوں کے قائدین سے عقیدت اور دوسروں سے نفرت و عداوت بھی وراثت کے طور پر انہیں منتقل ہوتی ہے۔ اس سے وہاں بھی پاکستانیوں کے درمیان نفرت‘ تفریق اور انتشار کے بیج بوئے جاتے ہیں‘ اس کی بنا پر وہ وہاں کی سوسائٹی اور سیاست میں مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس کے برعکس بھارتی تارکین وطن وہاں کی سیاست‘ معاشرت اور معیشت میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ آج بھی امریکہ کی تین بڑی آئی ٹی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو بھارتی نژاد ہیں۔ برطانیہ میں بالفرض اگر بورس جانسن وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی پارٹی کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں تو کنزرویٹو پارٹی میں تین متبادل افراد‘ جو اُن کی جگہ لینے کی پوزیشن میں ہیں‘ میں سے ایک بھارتی نژاد ہے۔
یہ ہمارا ایسا ہی تضاد ہے کہ ہم نے آزاد کشمیر اسمبلی میں پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے کشمیری مہاجرین کی بارہ نشستیں رکھی ہوئی ہیں‘ وہ یہاں سے منتخب ہو کر جاتے ہیں اور آزاد کشمیر کی حکومت بنانے اور بگاڑنے میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں‘ ان میں سے بعض کشمیر میں وزارتوں پر بھی براجمان ہوتے ہیں‘ حالانکہ وہ پاکستان میں اپنے اپنے علاقوں میں مستقل طور پر آباد ہیں‘ اُن کی رشتہ داریاں‘ کاروبار اور روزگار بھی وہیں ہیں‘ آزاد کشمیر کے مستقل باشندوں اور ان کے مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا‘ لیکن وہ وہاں کے اکثریتی نتائج کو بدل سکتے ہیں۔ یہ غیر منصفانہ بات ہے۔ آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کا حق انہی کو حاصل ہونا چاہیے جو وہاں مستقل طور پر قیام پذیر ہیں‘ جن کا جینا مرنا وہیں ہے‘ جن کا کاروبار اور روزگار وہیں ہے‘ جن کے آبائو اجداد کے آثار وہیں ہیں۔ اب اگر وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے بیان کو درست مان لیا جائے کہ بیرونِ ملک پاکستانی تارکین وطن پاکستان میں قومی اسمبلی کی اسّی نشستوں کے نتائج کو بدل سکتے ہیں‘ تویہ پاکستان کے مستقل رہائشی باشندوں کی واضح حق تلفی ہے کہ وہ کچھ اور فیصلہ کریں اور بیرونِ ملک رہنے والے تارکینِ وطن ان کے فیصلے کو بدل کر رکھ دیں‘ گویا پاکستانی سیاست وحکومت بازیچۂ اطفال بن کر رہ جائے گی۔
یہ سوچ بھی غلط ہے کہ بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی تارکینِ وطن کی ذہنی سطح بلند ہوتی ہے‘ وہ زیادہ پابندِ آئین وقانون اور جمہوری سوچ کے حامل ہوتے ہیں‘ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ تین چار نسلیں گزرنے کے باوجود اُن کی سوچ اور رویوں میں کوئی فکری بلندی نظر نہیں آتی‘ وہاں اُن کا پابندِ آئین وقانون ہونا اُس نظام کا مرہونِ منّت ہے۔ اس کی ایک مثال گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو لے لیجیے‘ وہ برٹش پارلیمنٹ کے رکن رہے‘ لیکن آئین وقانون سے ان کی کوئی ذہنی مناسبت پیدا نہ ہو سکی۔ انہوں نے نواز شریف صاحب سے دوستی کا رشتہ قائم کیا اور نواز شریف صاحب نے انعام کے طور پرانہیں پنجاب کا گورنر بنا دیا۔ گورنر ہائوس میں کچھ عرصہ براجماں رہنے کے بعد اچانک ان پر آشکار ہوا کہ وہ اِس منصب پر بیٹھ کر بے اثر و بے اختیار ہیں اور کوئی مثبت کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے مسلم لیگ (ن) سے وفا کا رشتہ توڑا‘ جنابِ عمران خان سے تانے بانے ملائے اورگورنرکے عہدے سے مستعفی ہوکر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی‘ پی ٹی آئی نے پہلے انہیں سینیٹر بنایا‘ مگر پھر استعفیٰ لے کر دوبارہ گورنر پنجاب لگا دیا‘ اب ایک بار پھر انہوں نے ماضی کے تجربے کو دہرانا شروع کیا ہے کہ اچانک ان پر آشکار ہوا کہ وہ بے اثر ہیں‘ عضو معطّل ہیں‘ کچھ کردار ادا کرنے اور فیض رسانی کے قابل نہیں ہیں‘ لہٰذااب وہ نئے امکانات کی تلاش میں ہیں۔ پس سوال یہ ہے کہ پہلی بار گورنر بنتے وقت انہوں نے پاکستان کے دستور کا مطالعہ نہیں کیا تھا‘ انہیں پاکستان کے دستور میں درج گورنر کے آئینی وقانونی اختیارات اوردائرۂ کار کا علم نہیں تھا یا وہ گورنرہائوس میں بیٹھ کر اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کر کے دوسروں کے اختیارات پر قبضہ کرنے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ برطانیہ میں ملکہ الزبتھ کے پاس کوئی انتظامی اختیارات نہیں ہوتے‘ ان کا عہدہ محض علامتی سربراہ کا ہوتا ہے۔ تو پھر عام پاکستانی تارکینِ وطن کو تو چھوڑیے! ایک ایسا شخص جو برطانوی پارلیمنٹ کا رکن رہ چکا ہے‘ کیا آپ نے اس کی ذہنی ساخت میں کوئی تبدیلی دیکھی‘ آپ نے اس کا ذہن آئین وقانون کے سانچے میں ڈھلا ہوا دیکھا‘ انہوں نے ایک بے اختیار آئینی عہدے کوایک بار نہیں بلکہ دوبار بلاسوچے سمجھے قبول کر لیا‘ تو کیا وہ پاکستان میں اپنے آپ کو آئین و قانون کا مثالی نمونہ بناکر پیش کرنے کے لیے آئے تھے یا آئین وقانون کی دھجیاں اڑانے اور اختیارات سمیٹنے کے لیے آئے تھے۔
ایک اورطالع آزما برطانوی شہری زلفی بخاری صاحب نے اسلام آباد میں اپنی محدود اور مخصوص سوچ سے انتشار پھیلانے کی کوشش کی ‘پھر راولپنڈی رنگ روڈ میں الزامات کی زد میں رہے۔یہی وجہ ہے کہ اس سکینڈل کی کوئی شفاف اورغیر جانبدارانہ تحقیق نہ ہوسکی‘ بلکہ علامتی طور پر ایک دو بیوروکریٹس کو نامزد کر کے تمام با اثر سیاست دانوں کو بچا لیا گیا اور اب یہ معاملہ دب گیا ہے۔اسی طرح فیصل واوڈا صاحب نے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے اپنی امیدواری کا فارم بھرتے ہوئے غلط بیانی کی‘ آج چار سال ہوا چاہتے ہیں‘ نہ وہ اپنی صفائی پیش کرسکے اور نہ عدالتیں یا الیکشن کمیشن ان کے خلاف فیصلہ صادر کر سکے‘ سو عمل‘ سوچ اور رویوں کے اعتبار سے ان تارکین وطن اور مستقل پاکستانیوں میں کیا فرق ہے۔
الغرض پاکستانی تارکینِ وطن کی پاکستانی سیاست میں سرمایہ کاری کی حکمت سمجھ سے بالاتر ہے‘ کیا پاکستان کے مستقل باشندے صرف محکومیت اور غلامی کے لیے پیدا ہوئے ہیں‘ یہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا استحقاق نہیں رکھتے‘ ان کی اجتماعی دانش اور شعور بانجھ ہے‘ انہیں سَمت کے تعیّن کے لیے ہر وقت اور ہر زمانے میں بیرونی سرپرست چاہئیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نامزد کردہ بیرونی معاشی معالجین نے ہی تو پاکستانی معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے‘ ان میں محمد شعیب‘ ایم ایم احمد‘ ڈاکٹر محبوب الحق‘ معین قریشی‘ جاوید برکی‘ شوکت عزیز‘ عبدالحفیظ شیخ اور رضا باقرکے اسمائے گرامی نمایاں ہیں‘ شوکت ترین صاحب بھی انہی کی نقل مطابق اصل ہیں۔ ان معاشی ماہرین میں سے صرف ڈاکٹر محبوب الحق کی حکمتِ عملی قدرے بہتر تھی۔ آج بھی ہماری قومی قیادت تذبذب‘ تشکیک‘ شش وپنج اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔
ماضی کی طرح دنیا ایک بار پھر دو کیمپوں میں تقسیم ہونے جا رہی ہے‘ ایک کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے کی چین اور روس کے ہاتھ میں ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں کے سبب واضح طور پر کسی ایک کیمپ میں شمولیت اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘ دونوں کو لارا لپّا دے رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ نہ ہمیں امریکہ اور چین میں سے کسی کا مکمل اعتماد حاصل ہے‘ نہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی پوزیشن میں ہیں‘ نہ ہم دنیا سے مل کر چل پا رہے ہیں اور نہ دنیا سے کٹ کر جینے کا حوصلہ ہے۔ ہمیں ہمیشہ دنیا کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنا پڑتی ہے‘ اس کے باوجود دنیا ہم پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمارا ریاستی اور حکومتی ڈھانچہ اتنا بھاری بھرکم ہو چکا ہے کہ اب ہماری معیشت اس کے بوجھ تلے سسکیاں لے رہی ہے۔ پس ہماری گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ پاکستان کو اللہ کی نصرت اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرکے آزاد اور خود مختار پالیسی بنانی چاہیے۔ شاعرنے کہا ہے:
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی