تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     18-12-2021

چاندنی راتوں کا پُرفسوں منظر

معروف ماہرِنفسیات ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک کا شمار خیبر پختونخوا کے اُن ماہرینِ طب میں ہوتا ہے جو پیشہ ورانہ فرائض کے علاوہ اپنی قوتِ مشاہدہ کی بدولت مشرق کے پیچیدہ معاشرتی نظام اورثقافتی پس منظر کے مطالعہ کا ذوق بھی رکھتے ہیں؛چنانچہ ذہنِ انسانی کی جہتوں میں گہرائی تک جھانکنے کی اسی عادت نے ہمیشہ انہیں زندگی کے نفیس ترین احساسات سے ہم کنار رکھا۔بلاشبہ وہ واقعات کو مرتب کرنے اور شخصی رویوں کو متشکل کرنے کا فن خوب جانتے ہیں۔دس سال قبل انہوں نے ''پاکستانی معاشرہ‘‘ کی سیاسی و معاشی ترجیحات بارے دلچسپ کتاب لکھی جو علمی حلقوں میں شوق سے پڑھی گئی۔ڈاکٹر صاحب نے خود کو روایتی ڈاکٹروں کی مانند صرف طبی و نفسیاتی علوم اور سائنسی تحقیقات تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ شعر و ادب‘ظرافت و موسیقی‘تاریخ و فلسفہ اور سیاحت وجہاں گردی جیسے مشاغل میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔پچھلے تیس سال میں انہوں نے آسٹریلیا سے لے کر لاطینی امریکہ تک پھیلے کرۂ ارض کے تقریباً تمام قابلِ ذکر ممالک کا سفر کیا۔دنیا کے کئی ملکوں کے بڑے شہروں کے قدیم تمدنی مراکزکا مطالعاتی دورہ کرکے وہاں کی ماضی و حال کی پُرشکوہ تہذیبوں کے بارے میں اپنے مشاہدات اور تجربات کو قلم بند کیا۔اس وقت اُن کی نئی کتاب''جہانِ حیرت‘‘میرے ہاتھ میں ہے جس میں پانچ ملکوں اور پانچ شہروں کی پُرفسوں تہذیبوں کی صورت گری کی گئی ہے۔اس کتاب میں ان زندہ و جاوید معاشروں کی مقصدیت سے لبریزکہانیاں شامل ہیں جن کی وسعتوں نے ماضی کے کلاسیکی تمدن کے علاوہ عہد ِحاضرکی ڈیجیٹل ثقافتوں کو بھی اپنے دامن میں جگہ دی ہوئی ہے۔
سفرنامہ سے ملتی جلتی اس پُراثر کتاب کی شروعات ڈاکٹر صاحب نے روس کے شہر سینٹ پیٹز برگ کی سفید راتوں کے تذکرہ سے کی۔لکھتے ہیں کہ بعض شہر انسان کا دل موہ لیتے ہیں اور آپ کو بار بار اپنی طرف بلاتے ہیں‘سینٹ پیٹزبرگ بھی ایسا ہی خوبصورت اور پُرکشش شہر ہے‘جس کی محبت کا میں پہلی نظر میں اسیر ہو گیا اورچند سال میں تیسری بار یہاں آن پہنچا ۔سینٹ پیٹزبرگ ماسکو کے بعد روس کا دوسرا بڑا وفاقی شہرہے۔اس شہر کی بنیاد 1703ء میں زار پیٹر دی گریٹ نے دریائے نیوا کے کنارے آبنائے فن لینڈکے دہانے پہ بحیرہ بالٹک کے کنارے رکھی۔یہ شہردو سو سال تک زاروں کا پایۂ تخت رہا تاہم 1917ء کے کیمونسٹ انقلاب کے بعد ملک میں آنے والی بہت سی بنیادی تبدیلیوں کی طرح یہ عظیم شہر بھی دارالحکومت ہونے کے اعزاز سے ہاتھ دھو بیٹھا۔لکھتے ہیں کہ یورپی اور مسلم شہنشاہوں میں محلات‘عبادت گاہیں اور تفریح گاہوں کی تعمیرکا شوق یکساں ہونے کے باوجود یہاں یہ واضح فرق نظر آیا کہ یورپی بادشاہ ان کے ساتھ اعلیٰ علمی اور طبی ادارے‘مارکیٹیں‘میوزیم‘تھیٹر اور لائبریریاں بھی بنواتے تھے۔
جاپان کے شہر ٹوکیو بارے ان کے مشاہدات میں جدیدترین ریلوے سسٹم اورحیرت انگیز صنعتی ارتقا کے علاوہ جاپان کی دم توڑتی قدیم تہذیبی و ثقافتی روایات کی نوحہ گری سمیت وہاں بسنے والے پاکستانیوں کے طرزِ عمل بارے بیان کئے گئے تلخ حقائق زیادہ قابلِ ذکر ہیں۔لکھتے ہیں: ''کئی سال سے یہاں مقیم جن پاکستانیوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں رچا رکھی ہیں‘وہ کہتے ہیں‘یہاں خواتین کو انتہائی پیار کرنے والا اور بااخلاق پایا‘ لیکن یہ جان کے بہت دکھ ہواکہ وہ سب یہ کہنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ جب تک جاپان میں ہیں ساتھ ہیں‘جب جانے لگیں گے تو انہیں طلاق دے کر یہیں چھوڑ جائیں گے۔ایک مرتبہ کسی سٹور میں ہماری رنگت اور شکل و صورت کا اندازہ لگا کرایک صاحب نہایت خلوص سے ملے‘ہمارے جاپان آنے کے مقصد بارے کچھ جانے بغیر مشورہ دینے لگے کہ یہاں آ گئے ہو تو واپس مت جایئے گا‘کسی مقامی جاپانی لڑکی سے شادی کرکے خوشحال زندگی گزارو‘پھرجاتے وقت اُسے طلاق دے کر چلے جانا‘‘۔
ترکی کا دارلحکومت استنبول جو بیک وقت دو براعظموں‘ایشیا اور یورپ میں پھیلا ہوا ہے‘ڈیڑھ ہزار سال سے دنیا کی عظیم سلطنتوں‘رومن‘بازنطینی اور عثمانی مملکت کا پایہ تخت رہا۔استنبول کا شمار دنیا کے اُن قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے جہاں کئی ہزار سال قبل مسیح کی آبادیوں کے آثار ملے ہیں۔یہاں کی صدیوں پرانی عبادت گاہ ‘آیا صوفیہ کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ مانا جاتا ہے۔یہاں روزانہ لاکھوں سیاح‘عثمانی ترکوں کے اُن شاندار محلات کو دیکھنے آتے ہیں۔ازبکستان کے شہر تاشقند کا شمار بھی اُن قدیم ترین اور انتہائی خوبصورت شہروں میں ہوتا ہے جہاں عمدہ ولذیذکھانوں کے لاتعداد مراکز ہیں‘کھانے کا ذوق رکھنے والے ان دوستوں‘خاص کر گوشت کی مختلف ڈشیں‘پلاؤ‘سلاد اور دودھ و دہی سے بنی اشیا پسندکرنے والوں کیلئے سمرقند بہت اہم ہے۔وسیع و عریض چراگاہوں کے حامل اس ملک میں مویشی بانی خاص طور پہ دنبے اور گوسفند پالنا طرز ِمعاشرت کا حصہ ہے۔یہاں کے لوگ صحتمند اور زندہ دل ہیں۔سیاست اوربین الاقوامی مسائل سے لاتعلق رکھے جانے کی وجہ سے ان کی پوری توجہ ذاتی زندگی کی خوشیوں پہ مرکوز رہتی ہے۔تاشقند کے قدیم کمپلیکس پر مشتمل پہاڑی کی دوسری جانب ایسا وسیع و عریض قبرستان آباد ہے جہاں شام ڈھلتے ہی چہار سو خاموشی اورہلکی سی خنکی چھا جاتی ہے۔جب آہستہ آہستہ چاند نمودار ہونے لگتا ہے تو چاند کی روشنی میں چمکتے ٹیلے‘گہرے سناٹے میں کھڑی فیروزی گنبدوں اور رنگ برنگی ٹائلوں سے بنی چہار کونہ اور ہشت پہلو عمارتوں کے خاموش مناظر میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت تھم سا گیا ہو‘صدیاں سمٹ کے چند ساعتوں میں مقید ہو گئی ہوں‘جیسے صدیوں پرانے ان مقبروں میں زندگی دوبارہ سانس لینے والی ہو۔
انڈیا کے شہر جے پورکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ راجپوتانہ ایسا دلکش علاقہ ہے جس کی وجہ شہرت پُرشکوہ محلات‘عالیشان قلعے‘تاریخی عمارات اور خوبصورت باغات ہیں۔یہاں کی بود وباش میں مخصوص راجپوت لباس نمایاں نظر آیا۔ہندوستان کے دیگر شہروں کی مانند یہ گنجان آباد شہر بھی اب جدید عمارتوں کے باعث دور تک پھیل گیا ہے‘کھوئے سے کھوا چھلنا کے اُردو محاورے کا مطلب یہاں کے بازاروں میں سمجھ آتا ہے۔بلاشبہ ہندوستان قریب ہونے کے باوجود ہم سے بہت دورہے‘دونوں ممالک کی تاریخ و ثقافت‘ لباس‘زبان‘خوراک اور موسیقی سمیت بہت سی چیزیں مشترک ہونے کے باوجود گہرے تضادات بھی پائے جاتے ہیں۔صدیوں تک ایک ملک کے طور پہ رہے‘باہم مل کر بہت کچھ ایک جیسا ہو گیا تاہم نفسیاتی طور پہ دونوں گروہ ایسے رہے جیسے سمندر میں بہنے والے پانی کے دو دھارے اکٹھے چلنے کے باوجود ایک دوسرے سے جدا نظر آتے ہیں۔محبت و نفرت اور دوری و نزدیکی سے ممیز اسی عجیب رشتہ نے بھارت کو ہمارے لئے پُراسراریت کی دھند میں لپیٹ ہوا ہے؛چنانچہ جب انڈین سائیکاٹرک سوسائٹی کے اشتراک سے جے پور میں منعقد کی جانے والی ورلڈسائیکاٹرک ایسوسی ایشن کی عالمی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو بلاتاخیر رضامندی ظاہر کر دی۔جے پور کانفرنس کے یومیہ شائع ہونے والے کسی بلیٹن میں میرا انٹرویو پڑھ کر‘جس میں اپنے شہر کا ذکر کیا تھا‘ایک لیڈی ڈاکٹر ڈھونڈتے ہوئے آ ملی‘ان کے دادا اور دیگر بزرگ ڈیرہ اسماعیل خان کے مشہور امیر کبیر (بگئی)خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔انہوں نے میرے دہلی آنے کا سن کر نہایت اصرار کے ساتھ گھر آنے کی دعوت دی۔کہنے لگیں: یہ ڈیرہ اسماعیل خان دنیا کی کیسی جگہ ہے‘کونسی ایسی جنت ہے جس کا ذکر ہم پیدائش ہی سے اپنے بزرگوں سے سنتے آ رہے ہیں؟دہلی میں ڈاکٹر صاحبہ کے بزرگوں سے ملاقات ہوئی‘سرائیکی میں بات کرنے والے بزرگ اندرون شہر کے محلوں اور بیرونی باغات کا بار بار پوچھتے رہے‘جن کی وجہ سے کبھی ڈیرہ پُھلاں دا سہراکہلاتا تھا۔ اشکبار آنکھوں کے ساتھ بچپن کے کئی دوستوں کا ذکر بھی کیا‘جن میں سے کچھ اب بھی زندہ ہیں۔قصہ کوتاہ‘جے پور تاریخی عجائبات کا ایسا طلسماتی شہر ہے‘جہاں آپ ایک جگہ سے مرعوب ہو کے نکلیں تو دوسری مسحور کر لیتی ہے۔یہاں کی سب سے اہم عمارت جھیل کے وسط میں بنا پانچ منزلہ''جل محل‘‘ہے۔ جھیل کا پانی کم ہو تو محل کے زیرآب حصے بھی نمودار ہو جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved