تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     18-12-2021

حکومتوں کے یکساں رویے

''خالصتانی‘‘ ، ''پاکستانی‘‘،'' بیرونی سرمائے پر تحریک چلانے والے‘‘، ''دہشت گرد‘‘ اور معلوم نہیں کیا کیا الزامات سننے والے بھارتی کسان سرخرو ہوئے۔ لگ بھگ ایک سال تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہنے والی کسانوں کی اس تحریک کو بالآخر کامیابی حاصل ہوئی۔ دہلی کی سرحدوں پر پڑاؤ ڈالے ہوئے کسانوں نے ایک سال تک موسم کی گرمی ‘ سردی سہی۔ گھروں سے بے گھر ہوئے لیکن اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے کہ جب تک بھارتی حکومت متنازع زرعی قوانین واپس نہیں لے گی ‘ تب تک احتجاج جاری رہے گا۔ اس احتجاج کے دوران سات سو سے زائد افراد کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے‘ لیکن بالآخر کامیابی نے کسانوں کے قدم چومے۔ آگے بڑھنے سے پہلے مختصراً جان لیتے ہیں کہ یہ زرعی قوانین آخر تھے کیاکہ مشرقی پنجاب کے کسانوں کی قیادت میں پورے بھارت کے کسان سڑکوں پر آگئے۔ان میں پہلا قانون یہ تھا کہ کسان اپنی زرعی اجناس کو مارکیٹ کمیٹی کے ذریعے مطلع شدہ منڈیوں سے باہر دوسری ریاستوں میں بھی فروخت کرسکتے تھے۔دوسرے قانون کے مطابق کسان کسی سے بھی معاہدۂ کاشتکاری کرسکتے تھے اور براہ راست اس کی مارکیٹنگ بھی کرسکتے تھے۔تیسرا قانون سب سے اہم تھا جس کے تحت پیداوار ذخیرہ کرنا اور غیرمعمولی حالات کے علاوہ اسے فروخت کرنا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اس قانون کے تحت نجی خریداروں کو سہولت دی گئی تھی کہ وہ کسان سے اُس کی اجناس خریدنے کے بعد اسے اپنے پاس ذخیرہ کرسکتے تھے۔یہی وہ قانون تھا جس نے بھارتی کسانوں کوسیخ پا کردیا تھا۔ بھارتی کسان یہ سمجھتا تھاکہ اس قانون کے تحت اُسے دوسروں کے رحم‘ کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پھر ان قوانین کے خلاف ایسی تحریک شروع ہوئی جس نے بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔تادیر یہ کہا جاتا رہاکہ متنازع زرعی قوانین کو واپس نہیں لیا جائے گا‘ انہیں نافذکرنے کے لیے طویل عرصے سے ہوم ورک کیا جارہا تھا۔ تحریک کے ایک سال کے دوران بھارتی حکومت نے اسے ختم کرنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال نہیں کیے۔
بنیادی طور پر پنجاب کے کسانوں کی قیادت میں جاری اس تحریک میں حصہ لینے والوں کو پہلے ''خالصتانی‘‘ اور'' پاکستانی‘‘ قرار دیا گیا۔ حکومت کی گود میں بیٹھے ہوئے میڈیا نے ایسی باتوں کی بھرپور تشہیر کی لیکن کسان بھی اپنی دھن کے پکے نکلے۔ ان بے بنیاد باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پھیلائی گئی کہ کسان تحریک کو جاری رکھنے کے لیے بیرونی ممالک سے سرمایہ آرہا ہے۔ بھارتی حکومت کو اُمید تھی کہ ایک تو وقت کے ساتھ کسانوں کا حوصلہ جواب دے جائے گا ‘ دوسرے یہ کہ بھارتی عوام میڈیاکی پھیلائی ہوئی باتوں کو تسلیم کرلیں گے جس کے بعد کسانوں پر اپنی تحریک ختم کرنے کا عوامی دباؤ بڑھے گا‘ لیکن ہوا کیا؟دونوں میں سے حکومت کی کوئی اُمید بھی پوری نہ ہوسکی بلکہ تمام تر مخالفانہ پراپیگنڈے کے بڑی حدتک اُلٹ اثرات سامنے آئے۔ پہلے پہل تو میڈیا کی جھوٹی باتوں کا کچھ اثر دکھائی دیا لیکن جلد ہی فضا صاف ہونے لگی۔ خالصتانی ہونے کا الزام ثابت ہوسکا نہ پاکستان سے تعلق کا کوئی ثبوت سامنے آسکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگر بھارتی میڈیا کی کوئی تھوڑی بہت ساکھ تھی تو اُس پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوئے۔احتجاج کرنے والوں نے سوشل میڈیا کا بھرپوراستعمال کیا جس کے ذریعے بھارتی عوام کو حقیقت سے آگاہ کیا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں جہاں بھارتی کسانوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے‘وہاں اردگرد بسنے والے مقامی لوگوں نے کسانوں کا عملی طور پر ساتھ دینا شروع کردیا۔ ایک دو نہیں بلکہ درجنوں ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ ہندوؤں کے گھروں سے کسانوں کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر کھانا دیا جاتا رہا۔ بے شمار ہندوؤں نے بزرگ کسانوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی تاکہ وہ قدرے سکون کے ساتھ رہ سکیں۔ یہ وہ حالات تھے جن کے باعث اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلے کسی حد تک ختم ہوتے دکھائی دیے۔ شاید بھارتی حکومت کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ معاملات اس حد تک اُس کی مخالفت میں چلے جائیں گے۔ اب کوئی یہ تونہیں کہہ سکتاکہ دہلی کے اردگر اتنی بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرین کے طویل پڑاؤسے وہاں کے مقامی باشندوں کو پریشانی کا سامنا نہیں تھا۔ یقینا اُن کے لیے بے شمار مشکلات تھیں لیکن اس کے باوجود احتجاج کرنے والوں سے مقامی لوگوں کا تعاون حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔ پھر کسانوں کا جوش اور جذبہ بھی یہ بتا رہا تھا کہ وہ کسی طور بھی ان قوانین کو واپس لینے تک واپس نہیں جائیں گے۔
بات صرف یہیں تک محدود رہتی تو شاید بھارتی حکومت مزید کچھ عرصہ ہٹ دھرمی اختیار کیے رکھتی۔معاملہ تو یہ بھی ہوا کہ اس ایک سالہ تحریک کے دوران سات سو سے زائد کسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ ہوا یہ بھی کہ اپنے زندگیوں سے محروم ہوجانے والے کسانوں کے اہل خانہ احتجاجی کسانوں کے ہیروبن گئے۔سوشل میڈیا پر ایسے درجنوں کلپ دیکھے جاسکتے ہیں جن میں مرنے والوں کے اہل خانہ کو سرآنکھوں پر بٹھایا جارہا ہے۔ ایسے کلپس کی بھی بھرمار ہے جن میں مقامی ہندو اس بات پر غمزدہ دیکھے جاسکتے ہیں کہ کامیابی کے بعد اب مظاہرین اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔مطلب یہ کہ احتجاج کرنے والوں اور دہلی کے رہنے والوں کے دوران ایک اُلفت کا رشتہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہ بات حکومت کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث بنی تھی۔ان قربتوں کو ختم کرنے کے لیے ایک سے زائد مواقع پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنوں کی طرف سے کسانوں سے لڑائی جھگڑا کیا گیا ۔کسانوں کو اُکسایا گیا کہ وہ اشتعال میں آئیں لیکن وہ سب کچھ سہتے رہے لیکن اپنی جگہ سے ایک انچ تک نہ ہلے۔ کسانوں کے اس جوش‘ جذبے اور صبرنے اس کسان تحریک کو تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش درجہ دلا دیا ہے ۔ اب بھارتی کسان تو فتح یاب ہوکر اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ چکے ہیں لیکن اُن الزامات کا کیاہوا جو احتجاج کرنے والوں پر لگائے گئے تھے؟کہاں گئے وہ'' خالصتانی‘‘ اور ''پاکستانی‘‘ہونے کے الزامات؟کہاں گئیں وہ فارن فنڈنگ کی باتیں اور ان میں دہشت گرد شامل ہونے کی باتیں؟
ہمارے ہاں بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں دکھائی دیتے۔کچھ عرصہ پہلے ایک تنظیم کے کارکنوں نے اسلام آباد کا رخ کیا تواُن پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے گئے۔پھر یہ بھی ہوا کہ طرح طرح کے الزامات لگائے جانے کے بعد ان کے تمام مطالبات بھی تسلیم کرلیے گئے۔ اس طرح گوادر میں کوئی مہینہ بھر جاری رہنے والے احتجاج کو دیکھ لیں۔ وہاں کے لوگ اپنے کچھ مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کررہے تھے تو یہ بھی روایتی قسم کے الزامات سے محفوظ نہیں رہ سکے۔معاملہ بہت سیدھا ہے کہ صدیوں سے ماہی گیری یہاں کے باشندوں کا بنیادی روزگار ہے لیکن بقول مظاہرین کے اُن سے یہ حق چھین لیا گیا۔ یہ تو بتایا جاتارہا کہ ان مظاہرین کو سڑکوں پر کون لے کر آیا یا ایسی ہی دوسری باتیں‘لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ لوگ سڑکوں پر آئے کیوں؟یہ نہیں بتایا گیا کہ ماہی گیر مافیا جس سے مقامی ماہی گیروں کو شکایت ہے‘ کہاں سے آیا ہے؟آخر کیوں گوادر کے باشندے اتنی بڑی تعداد میں احتجاج کے لیے مجبورہوئے۔مگر کون سا ایسا مسئلہ ہے کہ جسے بات چیت سے حل نہ کیا جاسکے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کوئی چار ہفتوں کے احتجاج کے بعد نوٹس لیا اور حکومت بلوچستان بھی اس پر متحرک ہوئی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے احتجاج کے شرکا کے نمائندگان سے مذاکرات کئے‘ مطالبے ماننے کی یقین دہانی کرائی ‘ اس طرح یہ احتجاج ختم ہو گیا۔ ہم گوادر کو بین الاقوامی بندرگاہ بنانے جارہے ہیں اور دوسری طرف وہاں کے باشندے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ ملک کایہ اہم ترین حصہ پریشان ہے لیکن قومی سیاسی قیادت اس طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے ۔بہرحال یہ ایک اچھی خبر ہے کہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ۔ یہ پیشرفت خوش آئند ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ آئندہ ایسے حالات پیدا ہونے کی نوبت نہ آئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved