مریم نواز کے بیٹے کی شادی‘ ولیمے اور دیگر تقریبات کے حوالے سے بہت بحث ہورہی ہے ۔ کچھ کا خیال ہے یہ فیملی کا فنکشن ہے اور انہیں پورا حق ہے کہ وہ اس خوشی کو کیسے منانا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے جس میں عام لوگوں کو زیادہ ناک گھسیڑنے کی ضرورت نہیں۔ یہ خاندان 2016 کے بعد مشکلات کا شکار رہا ہے۔ پانامہ سکینڈل کے بعد مسلسل اس خاندان نے مشکلات دیکھی ہیں۔ نواز شریف نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ بیٹی سمیت جیل بھی گئے اور بڑی مشکلوں سے جیل سے لندن پہنچے۔ یوں ایک ماں کو اپنے بیٹے کی خوشی منانے کا موقع ملا ہے تو اسے پورا حق ہے اور اس پر کسی کو تنقید کا حق نہیں۔
شریف خاندان نے بڑی سمجھداری سے اپنے بچوں کے رشتے کیے ہیں‘ یا یوں کہہ لیں کہ پاکستان کے سب سیاسی گھرانے اس طرح ہی اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان شادیوں میں پسند ناپسند نہیں دیکھی جاتی بلکہ سیاسی یا کاروباری مفادات دیکھے جاتے ہیں۔ سیاسی اور کاروباری گھرانوں کے بچے بھی اپنے والدین کے مفادات سامنے رکھ کر یہ شادیاں کرتے ہیں اور اس معاملے میں بعض دفعہ عمروں کے فرق کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ نواز شریف نے اپنے خاندان کے بچوں کے رشتے اس جگہ کیے ہیں جہاں ان کے کاروباری راز دفن ہیں۔ اسحاق ڈار کا اگر جنرل امجد کو دیا گیا بیان حلفی پڑھیں‘ جس کے بدلے انہیں نیب سے ڈیل کرکے رہائی ملی تھی‘ تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اسحاق ڈار شریف خاندان کے کیسے کیسے راز جانتے ہیں۔ شریف خاندان افورڈ ہی نہیں کرسکتا کہ وہ ان سے دور ہوں یا خفا ہوجائیں۔ یوں ڈار صاحب کو رشتہ دار بنا لیا گیا۔ یہی کچھ اب سیف الرحمن کے کیس میں کیا گیا ہے جو قطر میں رہ کر شریف خاندان کے کاروباری معاملات دیکھتے ہیں‘ بلکہ یاد پڑتا ہے ارشد شریف نے ایک سکینڈل بریک کیا تھاکہ این ایچ اے ایک چینی کمپنی کے ساتھ ڈھائی ارب ڈالرز کا ایک کنٹریکٹ کر رہا ہے۔ شاہد اشرف تارڑ چیئرمین تھے۔ انہوں نے ایک چینی کمپنی کے ساتھ سندھ میں موٹروے بنانے کا ایم او یو سائن کیا تھا۔ پتہ چلا اس ایم او یو پر شاہد تارڑ کے ساتھ دستخط کسی چینی عہدیدار کے نہیں بلکہ چینی کمپنی کے نام پر سیف الرحمن نے دستخط کیے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ چینی کمپنی کا محض نام استعمال ہورہا تھا ورنہ ڈھائی ارب ڈالرز کا وہ کنٹریکٹ دراصل شریف خاندان خود کو دے رہا تھا کیونکہ سیف الرحمن ان کے بزنس پارٹنر ہیں اور آج کے نہیں تیس برسوں سے ہیں بلکہ موٹروے لاہور کے کچھ حصے کا کنٹریکٹ بھی سیف الرحمن کی کمپنی کو دیا گیا تھا۔ قطر سے گیس معاہدے میں سیف الرحمن کا رول تھا۔پانامہ میں قطریوں نے خود خط لکھا کہ وہ شریف خاندان کے بزنس پارٹنر رہے ہیں۔ سیف الرحمن قطر میں وہ سب معاملات ہینڈل کرتے ہیں۔ اب مریم نواز کے بیٹے اور سیف الرحمن کی بیٹی کی شادی ہوئی ہے ۔ بات وہی کہ خاندانوں کو اب کاروباری سے بڑھا کر رشتے داری میں بدل دیا جائے تاکہ کاروباری مفادات کے علاوہ راز بھی محفوظ رہیں۔ خیر یہ معمول کی بات ہے اور اکثر خاندان ایسا ہی کرتے ہیں‘ لیکن جو تنقید کی جا رہی ہے اس کی وجہ کاروباری دوستوں یا شراکت داروں کے بچوں میں شادیاں نہیں۔ یہ ہر خاندان کا حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے جو بہتر سمجھیں کریں۔ اصل بات یہ ہے جس انداز میں شادی کی تقریبات کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر پروموٹ کیا گیا یا دکھایا گیا وہ درست عمل ہے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے لہٰذا اس پر بات نہیں ہونی چاہیے لیکن اس میں دو تین سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ جب وہ خاندان خود ان باتوں کو ذاتی قرار نہیں دے رہا تو پھر کس کا گلہ ہوسکتا ہے؟ ان تقریبات کی کئی دنوں سے چلنے والی پارٹیوں کی کوریج خود کرائی جارہی ہے۔ایسی دھوم دھڑکے والی تقریبات شاہی خاندان کے افراد کو سوٹ کرتی ہیں جیسے جاپان، برطانیہ، ناروے میں ہوں۔ شاہی خاندان عوام کے نمائندے نہیں ہوتے۔ انہوں نے لوگوں سے ووٹ لے کر ان کی غربت ختم نہیں کرنی ہوتی۔ انہیں اپنے عوام کا رول ماڈل نہیں بننا ہوتا۔ عوام عقیدت ضرور رکھتے ہیں لیکن ان سے اپنے مسائل کے حل کی توقع نہیں رکھتے۔ وہ جن کو ووٹ دے کر وزیراعظم بناتے ہیں ان سے سادگی، ایمانداری اور اچھی گورننس کی توقع رکھتے ہیں۔
ایک ایسا ملک جہاں پچاس فیصد سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے نیچے رہتے ہیں وہاں ایسی تصویریں چھپنا یا ویڈیوز کا سامنے آنا لوگوں کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نہرو کی بہن کی کتاب پڑھ رہا تھا کہ کیسے انکے والد نہرو کی شادی دھوم دھام سے کرنا چاہتے تھے لیکن ایک سوشلسٹ نہرو اس کے خلاف تھے ۔ وہ سادگی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ والد نہیں مانا۔ گاندھی کو دیکھ لیں ساری عمر ایک دھوتی میں گزار دی۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ غریب تھے‘ وہ کروڑوں بھارتیوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتے تھے کیونکہ وہ ان کی زندگیوں میں تبدیلیوں کے خواہشمند تھے۔
اس ملک میں کروڑوں لوگ اس طرح کی شادی کا تصور نہیں کرسکتے جو جنید صفدر کی تقریبات میں نظرآئی ہے۔ کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر یہ کوئی کاروباری خاندان کررہا ہوتا‘ لیکن جب ایک سیاسی خاندان جو تین دفعہ وزیراعظم اور پانچ دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب رہ چکا ہے جب وہ یہ سب کچھ کرے گا تو سوالات اٹھیں گے کہ ان لوگوں کی محرومیوں کا مذاق اڑا رہے ہیں جن کے پاس یہ سب کچھ نہیں ہے۔ ایک طرف یہ خاندان بچوں کے نکاح خانہ کعبہ میں کرتا ہے تاکہ سادگی اور نیکی کا پیغام جائے اور دوسری طرف بچوں کی شادیوں کو شاہی خاندان کے بچوں کی طرح شان و شوکت سے کئی دن تک جاری رکھتا ہے۔ پرانے زمانوں میں سنتے تھے شہزادوں کی شادیاں کئی دن تک چلتی تھیں۔ رعایا کو خوب کھلایا پلایا جاتا تھا لیکن اس شادی میں رعایا بھی نظر نہیں آئی۔
سیاسی لوگوں اور حکمرانوں کو ہر بات اور ہر قدم اپنے لوگوں کو سامنے رکھ کر اٹھانا چاہئے ۔ اللہ نے آپ لوگوں پر زیادہ ذمہ داری ڈالی ہے ۔ اگرچہ ہندوستان پاکستان کا نفسیاتی مسئلہ ہے کہ ہم ہاتھی گھوڑے یا اب لینڈ کروزر یا ذاتی جہاز پر سوار بندے سے مرعوب ہو کر لیٹ جاتے ہیں۔ اس نفسیات کا فائدہ ان ملکوں کے حکمران اٹھاتے ہیں کہ خود کو ایسا پیش کریں کہ لوگ حسرت کریں ۔پہلے ہی ٹی وی چینلز پر ڈراموں میں دکھائے گئے محلات اور شادیوں کی تقریبات نے سفید پوش گھرانوں کی بچیوں میں حسرتیں بھر دیں کہ ہماری شادی ویسے کیوں نہیں ہوسکتی۔ کئی والدین کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے قرضے لیکر بیٹیوں کی خواہش پوری کی۔ آپ لوگ غریبوں کا نام لیتے ہیں تو پھراتنی بڑی شادیاں بھی نہ کریں کہ غریب اور غریب کی بچیاں حسرت میں ہی دفن ہوجائیں۔ ایک عام آدمی کے بچوں اور حکمرانوں کے بچوں کی شادیوں میں فرق ہونا چاہئے۔ خوشیاں ضرور منائیں لیکن وہ خوشی ان لوگوں کے زخموں پر نمک کا کام نہ کرے جن کے ووٹوں سے ہی آپ حاکم اور حکمران بنتے ہیں۔ وہ جو آپ کو بڑا بناتے ہیں ، حاکم بناتے ہیں لیکن آپ لوگ موقع ملتے ہی اسی رعایا کو چھوٹا بنا کر ان میں ایسی حسرتیں بھردیتے ہیں جن کو دور کرنے کیلئے وہ ساری عمر آپ کے پیچھے لگ کر نعرے مارتے رہتے ہیں۔
یہ حکمران پرانی حسرتیں دور کیا کریں الٹا وہ نئی حسرتیں اپنی رعایا میں پیدا کردیتے ہیں۔ حکمران سمجھ چکے ہیں غریب کی جتنی زیادہ حسرتیں ہوں گی اتنے زور سے وہ ان کے نعرے مارے گا۔