تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     19-12-2021

یہ دن یونہی گزرتا ہے دو خنجروں کے بیچ

کچھ دن وقت کے ساتھ گزرتے نہیں، ٹھہر جاتے ہیں۔ کھڑے رہ جاتے ہیں۔ جیسے گھر کے سامنے سے ایک تیز بھاگتی ہوئی ٹرین گزر رہی ہو اور اس میں سے ایک بوگی کٹ کر، الگ ہوکر وہیں اسی جگہ رہ جائے۔ جاتی ہوئی ٹرین کو ٹکر ٹکر دیکھتی۔ ایسی بوگی جو وہیں کھڑی کھڑی زنگ آلود ہوکر بھوت گھر بن جائے۔ اس کی طرف دیکھنے سے بھی خوف آنے لگے‘ لیکن وہ ہمیشہ نظروں کے سامنے رہے۔ ہم اس سے آنکھیں چراتے رہیں لیکن وہ گھر کی طرف مسلسل دیکھتی رہے۔
میں بچہ تھا لیکن وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب ہمارے گھر باقاعدہ آنے والی ہماری دھوبن کا جوان سپاہی بیٹا مشرقی پاکستان میں شہید ہوا تھا۔ یہ شاید نومبر کے آخری یا دسمبر کے شروع کے دن تھے۔ اونچی، لمبی چوڑی، کھلتے رنگ والی دھوبن اس کے کچھ دن بعد کپڑے لے کر آئی تو غم سے اس کا چہرا ستاہوا تھا‘ لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے، اس کے ہونٹوں پر بین نہیں تھے۔ وہ مالک کی رضا پر راضی تھی۔ اس رتبے پر خوش تھی کہ وہ شہید کی ماں تھی۔ وہ گٹھڑی اٹھا کر آتی تھی اور گٹھڑی اٹھا کر لے جاتی تھی۔ جو وزن اس کے سر پر تھااس کے مقابلے میں گٹھڑی بہت ہلکی تھی۔ پھرایسا ہواکہ ایک تیزبھاگتی ہوئی ٹرین کا ایک ڈبہ الگ ہوکر سامنے رک گیا۔ اس پر 16 دسمبر لکھا ہوا تھا۔اگلے دن وہ پھر ہمارے گھر آئی۔ دھاڑیں مارتی، سینہ کوٹتی،پچھاڑیں کھاتی اوربلکتی ہوئی دھوبن۔صحن میں اسے سنبھالنے والے سنبھال نہیں پارہے تھے۔ بار بار ایک جملہ سنائی دیتا۔ ہائے میرا بیٹا بھی گیا اور میرا ملک بھی۔ ہائے میرا بیٹا بھی گیا اور میرا ملک بھی۔اسے قرار نہیں آتا تھا اور جو اسے جانتا تھا،اور ایک نظر دیکھ لیتا تھا،اسے بھی قرار نہیں آسکتا تھا۔اس دن اس سے گٹھڑی اٹھائی نہیں جاتی تھی۔وہ کس طرح اپنے گھر پہنچی ہوگی، پتہ نہیں۔ وہ اس کے بعد کتنے دن جی سکی، یاد نہیں‘ لیکن اس دن کے بعد سے ہر سال 16 دسمبر آتا ہے اور میری آنکھوں میں دھوبن کے آنسو بھرجاتے ہیں۔
ذلت، رسوائی اور شرمندگی کے زخم تلوار کے گھاؤ سے زیادہ مہلک ہوتے ہیں۔ یہ کسی مرہم سے بھرتے ہی نہیں۔ وقت کا مرہم ہی انہیں مندمل کرے تو کرے، اور کسی چیز میں یہ تاثیر نہیں۔ یہ زخم لیے ہم پچاس سال آگے آگئے۔ وہ نسلیں پیدا ہوئیں، جوان ہوئیں اور بڑھاپے پر دستکیں دینے لگیں جنہوں نے یہ کربناک دن کاٹا تھا‘ لیکن اس دن کی کڑواہٹ کم نہ ہوئی۔ 2014 میں یہ دن پھر پلٹ کر آیااور ایک اوربڑا گھاؤ لگا گیا۔ اس دن ہرایک کا دل ایک بار پھرچھلنی ہوا۔ سات سال گزرنے کے بعد بھی وہ قیامت سر سے نہیں گزری۔
ہے چین کام میں نہ سکوں ہے گھروں کے بیچ
یہ دن یونہی گزرتا ہے دو خنجروں کے بیچ
میں ان لوگوں میں نہیں جو اس طرح کے سانحوں کو اس لیے دہراتے اور طرح طرح سے سامنے لاتے رہتے ہیں کہ انہیں اپنی قوم، اپنے ہم وطنوں کو کچوکے لگانے کا کوئی موقع درکار ہوتا ہے۔ میں ان میں نہیں جنہیں ملال کے نام پر پاکستان کے زخم کریدنے اور ان کے کھرنڈ اتارنے کی خواہش رہتی ہے۔ میں ان میں نہیں جنہیں کوئی ایسا موقع غنیمت لگتا ہے جس میں وہ ماضی یا حال کی کسی بڑی تکلیف کو بار بار دہرا کر اس مٹی سے محبت کرنے والوں کے اترے ہوئے چہرے دیکھ سکیں۔ میں الحمدللہ اس خود اذیتی کا شکار نہیں، جہاں اپنے آپ کو، اپنے ملک کو، اپنے ہم وطنوں کو کمترین اور بدترین ثابت کرکے نفسیاتی تسکین حاصل کی جائے۔ میں ان سے بہت دور ہوں جنہیں ہرزخم پر نمک پاشی کی عادت ہے اور وہ اسی کو خیر خواہی جانتے ہیں۔ میں ان میں ہرگز ہرگز نہیں جنہیں یہ احساس کمتری خوشی بخشتا ہے کہ ہم نے پچھتر سال میں کچھ حاصل نہیں کیا، سب نقصان ہی نقصان ہے۔ جب کوئی باشعور انسان، کوئی لکھنے پڑھنے والا، کوئی بولنے والا، کوئی سوچنے والا ذہنی طور پر اس سطح پر آجائے تو وہ قوم کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے، اپنا بھلا بھی نہیں کرسکتا‘ لیکن ان خود فریب لوگوں میں رہنے سے بھی خدا کی پناہ، جو آدھا ملک اور آدھی قوم گنوا کر بھی اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ ہم نے پچھتر سال میں بہت کچھ پایا بھی ہے اور بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ یہی سچ ہے اور یہی واضح حقیقت ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے اسباب و عوامل پر بہت لکھا گیا۔ سچ یہ ہے کہ اس کی بنیاد بہت پہلے سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے ڈال دی تھی لیکن اگر ذوالفقار علی بھٹو، آغا محمد یحییٰ خان قزلباش اور مجیب الرحمن اپنے اقتدار کے فوری فائدوں کو پس پشت ڈال دیتے تو نہ صرف یہ کہ ہر ایک کے ہیرو بنتے بلکہ اس انجام سے بھی دوچار نہ ہوتے۔ قدرت کا اپنا مکافات عمل ہے۔ اس پورے حادثے میں بنگالیوں اور غیربنگالیوں کا جو خون بہا، میں سمجھتا ہوں، یہی وہ بوجھ تھا جس نے اس خون کے ذمے داروں کو کبھی پنپنے نہیں دیا اور عبرتناک مثال بنا کر رکھ دیا۔
میں نے سقوطِ مشرقی پاکستان کا جو غیرمعمولی غم اپنے والد گرامی جناب محمد زکی کیفی پر دیکھا، اور اپنے گھر میں دیکھا وہ مجھے کہیں اور یاد نہیں۔ وہ دن ایسا تھے جب نوالہ کڑوا لگتا تھا اور پانی حلق سے نیچے اترنا مشکل محسوس ہوتا تھا‘ لیکن میرے والد اس بے پناہ غم کے باوجود یاسیت کے نہیں رجائیت کے علمبردار تھے۔ اسی غم میں انہوں نے قومی نوحہ کے نام سے ایک نہایت اثر انگیز نظم لکھی جس کی انہی دنوں نوائے وقت میں اشاعت پر نامور صحافی م۔ش نے نہایت متاثر ہوکر کچھ رقم بطور تحفہ زکی کیفی صاحب کو بھجوائی جو انہوں نے بصد شکریہ واپس کردی۔ یہ نظم ہر دل کی ترجمان تھی۔
حادثہ سخت بہت سخت ہے، رولے اے دل
خشک آنکھیں ہیں انہیں خون سے دھو لے اے دل
ایک طوفان بلا بن کے قیامت ٹوٹا
قوم گرداب میں کھاتی ہے جھکولے اے دل
رقص گاہوں میں اس انداز سے پائل چھنکی
جس کی آواز میں آواز اذاں ڈوب گئی
اس قدر شور مچاتی رہیں عشرت گاہیں
جس میں مظلوم کی فریاد و فغاں ڈوب گئی
میری عادت نہیں زخموں پہ نمک پاشی کی
کیا کروں داغ اگر یہ نہ دکھاؤں تجھ کو
میں نے یہ قصہ کہا اس لیے ہوکر مجبور
جو ترا فرض ہے وہ یاد دلاؤں تجھ کو
٭......٭......٭
قول حق آج بھی سچ ہے بزبان اقبالؔ
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
اٹھ ذرا دین محمدؐ کا سپاہی بن کر
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
لیکن جیسا کہ میں نے کہا جناب زکی کیفی رجائیت پسند تھے، انہی دنوں انہوں نے یہ بھی اشعار کہے جو ہم سب کے لیے، ایسے حادثوں کے بعد، آج بھی قندیل بن کر جگمگاتے ہیں۔ یہی قندیلیں ہمارا راستہ ہیں۔
جو چلتے ہیں انہیں کو راہ میں ٹھوکر بھی لگتی ہے
یہ ٹھوکر کھاکے خوش قسمت سنبھل جایا ہی کرتے ہیں
جواں ہمت سبق لیتے ہیں دنیا میں حوادث سے
زبوں ہمت جو ہوتے ہیں وہ پچھتایا ہی کرتے ہیں
مرے مذہب میں کیفی جرم ہے احساس مایوسی
مسلماں داستاں عظمت کی دہرایا ہی کرتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved