تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     19-12-2021

افغانستان کا المیہ!

افغانستان کا نام سنتے ہی جو تصور ذہن میں ابھرتا ہے‘ وہ جنگ و جدل کا ہے۔ افغانستان اور جنگ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ بدقسمتی سے ایک عرصے سے یہ ملک دنیا کے لئے چاند ماری کا میدان بنا ہوا ہے۔ برطانیہ نے انیسویں صدی میں اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ 1839ء سے 1919ء تک برطانیہ نے افغان سرزمین پر تین مرتبہ حملہ کیا مگر ہر بار ناکام ہوا۔1979ء میں روس نے اسے تختۂ مشق بنالیا مگر اسے بھی اپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑا۔ ابتدا میں تو ایسا لگتا تھا کہ روس جلد اس سرزمین کو فتح کر لے گا کیونکہ روس جدید ترین اسلحے کے ساتھ‘ اس وقت کی سپر پاور کے طور پر اس پڑوسی ملک پر حملہ آور ہوا تھا جبکہ افغانستان کی حالت تب بھی ویسی تھی‘ جیسی آج ہے۔افغانوں کے پاس تب بھی ایک ہی ہتھیار تھا اور آج بھی وہی ہے۔ ان کے پاس لڑنے کا جو حوصلہ اور جذبہ ہے‘ وہ شاید دنیا میں کم ہی کسی کے پاس ہو اور یہ اسی طرح قائم و دائم ہے جیسے عشروں قبل تھا۔افغان جنگجو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے آئے ہیں ‘وہاں بچہ بچہ ہتھیار چلانا جانتا ہے اور افغانوں کی کئی نسلیں جنگوں میں ہونے والی قتل و غارت اور گولہ باری کے دوران پیدا ہوئیں اس لئے ان کیلئے دھماکے اور گولیاں اچنبھے کی بات نہیں۔ان کیلئے جنگ ایک موسم کی طرح ہے جس نے کچھ دیر بعد آنا ہی آنا ہے لہٰذا وہ اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ مسلم بچوں کی پیدائش پر ان کے کان میں اذان دی جاتی ہے لیکن افغانستان میں پیدا ہونے والے بچوں کو پیدائش پر اذان کے ساتھ گولیوں کی تڑتراہٹ بھی سنائی دیتی ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ کی قیادت میں درجنوں ممالک نے افغانستان کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ اس مرتبہ تو مظالم کی حد کر دی گئی اور افغانستان کو حقیقتاً ایک کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا۔ اتحادی ممالک نے اپنے تئیں اس سرزمین پر مشق زنی کی‘ نئے نئے خودکار ہتھیار اور جدید ترین ٹیکنالوجی آزمائی گئی‘ بی باون طیاروں نے ٹنوں وزنی بم گرائے‘ یہاں تک کے پہاڑوں کے پہاڑ صاف کر دیے لیکن افغان جذبۂ حریت کو کمزور نہ کر سکے۔اگرچہ سوویت یونین کی جنگ کے نتیجے میں زیادہ خونریزی ہوئی تھی لیکن امریکی حملہ زیادہ مہنگا ثابت ہوا۔سوویت یونین کے افغان جنگ میں دو ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوئے تھے مگر امریکہ کی جانب سے 2010ء اور 2012ء کے درمیان سالانہ تقریباً 100 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘ لاکھوں ہمیشہ کیلئے معذور ہو گئے لیکن یہ امریکہ کے سامنے سر جھکانے پر آمادہ نہ ہوئے۔
2001ء میں جب سے طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تب سے اب تک‘ امریکی افواج کو اڑھائی ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کارروائی میں اکیس ہزار فوجی زخمی ہوئے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2019ء تک امریکی فوج کے تقریباً تیرہ ہزار اہلکار افغانستان میں تھے جبکہ تقریباً گیارہ ہزار امریکی شہری کنٹریکٹر کی حیثیت سے وہاں کام کر رہے تھے۔ افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے جانی نقصان کے مقابلے میں امریکی ہلاکتوں کے اعداد و شمار بہت کم ہیں۔(سابق) افغان صدر نے گزشتہ سال کہا تھا کہ 2014ء میں ان کے صدر بننے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔ قریباً دو عشرے تک جاری رہنے والی جنگ ختم ہوئی اور امریکہ اور نیٹو فورسز کا انخلا ہوا تو منظرنامہ کچھ صاف ہوا، اب دھول چھٹ رہی ہے اور سنگین المیے سامنے آ رہے ہیں۔
امریکہ کے حالیہ صدر جو بائیڈن نے افغانستان کو ''سلطنتوں کے قبرستان‘‘ کے طور پر یاد کرتے ہوئے کہا کہ فوجی قوت کے ذریعے ایک مستحکم‘متحد اور محفوظ افغانستان کا حصول ممکن نہیں۔ بائیڈن کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان کے بارے میں دنیا بدل رہی ہے۔ اب حالات بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔پہلے صرف روس اور امریکہ عالمی سپرپاور تھے‘ اب چین نئی معاشی طاقت بن کر خود کو منوا چکا ہے؛ چنانچہ سب جان چکے ہیں کہ افغانستان میں جو بھی ہو گا‘ اس کا خطے پر بھی اثر پڑے گا۔ افغانستان میں امن کا مطلب پورے خطے میں امن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا جو پہلے اس ملک کو نظر انداز کرتی آ رہی تھی‘ اب اسے اپنی غلطی اور افغانستان کی اہمیت کا احساس ہونے لگا ہے۔ افغانستان چونکہ برادر اسلامی ملک کے ساتھ ساتھ ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور افغانستان کی تاریخ اور اس کا ماضی پاکستان سے براہِ راست جڑے ہیں‘ اس لیے پاکستان ایک عرصے سے افغانستان میں امن کے قیام کے لئے کوشش کرتا آ رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد تین ہزار دو سو کلومیٹر طویل ہے جبکہ دوسرے نمبر پر افغانستان ہے جس کے ساتھ دو ہزار چھ سو چالیس کلومیٹر کی سرحد لگتی ہے۔ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے گزشتہ چار برس سے باڑ لگائی جا رہی ہے جس پر نوے فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ باڑ کی موجودگی میں افغانستان سے شدت پسند یہاں نہیں آ سکیں گے۔ خیبر پختونخوا سے متصل پاک افغانستان سرحد پر باڑ لگائے جانے کا کام مکمل ہو چکا ہے جس کی طوالت تقریباً بارہ سو کلومیٹر ہے لیکن چترال کے بلند و بالا اور دشوار ترین پہاڑوں اور گلیشیرز پر باڑ لگانا چیلنجنگ ہے لیکن پھر بھی اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے مناسب چیک پوسٹیں بنا کر اس کا بھی حل نکال لیا گیا ہے۔
علاقائی سلامتی اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پاکستان مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کی میزبانی میں آج (انیس دسمبر کو) او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اسلام آباد میں غیر معمولی اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھی مدعو کیا جا رہا ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق اس غیر معمولی اجلاس کا مقصد افغانستان کی سنگین انسانی صورتحال پر غور و خوض کرنا اور مؤثر لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق اس وقت افغانستان میں دو کروڑ افراد کو بھوک کے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں بتیس لاکھ بچے شدید غذائی قلت کے خطرات سے دوچار ہیں اور جنوری 2021ء سے ستمبر تک‘ ساڑھے چھ لاکھ نئے افراد افغانستان کے اندر بے گھر ہوئے ہیں۔ پاکستان، اپنے محدود وسائل کے باوجود پچھلی کئی دہائیوں سے تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔سردیوں کی آمد نے افغانستان کی صورتحال کو مزید گمبھیربنا دیا ہے۔ اس صورتِ حال پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو ایک بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔
وزیر خارجہ کے مطابق افغانستان کی صورتحال پر وزیر اعظم عمران خان عالمی رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ او آئی سی نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کی حمایت کی ہے۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ افغان عوام کو او آئی سی سمیت عالمی برادری کی حمایت کی ضرورت ہے۔ او آئی سی کی قیادت افغان عوام کی مدد کیلئے مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ موجودہ صورتحال میں افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی برادری کی مسلسل معاونت ناگزیر ہے۔افغانستان میں جو عبوری حکومت سامنے آئی ہے‘ وہ اس قابل نہیں کہ اندرونی یا بیرونی معاملات کو حل کر سکے۔ افغان عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرناکسی ایک ملک کے لیے آسان نہیں کیونکہ تمام ملک اس وقت کورونا وبا کے ڈسے ہوئے ہیں اور ان کی معیشتیں پہلے ہی سنبھلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں؛ تاہم اگر او آئی سی کے ممبر ممالک ہی اکٹھے ہو کر کوئی لائحہ عمل بنا لیں اور اپنا اپنا کردار ادا کریں تو افغانستان کو نئے سانحات سے دوچار ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved