گزشتہ دنوں امریکی کانگریس میں اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے پیش کی گئی قراردار 212 کے مقابلے میں219 ووٹوں سے منظور کر لی گئی۔ امریکی کانگریس کی جانب سے اس اسلامو فوبیا ایکٹ کی منظوری 14 دسمبر کو دی گئی۔ اسلا مو فوبیا اس وقت پوری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہ افغان جنگ ہے جو کل تک سب کی آنکھوں کا تارا بنی رہی اور جس کے نتیجے میں امریکہ واحد سپر پاور کے گھمنڈ میں مبتلا رہا۔ آج جب دینِ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے تو ایسا کہنے والے نجانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ 1979ء میں روس کی افغانستان پر چڑھائی سے پہلے‘ دنیا بھر میں اس طرح کی منظم دہشت گردی کا کہیں تصور بھی نہیں ملتا تھا۔ فلسطینیوں نے اپنے گھر بار پر یہودی قبضے کے خلاف جو جدو جہد اور مزاحمت کی تھی‘اور جو اب بھی جاری ہے‘ اگرچہ اسے مغرب کے تعصب پسند دہشت گردی سے جوڑتے رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسے دہشت گردی کا نام نہیں دیا جا سکتا اور یہ بات اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔ اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے کی گئی عسکری کارروائیاں دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اسرائیل اور اس کے بین الاقوامی دوستوں کے تعاون اور مدد سے کیے گئے جبری قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد با لکل اسی طرح سے ہے جو مشرقی تیمور اور آئر لینڈ کے لوگوں نے اختیار کی۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی جدو جہد کا اگر آئر لینڈ اور مشرقی تیمور سے موازنہ کیا جائے تو ان میں ایک فرق واضح ہے، وہ یہ کہ برطانیہ اور انڈونیشیا نے بالترتیب آئر لینڈ اور مشرقی تیمور کے عیسائی بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں کی زندگیاں جہنم نہیں بنائی تھیں، ان کے گھروں کو جلایا نہیں گیا تھا، ان کے بچوں کے سروں کے نشانے باندھ کر سر عام انہیں اپنی خوفناک اور جدید ترین گنوں سے چھلنی نہیں کیا تھا۔ برطانیہ اور انڈونیشیا نے ایک حد تک ان کی آزادی کی جنگ کو روکا ضرور مگر آئر لینڈ کی آزادی کیلئے امریکہ جیسے بڑوں کے سمجھانے اورانڈونیشیا کوخوفناک نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے ڈرانے دھمکانے کے بعدان کو ان کی مرضی کے الگ الگ خطے تھما کر دنیا کی ریاستوں میں اپنی عددی تعداد بڑھانے کیلئے دو الگ ملک بنا دیے گئے۔
امریکہ سمیت یورپی یونین اور جاپان کامسلمانوں کے ساتھ رویہ کسی طور بھی انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اپنے مخصوص مقاصد کیلئے نوبیل انعام کا ڈھونگ رچاکر مغرب یہ سمجھتا ہے کہ ا س جیسا انسانی حقوق کا علمبردار کوئی نہیں اور ہیومن رائٹس کے نام سے کبھی پاکستان تو کبھی ایران اور کبھی چین سمیت ہاتھ نہ آنے والے کچھ دوسرے ملکوں پر پابندیاں لگانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ان ممالک کو بھارت اسرائیل جیسے ملک نظر نہیں آتے جو ہیومن رائٹس کو اپنی سفاکیت کے جبڑوں میں اس طرح چبا رہے ہیں کہ ان سے اٹھنے والی انسانی چیخیں دلوں کو دہلا رہی ہیں۔ جب جب کشمیر اور فلسطین کا نام سامنے آتا ہے‘ امریکہ اور یورپ سمیت سب غنودگی میں چلتے جاتے ہیں، ان کی قوتِ سماعت سمیت دیگر تمام حسیں بے حسی کے سمندروں میں غرق ہونے لگتی ہیں۔ جب کشمیریوں پر ان کی زندگیاں تنگ کی جاتی ہیں‘ جب بھارت کی قابض فوج کی درندگی اور وحشت ہر قسم کی قانونی، اخلاقی اور انسانی ہمدردی کے زاویوں سے ماورا ہو کر کشمیری مائوں کی گودیں اجاڑنا شروع کرتی ہے تو اس وقت ایک ہلکی سی جھرجھری لے کر یہ ایسے اٹھ بیٹھتے ہیں جسے اردو میں اشک شوئی اور پنجابی زبان میں گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے محاورے سے موسوم کیا جاتا ہے۔
امریکہ سمیت یورپی یونین کی کچھ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں اور ادارے دنیا کو دکھانے کیلئے بھارت اورا سرائیل کے ریاستی ظلم و جبر کے خلاف ایک ہلکا پھلکا بیان دے کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ گویا ان کی نظروں میں مسلمانوں کیلئے انسانی حقوق اور ہیومن رائٹس کی حد بس اتنی ہی ہے۔ جب اپنے گھر کو یا اپنے گھر جیسے کسی اور گھر کو آگ لگتی ہے تو امریکہ اور یورپی یونین مچھلی کی طرح تڑپنے لگتے ہیں۔ یہ تو زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب امریکہ اور مغربی ممالک سمیت اقوام متحدہ نے عیسائی اکثریت کے نام سے مشرقی تیمور کی الگ ریا ست بنانے کا ارادہ کیا تھا اور انڈونیشیا کو عالمی پابندیوں سے اس قدر خوفزدہ کیا گیا تھا کہ اس کی معیشت کی سانسیں رکنا شروع ہو گئی تھیں اور پھر اس سے جبراً رائے شماری کرا کے مشرقی تیمور کے نام سے ایک نئی ریا ست اس کے پہلو میں کھڑی کر دی گئی۔ گزشتہ74 برسوں سے مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں اس سے کہیں زیادہ ہولناک اور دلدوز مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، بھارت کے فوجی بوٹوں تلے روتے‘ چیختے‘ چلاتے اور درد سے سسکتے ہوئے کشمیری سوال کر رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انہیں رائے شماری کا وہ حق نہیں دیا جا رہا جو آئر لینڈ اور مشرقی تیمور کو دیا گیا اور جو اب سکاٹ لینڈ کو بھی دیا جا رہا ہے؟
اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے والوں کو تاریخ کے ابواب کا مطالعہ کرنا چاہیے ، آج دہشت گرد کہلانے والی تنظیموں کو دہشت گردی کی تربیت کس نے دی؟ انہیں اس کی راہ کس نے دکھائی؟ انہیں اس مقصد کیلئے گولہ بارود اور اسلحہ کس نے تھمایا؟ یہ تو اب کوئی راز نہیں رہا کہ جب تک مغرب اور امریکہ کا مفاد شامل رہا‘ ایسی تنظیموں کی نہ صرف پرورش کی گئی بلکہ انہیں ہر ممکن مدد بھی فراہم کی گئی۔ اب تو یہ باتیں بھی واضح ہو چلی ہیں کہ افغانستان پر روس کی چڑھائی کے پیچھے بھی سی آئی اے کاہاتھ تھا جس نے کے جی بی کے کچھ لوگوں کے ذریعے سوویت یونین کو افغانستان میں اس طرح پھنسانے کا بند وبست کیا کہ اس سے ویتنام کی شکست کا بدلہ لیا جا سکے۔
جہادِ افغانستان کے نام پر پاکستان کے علا وہ دوسرے کئی علاقائی اور مسلم ممالک سے بھی نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو افغانستان بھیجا گیا، ان میں سے اکثریت ایسے عرب نو جوانوں کی تھی جو اپنے ساتھ بے تحاشا سرمایہ لے کر آئے تھے۔ اب مغرب کا کام دیکھئے کہ ان عرب نوجوانوں کی گوریلا تربیت ایسے اسرائیلیوں سے کرائی گئی جو انگریزی زبان کے علا وہ عربی بھی روانی سے بول سکتے تھے، البتہ یہ بھید بعد میں کھلا جس نے سب کو ہلاکر رکھ دیا۔ عرب نوجوانوں کو تربیت دینے والے اسرائیلیوں میں کیپٹن سے بریگیڈیئر رینک تک کے افسران شامل تھے جو انتہائی ماہر سائیکاٹرسٹ بھی تھے۔ اسی تربیت کے باعث ان کا عرب نوجوانوں کے ساتھ استاد اور شاگرد جیسا قابلِ احترام رشتہ پیدا ہو گیا۔ روس کی شکست کے بعد پورے افغانستان میں انارکی پھیل گئی اور مختلف قبائل اور قومیتوں کے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔ اسی زمانے میں امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ سے ایک ٹی وی انٹر ویو میں پوچھا گیا کہ یہ جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے‘ اس کے متعلق امریکہ کی کیا رائے ہے؟ کیایہ عالمی امن اور امریکی مفاد کے خلاف نہیں؟ اس پر امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے یہ حیران کن جملہ کہا: یہ سب امریکہ کے بہتر مفاد میں ہے۔ امریکہ کے اس جواب سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ ساری بد امنی اور انا رکی‘ جس سے افغانستان شدید تباہی سے دوچار ہوا‘ امریکہ کے ایما پر ہی کی جا رہی تھی۔ اس سچائی کی حقیقت جرمنی کے ایک رسالے ''DASGEHEIMNIS‘‘ میں بڑے واشگاف الفاظ میں کھول کر بیان کی گئی تھی۔
گوادر اور بلوچستان کی صورتحال کو افغانستان اور خطے کی نئی ترتیب کے حساب سے دیکھنا ہو گا کیونکہ حال ہی انتقال کرنے والے ایک بلوچ سردار کا ایک بیٹا‘ جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے‘ ایک انٹرویو میں کہہ رہاتھا کہ '' ہمیں اپنے نوجوانوں کو خود کش حملوں کیلئے تیار کرنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر جنگ نہیں جیتی جا سکتی‘‘۔ اگر ہم یہ سمجھ بیٹھیں کہ بھارت افغانستان کے خفیہ مقامات اور تربیتی کمین گاہوں سے نکل چکا ہے تو یہ غلط فہمی سب کو دور کرلینی چاہئے۔ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں بتاتی ہیں کہ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے دہشت گرد گروپ اب بھی بھارت نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔