تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     20-12-2021

سیاسی‘ معاشی مسائل کیسے حل کیے جائیں؟

پی ٹی آئی کی حکومت اور پی ڈی ایم و دیگر اپوزیشن جماعتیں لفظوں کی جنگ میں مصروف ہیں اور کچھ رہنما سیاسی مخالفین کے خلاف معاندانہ اور توہین آمیز گفتگو کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ حکومت اپنی کارکردگی کو 'شاندار‘ کے طور پر پیش کرنے اور اپوزیشن جماعتوں کو بے اثر کرنے کی خواہش مند ہے۔ جس دن سے وزیر اعظم صاحب نے یہ عہدہ سنبھالا ہے‘ اسی روز سے اپوزیشن ان کے انتخابی جواز کو مسترد کر رہی ہے۔ اپوزیشن ماورائے پارلیمان حکومت گرانا چاہتی ہے۔
دونوں کو اپنے متنوع ایجنڈوں کو آگے بڑھانے میں ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ دونوں کو اپنے اعلان کردہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت ایک سمت آگے بڑھنے میں یکسو نہیں اور بلند بانگ بیانات کے باوجود سماجی، اقتصادی اور گورننس کے مسائل کا قابل قبول حل تلاش کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اس کی کارکردگی خراب رہی ہے۔ اس کا بڑا مسئلہ معاشی ڈومین میں ہے، میکرو اور مائیکرو دونوں سطحوں پر۔ مختلف سہولتوں کے لیے ''کارڈز‘‘ کے اجرا کی پالیسی اور خصوصی ''قرضوں‘‘ اور ''ریلیف منی‘‘ کی تقسیم نے چنیدہ لوگوں کو کچھ مدد تو ضرور فراہم کی ہے لیکن یہ اقدامات صحت و تعلیم کی ناکافی سہولیات، مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور پسماندگی کا پائیدار حل فراہم نہیں کر سکتے۔ گورننس کا بحران ہے اور عام لوگوں کو بہتر مستقبل کی امید دلانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔
اپوزیشن کی کارکردگی بھی بے شمار خامیوں کا شکار ہے۔ پی ڈی ایم اور دیگر اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کرنے اور بار بار حکومت کو ہٹانے کی دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں؛ تاہم وہ خود دو بڑے مسائل کا شکار ہیں۔ پہلا، پی ٹی آئی کی حکومت کی طرح اپوزیشن بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے متحد نہیں ہے۔ حکومت کو ہٹانے کے مشترکہ ہدف سے آگے ان کا کوئی دوسرا ایجنڈا نہیں ہے۔ قیادت کے نقطہ نظر میں فرق، باہمی حسد اور مشترکہ سیاسی نظریے کی کمی کے باعث ان کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ پی ایم ایل این کو قیادت کے اندرونی مسائل کا سامنا ہے جو اس کے پالیسی بیانات میں عدم مطابقت کا باعث بنتے ہیں۔ پی پی پی‘ پی ڈی ایم سے دور رہتی ہے، اور سندھ میں اپنی حکومت برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ نہ تو پی پی پی اور نہ ہی پی ایم ایل این اپنے ارکان پارلیمنٹ سے استعفا دینے کیلئے کہنے کو تیار ہے جیسا کہ مولانا فضل الرحمن‘ جو پی ٹی آئی حکومت کو ہٹانے کے لیے پی ایم ایل این اور پی پی پی سے زیادہ بے چین دکھائی دیتے ہیں‘ نے مطالبہ کیا تھا۔
اپوزیشن کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی کسی بھی سیاسی جماعت نے اس کے متبادل کے طور پر کوئی تجویز یا لائحہ عمل پیش نہیں کیا جسے وہ معاشی، سماجی یا سیاسی میدان میں پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی سے تعبیر کرتی ہیں۔ اپوزیشن پی ٹی آئی حکومت پر تنقید سے آگے نہیں بڑھ پا رہی۔ عوام کے مسائل کے حل کیلئے نئے آئیڈیاز کی عدم موجودگی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف احتجاج میں عام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکنے کی بڑی وجہ ہے۔ اپوزیشن کی ریلیوں میں صرف انکے کارکنان اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن)کی حکمرانی (2008-2018)سے فائدہ اٹھانے والے اور پارٹی کارکن شامل ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور پی پی پی کی جانب سے اپنا کردار ادا کرنے میں نااہلی نے عوام میں بیگانگی یا عدم دلچسپی پیدا کر دی ہے جنہیں حکومت کے ممکنہ طور پر بدلنے کے باوجود اپنے معیارِ زندگی میں بہتری کی امید بہت کم نظر آتی ہے۔
پاکستان کے اندرونی چیلنجز بیرونی خطرات سے زیادہ شدید ہو چکے ہیں۔ سب سے سنگین چیلنج معیشت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ہے: قرضوں اور امداد جیسے بیرونی ذرائع پر غیرمعمولی انحصار، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر اور فنڈز کو متحرک کرنے کیلئے بانڈز فلوٹنگ جو قرض ہی کی ایک قسم ہے۔ پاکستان کے عوام کا معاشی مستقبل مہنگائی، افراط زر میں بے تحاشا اضافے، بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں بیروزگاری، معاشی تفاوت، غربت اور پسماندگی کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ عام لوگوں کیلئے صحت کی سہولیات اور بچوں و نوجوانوں کیلئے معیاری تعلیم و تربیت زوال پذیر ہیں۔
ایک اور چیلنج جو معاشرتی تانے بانے کو ختم کررہا ہے‘ بدعنوانی اور کسی بھی طریقے سے پیسہ کمانے کی بے لگام وبا ہے۔ ذاتی دولت کو پوری قوم کی اجتماعی دولت سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ مشاہدہ کیجیے کہ پچھلے تیس سالوں میں کچھ لوگوں نے پاکستان کے اندر اور باہر کیسے دولت اکٹھی کی ہے۔ لوگوں کی اکثریت یا تو مشکل معاشی زندگی گزار رہی ہے یا پھر وہ غربت کا شکار ہے۔ پاکستان میں معاشی اور سماجی تفاوت بڑھ گیا ہے۔
اگر ان چیلنجز سے ترجیحی بنیادوں پر نہ نمٹا گیا تو بحیثیت قوم پاکستانیوں کا حوصلہ ختم ہو جائے گا اور ریاست پر ان کا اعتماد متزلزل ہو جائے گا۔ اس صورت میں عدم برداشت، انتہا پسندی اور تشدد عروج پر ہو گا۔ بیرونی کھلاڑی ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا نسبتاً آسان پائیں گے۔
کوئی ایک سیاسی جماعت یا صرف پی ٹی آئی کی حکومت یا اکیلے مستقبل کی حکومتیں ان مسائل سے نہیں نمٹ سکتیں۔ اس لیے سیاسی اور سماجی رہنمائوں کو ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں سماجی و اقتصادی مسائل سے نمٹنے کیلئے تعاون پیدا کرنا ہوگا۔ اگر موجودہ پی ٹی آئی حکومت کو ان مسائل کو حل کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے اور وہ عام لوگوں کو بہتر مستقبل کی کوئی امید دلانے سے قاصر ہے تو آئندہ حکومتوں کو اسی بحران کا زیادہ شدت کے ساتھ سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کی ممکنہ تبدیلی معیشت میں کسی خاص بہتری کی ضمانت نہیں دیتی۔ سب سے اہم بات یہ نہیں کہ پاکستان پر کون حکومت کر رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کے رہنما اپنے ذاتی اور گروہی ایجنڈے کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کے داخلی معاشی اور سماجی مسائل کے حل کیلئے مشترکہ سماجی و اقتصادی ایجنڈے پر متفق ہو سکتے ہیں؟
موجودہ پاکستانی سیاست کو اقتدار کو 'برقرار رکھنے یا اس پر قبضہ کرنے یا حکومت کے ذریعے پیسہ کمانے اور اسے کسی بھی جانچ پڑتال سے بچانے کے لیے ایک وحشیانہ اور آزادانہ مقابلے‘ کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ مقتدر اشرافیہ کا پاور گیم ہے جس میں وہ امیر اور متمول لوگ شامل ہیں جنہوں نے پچھلے تیس سالوں میں پیسہ بنایا ہے۔ ان کے علاوہ اعلیٰ بیوروکریٹک اسٹیبلشمنٹ کے مالکان بھی اس کھیل کا حصہ ہیں۔ اقتدار کی کشمکش میں مبتلا افراد کی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے عام لوگوں کو متحرک کیا جاتا ہے۔ اس کا عام لوگوں کے مسائل کے حل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پاکستانی سیاست کے موجودہ طرز پر نظرثانی کرنے اور اسے اس انداز میں ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے کہ رہنما سماجی و اقتصادی مسائل کے حل کیلئے تعاون پر مبنی کوششوں پر متفق ہوں تاکہ عام لوگوں کی تکالیف کو کم کیا جا سکے۔ یہ حکمت عملی نہ صرف پاکستان کو ایک اعتدال پسند اور پُرامید معاشرہ بنا دے گی بلکہ یہ سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کے مفاد میں بھی کام کرے گی۔ لیڈروں کو عوام میں عزت ملے گی اور وہ زیادہ استحکام اور امن کے ساتھ سیاسی طاقت استعمال کر سکیں گے۔ اگر سیاست میں زیادہ ہم آہنگی پیدا ہو جائے اور سیاسی رہنما جمہوری کلچر کے تناظر میں کام کریں تو وہ ریاستی اداروں پر اپنی برتری قائم کر سکیں گے۔ انہیں جتنا جلدی احساس ہو جائے اتنا ہی ان کے اور پاکستانی عوام کیلئے بہتر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved