انبیائے کرام کے درمیان حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ممتاز مقام ہے۔ آپ کو کلیم اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ کی زندگی میں ابتلا وآزمائش منصبِ نبوت پر فائز ہونے سے قبل ہی شروع ہوگئے تھے۔ آپ نے اللہ کی حکمت کے تحت شاہی محل میں پرورش پائی۔ سورۃ القصص میں اس کی تفصیلات مذکور ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب ہوش سنبھالا اور جوانی میں داخل ہوئے تو مصر کی حالت ان کے لیے نہایت اذیت کا باعث تھی۔ آپ تو شہزادوں کی سی پُرآرام زندگی گزارتے تھے لیکن بنی اسرائیل مجموعی طور پر بدترین عذاب میں مبتلا تھے۔ مصر کی حکمران قبطی قوم اس غلام قوم کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتی تھی۔
ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شہر میں دیکھا کہ ایک قبطی اور ایک اسرائیلی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ان کے پاس اور کوئی نہ تھا۔ اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی مدد کے لیے پکارا۔ آپ نے قبطی کو ایک گھونسا مار دیا۔ آپ کا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہ تھا‘ بلکہ اسے محض سرزنش و تادیب کے لیے گھونسا مارا تھا‘ لیکن قضائے الٰہی سے وہ گھونسا اس کے لیے پیغامِ اجل بن گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ یہ صورتِ حال تشویش ناک تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے اس فعل پر سخت ندامت تھی۔ آپ نے سمجھا کہ اس واقعہ کے بعد بنی اسرائیل‘ جو بے چارے پہلے ہی کچھ کم مظلوم نہ تھے‘ مزید ظلم وستم کی چکی میں پسنے لگیں گے۔ آپ کے ذہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ یہ سب کچھ شیطان کی چال ہے۔ آپ اسی وقت خدا کے سامنے جھک گئے اور عرض کیا: رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ۔ (القصص: 16)''اے مولا! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے‘ تو میرا گناہ معاف کر دے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو معاف فرما دیا۔ معافی مل جانے کے بعد آپ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے عہد کیا کہ کبھی ظالموں کے معاون نہیں بنیں گے۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دربارِ شاہی سے بالکل قطع تعلق کر لیا۔ مفسرین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ظالم حکومت یا افراد کی معاونت ہرگز کسی مومن کو نہیں کرنی چاہیے۔
''حضرت عطاءؒ بن ابی رباح سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ میرا بھائی بنو امیہ کی حکومت میں کوفے کے گورنر کا سیکرٹری ہے۔ معاملات کے فیصلے کرنا اس کا کام نہیں ہے؛ البتہ جو فیصلے کیے جاتے ہیں وہ اس کے قلم سے جاری ہوتے ہیں۔ یہ نوکری وہ نہ کرے تو مفلس ہو جائے۔ حضرت عطاءؒ نے جواب میں سورہ قصص کی آیت نمبر 17 پڑھی اور فرمایا: ''تیرے بھائی کو چاہیے کہ اپنا قلم پھینک دے‘ رزق دینے والا اﷲ ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن‘ جلد سوم‘ صفحہ 623 تا 624)
قبطی کے قتل کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ ظلم کے کاموں میں معاون نہیں ہوں گے۔ اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ نعوذ باﷲ حضرت موسیٰ علیہ السلام پہلے ایسے کاموں میں بالفعل معاونت کرتے تھے بلکہ اصل مطلب یہ تھا کہ دربار شاہی کے مظالم میں وہ خود کو شریک سمجھنے لگے تھے اور آئندہ کے لیے آپ نے یہ تعلق منقطع کر لینے کی ٹھانی تھی۔ آپ شہر میں ڈرتے ڈرتے پھر رہے تھے کہ کہیں گزشتہ روز کے قتل کی وجہ سے آپ پکڑے نہ جائیں۔ اسی دوران آپ نے دیکھا کہ وہی اسرائیلی‘ جو کل ایک قبطی سے دست وگریباں تھا‘ آج ایک دوسرے قبطی کے ساتھ جھگڑ رہا ہے۔ اس نے دوبارہ آپ کو مدد کے لیے آواز دی۔ آپ اس کی مدد کو تو آگے بڑھے لیکن اسے بھی تنبیہ کی اور فرمایا: ''تو تو بڑا بہکا ہوا آدمی ہے‘‘۔ وہ شخص سمجھا شاید آج موسیٰ (علیہ السلام) مجھ پر ہاتھ اٹھائیں گے۔ اس نے پہلے ہی شور مچانا شروع کر دیا۔ ''موسیٰ (علیہ السلام) تو مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں جس طرح کل انہوں نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا...‘‘ اس کے اس واویلے سے گزشتہ روز کے قتل کی خبرعام پھیل گئی کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا ہے۔
فرعون اور اس کے درباری انگاروں پر لوٹنے لگے کہ نوجوان شہزادے نے جس کا اصلاً تعلق بنی اسرائیل سے ہے‘ ایک اسرائیلی کی حمایت میں حکمران قوم کے ایک فرد کو قتل کر ڈالا۔ انہوں نے آپس میں مشورے شروع کر دیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کر دیا جائے۔ یہ مشورے ہو ہی رہے تھے کہ ایک آدمی شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا اور اس نے نہایت رازداری اور ہمدردی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ ان کے قتل کے لیے عمائدینِ حکومت بہت بے تاب ہیں۔ پھر اس نے مشورہ دیا۔ ''فَاخْرُجْ اِنِّیْ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ‘‘ ''شہر سے نکل جایئے میں آپ کا خیرخواہ ہوں‘‘۔
حالات بڑے خطرناک تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پورے ملک میں کوئی جگہ بھی محفوظ نظر نہ آ رہی تھی۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ اس ملک کو خیرباد کہہ کر کہیں اور نکل جائیں۔ خدا کی زمین پر کوئی جگہ تو انہیں ایسی مل جائے گی جہاں وہ پناہ لے سکیں۔ یہ حالات تھے جب آپ ڈرتے ڈرتے شہر سے نکل کھڑے ہوئے اور اس وقت آپ نے اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی: رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (القصص: 61) ''اے میرے رب‘ مجھے ظالموں کی قوم سے نجات دے‘‘۔
اس دعا کے بعد آپ نے مدین کا رخ کیا اورکہا ''امید ہے کہ میرا ربّ مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا‘‘۔ یہ طویل اور کٹھن سفر آپ نے تن تنہا طے کیا اور مصر سے مدین جا پہنچے۔ خدا نے آپ کی دعا سن لی اور نہ صرف آپ کو ظالم قوم سے نجات دی بلکہ اس عظیم انقلاب کے لیے راہ ہموار کر دی جس کی بدولت چند سالوں تک تمام بنی اسرائیل کو ظالم قوم سے نجات ملنے والی تھی۔ ظالم اور ہٹ دھرم منکرینِ حق سے جب کسی بندۂ مومن کو واسطہ پڑ جائے تو اسے مندرجہ بالا دعا کرنی چاہیے۔ خلوصِ دل سے کی ہوئی دعا ظالموں کے ہتھکنڈوں اور سازشوں کے مقابلے پر اہلِ حق کو نجات بخش دے گی۔
جب آپ مدین پہنچے تو آپ نے پانی کا ایک کنواں دیکھا۔ وہاں لوگ اپنی بھیڑ بکریوں اور دیگر مویشیوں کو پانی پلا رہے تھے۔ دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو روکے کھڑی تھیں۔ بکریاں پیاس کے مارے پانی کی طرف دوڑتی تھیں مگر یہ ان کو روکتی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے پوچھا: ''تمہیں کیا پریشانی ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہم خود تو کنویں سے پانی نہیں نکال سکتیں اور ہمارے والد بہت عمر رسیدہ ہیں اس لیے جب یہ لوگ اپنے مویشیوں کو پانی پلا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو بچا کھچا پانی ہم اپنی بکریوں کو پلا لیتی ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ترس کھا کر ان کی بکریوں کے لیے کنویں سے پانی کھینچا اور انہیں پلایا۔ پھر آپ ایک درخت کے سائے میں جا کر بیٹھ گئے۔ غربت ومسافرت اور آٹھ دس دنوں سے بھوکے پیاسے! راستے میں شاید درختوں کے پھل پتے اور کوئی جڑی بوٹی ہی نصیب ہوئی ہوگی۔ کیا بے چارگی کا عالم تھا۔ اس وقت آپ نے یہ دعا مانگی: رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌo (القصص: 24) ''پروردگار‘ جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے‘ میں اس کا محتاج ہوں‘‘۔
یہ دعا مانگنے کے تھوڑی دیر بعد ان لڑکیوں میں سے ایک شرماتی ہوئی آپ کے پاس آئی اور کہا کہ ''چلیے میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ کو پانی پلانے کا اجر دیں‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ سخت ضرورت اور شدید اضطرار میں تھے اس لیے اس لڑکی کے ساتھ چل دیے۔ پھر انہوں نے اس کے گھر جا کر شیخ کو اپنی پوری بپتا سنائی۔ شیخ نے پوری داستان سن کر فرمایا: ''گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تو نے ظالموں سے نجات پا لی ہے‘‘۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور شیخ کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ آپ شیخ کی خدمت آٹھ سال تک کریں تو شیخ اپنی ایک لڑکی آپ کے عقد میں دے دے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام آٹھ سال پورے کرنے کے بعد دو سال اپنی مرضی سے شیخ کی خدمت کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ اپنے اہل و عیال کو لے کر مدین سے مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ اسی سفر میں آپ علیہ السلام کو منصبِ نبوت سے سرفراز کیا گیا۔
یہ شیخ مدین کون تھے؟ بعض لوگوں نے انہیں نبی حضرت شعیب علیہ السلام بتایا ہے۔ علامہ اقبالؒ کا یہ شعر بہت مشہور ہے ؎
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
حضرت شعیب علیہ السلام بلاشبہ مدین کے علاقے ہی میں معبوث ہوئے تھے لیکن قرآنِ مجید میں ان کے حالات وواقعات ان کے نام کے ساتھ تفصیلاً کئی جگہوں پر منقول ہوئے ہیں۔ اگر یہ حضرت شعیب علیہ السلام ہوتے تو ان کا نام لے کر بتایا جاتا۔ پھر حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں صدیوں کا فاصلہ ہے‘ لہٰذا غالب رائے یہی ہے کہ یہ حضرت شعیب علیہ السلام نہیں تھے۔ کچھ لوگوں نے ان کا نام رعوایل اور یتھرو بیان کیا ہے۔ بہرحال ان میں سے جوبھی نام تھا‘ شیخ کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دین ابراہیمی کے پیروکار تھے اور آپ کی زندگی خدا کی اطاعت کے لیے وقف تھی۔ حضرت حسن بصریؒ کے حوالے سے سیّد مودودی نے بتایا کہ شیخ مسلمان آدمی تھے جنہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کا دین قبول کر لیا تھا۔ وہ بت پرستی کے مخالف تھے۔ اس لیے اہلِ مدین ان کے مخالف ہو گئے تھے۔
انسان بے شمار حاجات کے لیے محتاج رہتا ہے۔ اسے مشکل وقت میں خدا تعالیٰ سے درج بالا قرآنی دعا کرنی چاہیے۔ سفر میں اور تنہائی میں جہاں کوئی جان پہچان والا نہ ہو‘ بسااوقات اس دعا نے (تجربۃً) بڑے خوشگوار نتائج پیدا کیے ہیں۔