اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں اُس میں ہر عمر کے افراد کے لیے حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ چند عشروں پہلے تک ایسا کچھ بھی نہیں تھا جسے پوری انسانیت کے لیے بہت بڑے بحران کے طور پر پیش کیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بہت کچھ ایجاد یا دریافت نہیں ہوا تھا تب بہت سے مشکلات بھی پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ فطری علوم و فنون میں پیشرفت نے ہمیں بہت سی سہولتیں دی ہیں مگر دوسری طرف بہت سی مشکلات سے بھی دوچار کیا ہے۔ آج کے انسان کو بہت سے معاملات میں اچھی خاصی سہولت بلکہ آسائش میسر ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ایسی الجھنیں بھی دامن گیر ہیں جن کے باعث زندگی کا توازن بگڑتا جارہا ہے۔
اب تعلیم ہی کو لیجیے‘ ڈھائی تین عشرے پہلے تک نچلی سطح پر بھی تعلیم آسان تھی اور بلند سطح پر بھی زیادہ پیچیدگیاں نہیں تھیں۔ نچلی سطح پر معاملات اس لیے آسان تھے کہ بچوں کے مزاج میں ٹیڑھ حد سے بڑھی ہوئی نہیں تھی۔ تب کے بچوں میں اگر سرکشی اور ہٹ دھرمی تھی بھی تو فطری نوعیت کی۔ آج مختلف برقی آلات کے استعمال کا عادی ہونے کے باعث بچوں کے ذہن اس قدر الجھ گئے ہیں کہ بالکل نچلی سطح پر بھی تعلیم انتہائی دشوار ہوگئی ہے۔ بچے انٹرنیٹ، گیمنگ، ٹِک ٹاک، وٹس ایپ اور دیگر بہت سی آن لائن علّتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ آن لائن کلچر زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہے مگر ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم آن لائن کلچر کے تقاضوں کو سمجھیں اور اُس سے بطریقِ احسن مستفید ہونے پر متوجہ ہوں۔ پاکستان میں بھی نچلی سطح پر تعلیم کا معاملہ آسان نہیں رہا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آج کے بچے بہت چھوٹی عمر سے ایسا بہت کچھ جان لیتے ہیں جو اُن کے لیے ضروری ہے نہ اُن سے متعلق ہے۔ سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ نے بچوں کو بہت چھوٹی عمر میں بہت بڑا بنا ڈالا ہے۔ اُن کے ذہنوں میں ایسا بہت کچھ بھرگیا ہے جو کام کی باتوں کو داخل ہی نہیں ہونے دے رہا۔ اس کے نتیجے میں اُن کی ذہنی نشو و نما کی فطری رفتار بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نئی نسل کے بنیادی مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے میں بنیادی تعلیم کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر اب بنیادی تعلیم کا معاملہ رُل کر رہ گیا ہے۔
گزشتہ برس وارد ہونے والی کورونا کی وبا نے جہاں اور بہت سے معاملات کو تلپٹ کر ڈالا ہے وہیں تعلیم کو بھی نہیں بخشا۔ سکولوں کی بندش کے نتیجے میں بچوں کو آن لائن پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے یہ نکتہ زور دے کر بیان کیا گیا کہ آن لائن پڑھنے سے بھی بچوں میں تعلّم کی کمی دور کی جاسکتی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں۔ سکولوں کی بندش اور نصاب کے گھٹادیے جانے سے جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اُن کے حوالے سے ہمارے ہاں سوچنے کی ابھی ابتدا بھی نہیں ہوئی۔ خطے کے ممالک نے بچوں کی تعلیم کے معاملات میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے بارے میں سوچنا اور تجزیے کے ذریعے اصلاحِ احوال پر متوجہ ہونا شروع کردیا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک میں کورونا کی وباء کے دوران سکولوں کی بندش کے منفی نتائج سے متعلق سروے کیے گئے ہیں۔ بھارت میں فاؤنڈیشنل لٹریسی اینڈ نیومرسی رپورٹ میں 12 کروڑ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے چونکا دینے والی باتیں سامنے آئی ہیں‘ مثلاً پانچویں جماعت کے 50 فیصد بچے دوسری جماعت کی کتاب پڑھنے کے قابل بھی نہیں رہے! پانچویں جماعت کے 75 فیصد اور ساتویں جماعت کے 76 فیصد بچے ریاضی کے سوالات میں منفی کرنا نہیں جانتے۔ دوسری جماعت کے 96 فیصد بچوں کو تقسیم کرنا نہیں آتا۔ ہریانہ میں ساتویں جماعت کے 63.2 فیصد اور پانچویں جماعت کے 50.9 فیصد بچے ہی تقسیم کرنا جانتے ہیں جبکہ جنوبی ریاست کیرالا میں یہ اعداد و شمار بالترتیب 51.8 فیصد اور 43.7 فیصد ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس لیے انتہائی پریشان کن ہیں کہ ابتدائی جماعتوں میں کمزور رہ جانے والے بچوں میں کمانے کی صلاحیت ہی کمزور نہیں پڑتی بلکہ قانون شکنی بھی پروان چڑھتی ہے۔ پندرہ سال کی مدت کے دوران لاکھوں بچوں کے معاملات کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ابتدائی جماعتوں میں تعلیم چھوڑ دینے یا سکول نہ جانے والے بچوں میں 18 سال کی عمر تک کسی واردات میں ملوث ہوکر گرفتار ہونے کا خدشہ 70 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ اسی مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چند جماعتیں کم پڑھنے سے کمانے کی صلاحیت میں 7 سے 10 فیصد تک کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ساتویں، آٹھویں جماعت تک پڑھ کر سکول سے نکل جانے والوں کی آمدنی بالعموم اُن بچوں سے کم رہتی ہے جو گیارہویں یا بارہویں تک پڑھ پاتے ہیں۔ بارہویں جماعت تک پڑھنے والے بچوں کی سالانہ آمدنی کم پڑھنے والے بچوں سے کم و بیش سوا لاکھ روپے زیادہ ہوتی ہے۔ مذکورہ فاؤنڈیشن کی رپورٹ چالیس پیمانوں کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جن میں گھر سے سکول کی دوری، سکول میں بجلی، بینچوں کی دستیابی، صفائی کی صورتِ حال، استاد کی دستیابی، معیاری عمارت، کھیل کا میدان، کتب خانہ، انٹرنیٹ، داخلوں اور چھوڑ جانے والوں کی شرح اور دیگر متعلق معاملات شامل ہیں۔ ملک کی بڑی ریاستوں میں بلند ترین شرحِ خواندگی رکھنے والے مغربی بنگال میں 40 میں سے 31 پیمانوں پر سکول کھرے نہیں اترتے۔ بہار، چھتیس گڑھ، دہلی، ہریانہ، جھاڑ کھنڈ، کیرالا، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، پنجاب، راجستھان، اتر پردیش اور اترا کھنڈ میں معاملات اتنے خراب ہیں کہ نئی نسل کی بہتر تربیت کے حوالے سے سکولوں پر بھروسا کیا ہی نہیں جاسکتا۔
سکولوں کی بندش اور آن لائن تعلیم کے پست معیار نے جو خرابیاں بھارت میں پیدا کی اُن کے آئینے میں ہم اپنا چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم و تربیت کا معاملہ ابتدائی جماعتوں ہی سے خرابی کی نذر رہا ہے۔ جب کورونا کی وبا نہیں تھی تب سرکاری سکولوں کا جو حال تھا‘ وہ کس پر عیاں نہیں؟ بچوں کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنا اصلاً تو والدین کی ذمہ داری ہے۔ سکولوں میں جو خرابیاں تھیں وہ ختم تو کیا ہوتیں‘ کم بھی نہ ہوئی تھیں کہ کورونا کی وبا نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ کم و بیش دو برس کے دوران پاکستان بھر میں تعلیم کا معاملہ انتہائی خرابی کا شکار رہا ہے۔ حکومتی سطح پر اب تک خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ سکولوں کی بندش کو کھیل بنالیا گیاہے۔ شاید یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اب ہمیں تعلیم کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی خرابیوں نے معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت کو بھی برباد کیا ہے۔
ہمارے ہاں آن لائن تعلیم کا تجربہ اب تک کامیاب نہیں رہا۔ بیشتر معاملات میں یہ دل محض دل بہلانے کی حد تک رہا ہے اور بچوں کو امتحانات کی تیاری میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ملٹی پل چوائسز والے سوالات یعنی انتخاب کی آزادی و سہولت دینے والے سوالوں نے بچوں کو پڑھائی کے معاملے میں خاصا سست بنادیا ہے۔ اب جب بچوں کو تمام پرچے عمومی انداز سے دینا ہوں گے تب اُن کے لیے خاصی مشکل ہو گی۔ محض دو پرچے دے کر میٹرک کرنے والوں کو آگے چل کر کس نوعیت کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘ اِس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی گئی۔
اب پھر کورونا کی تیسری لہر کا راگ الاپ کر تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ یہ تماشا اب بند ہونا چاہیے۔ کورونا کا ڈھول پیٹ کر پورے معاشرے اور معیشت کا تیا پانچا کرنے کی روش ترک کی جانی چاہیے۔ حکومت کی تان ٹوٹتی ہے تو تعلیم کے شعبے پر۔ جو شعبہ نئی نسل کو بہتر مستقبل کیلئے تیار کرنے کا ذمہ دار ہے اُسی پر قیامت ڈھانے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ حکومت کو یہ طے کرنا ہوگا کہ اب کچھ بھی ہو‘ تعلیم کا شعبہ کسی طور متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ پختہ عزم کے ساتھ بھرپور قوتِ عمل بھی ناگزیر ہے۔