تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-12-2021

کابل سے پشاور تک

اس خطے میں پچھلے چند ماہ میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کے اثرات اب سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
پہلے کابل میں طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا تو اب پشاور شہر کی میئرشپ اس جماعت کے پاس چلی گئی ہے جو طالبان کی کھلم کھلا حامی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کابل اور پشاور میں جس طرح تبدیلیاں آئی ہیں ان میں کیا فرق ہے اور ان کے دونوں ممالک پر کیا اثرات ہوں گے؟
فارن آفس میں صحافیوں اور اینکرز کو دی جانے والی بریفنگ میں شاہ محمود قریشی جس طرح افغانستان میں لوگوں کی بگڑتی حالت اور وہاں بھوک اور افلاس کی تصویر کشی کر رہے تھے اس سے میرے ذہن میں ایک ہی سوال ابھر رہا تھا کہ یہ ہم ہی تھے جنہیں سب سے زیادہ جلدی تھی کہ دنیا کے پچاس ممالک‘ جنہوں نے افغانستان کو سنبھالا ہوا تھا اور اس کی اکانومی اچھی بری چلا رہے تھے‘ فوری طور پر وہاں سے چلے جائیں اور افغانوں کو مرضی سے حکومت کرنے دیں۔ اب جب امریکن اور یورپین افغانستان کو افغانوں کے حوالے کر کے چلے گئے ہیں تو پتہ چلا ہے کہ نئے حکمرانوں سے افغانستان نہیں چل پا رہا اور ہم بھی بے چین ہیں اور چیخیں مار رہے ہیں۔ جو نقشہ شاہ محمود قریشی نے کھینچا اس سے واضح تھا کہ پہلے ہمیں وہاں سول وار اور خون خرابے سے ڈرایا گیا تھا‘ سول وار تو نہ ہوئی لیکن اس سے زیادہ خطرناک بات ہو رہی ہے کہ بھوک اور غربت نے وہاں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ افغانستاں میں ایک نیا انسانی بحران جنم لے رہا ہے جس کا براہ راست اثر پہلے پاکستان، ایران اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں پر پڑے گا اور پھر پوری دنیا اس سے متاثر ہو گی۔ مطلب یہ تھا کہ بہتر ہے افغان اپنے ملک کے اندر رہیں نہ کہ وہ خطے کے ممالک کا رخ کریں اور پھر وہاں سے یورپ یا امریکہ جانے کی کوشش کریں۔ بہتر راستہ یہی ہے کہ افغانوں کا ان کے ملک کے اندر ہی خیال رکھا جائے‘ اسی میں سب کی بہتری ہے۔
حالت یہ ہے کہ وہاں کھانے پینے کی سپلائی اور دیگر ضروریات زندگی کی شدید قلت ہے۔ اب طالبان کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیسے اس ریاست کو چلائیں۔ جس سے بیس سال جنگ لڑی اب اسی سے مدد کے خواہاں ہیں۔ جو افغانستان کا پڑھا لکھا یا ذہین طبقہ تھا وہ پہلے ہی ملک چھوڑ چکا ہے‘ جو بچ گئے ہیں وہ بھی چھوڑنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کے جانے کے بعد طالبان ہی بچیں گے جن کے پاس جنگ و جدل کا بیس سالہ تجربہ تو ہے لیکن حکومت چلانے کا نہیں اور وہ بھی کابل جیسے شہر پر جہاں ان بیس برسوں میں ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جس نے نیٹو اور امریکن فوج کے حمایت یافتہ افغان حکمرانوں کے تحت زندگی گزاری ہے۔ وہ نسل مختلف مزاج رکھتی ہے۔ اس نسل کا ایکسپوژر بہت مختلف ہے۔ وہ دنیا کو کسی اور آنکھ سے دیکھتی ہے۔
یہ عجیب داستان ہے کہ محکوم خود کو طالبان حکمرانوں سے زیادہ ذہین سمجھتے ہیں کیونکہ پہاڑوں سے اترے طالبان کو گورننس کا کوئی تجربہ نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب طالبان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیسے حکمرانی کریں۔ گوریلا جنگ لڑنا یا مارکیٹوں کو بموں سے اڑا کر عام لوگوں کو مارنے اور حکومت کر کے ذمہ داری نبھانے میں بڑا فرق ہے۔ امریکن اور نیٹو فوجیں اپنے ساتھ سینکڑوں کنٹریکٹرز بھی لے گئی ہیں جو وہاں افغان عوام اور نوجوانوں کو جاب دیے ہوئے تھے‘ اُس ملک میں ڈالر لا رہے تھے اور سب کچھ ان کے نزدیک ٹھیک چل رہا تھا۔ امریکہ کی ہی ذمہ داری تھی کہ وہ اس ملک کے عام شہریوں کو یہ احساس نہ ہونے دے کہ ان کی وجہ سے وہ بھوکے مررہے ہیں۔ اب ان کے جانے کے بعد جہاں کھانے پینے کی قلت ہے وہیں دیگر پابندیوں نے افغان عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ہمیں کابل پر طالبان حکومت قائم ہونے سے اس بات کی خوشی تھی کہ افغانستان میں قائم بھارتی کیمپوں سے نجات ملے گی اور مغربی سرحد محفوظ ہو جائے گی۔ مغربی سرحد کو محفوظ کرنے کے چکر میں پاکستان اور اس کی عوام نے بہت کچھ بھگتا ہے۔ جنگ ہم نے مشرق میں موجود دشمن کے خلاف لڑنی تھی لیکن مضبوط ہم مغربی بارڈر کرتے رہے اور آج تک کر رہے ہیں۔ تیس لاکھ افغان اب ہمارے شہری بن چکے ہیں۔ مزید آ رہے ہیں۔ ان کے لیے گندم‘ چینی اور دیگر کھانے پینے کے معاملات ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس سال دس ارب ڈالرز کے قریب گندم‘ چینی‘ دالیں اور کاٹن وغیرہ منگوائی گئی ہیں جن میں افغانستان کو بھی حصہ دیا گیا۔ ڈالرز کا ریٹ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ افغانستان کے حالات بھی ہیں‘ لیکن ہمیں کوئی پروا نہیں۔ ہم دھڑادھڑ افغانوں کو لا کر اسلام آباد بسا رہے ہیں۔ ابھی اسلام آباد میں ایک افغان نیشنل کو اسلام آباد پولیس نے پکڑا جو جان بچانے کے لیے پاکستان آیا تھا۔ اس نے ایک پاکستانی شہری پر حملہ کر کے اس کی ایف نائن پارک میں دونوں آنکھیں نکال دیں کہ مجھے اس شخص میں شیطان نظر آ رہا تھا۔ اگلے روز پھر وہ ڈنڈا لے کر پارک میں نیا شکار ڈھونڈ رہا تھا اور لڑکیوں کو تنگ کر رہا تھا کہ شکایت پر پولیس نے پکڑ لیا۔
یہ ابھی شروعات ہے۔ بڑی محنت کے بعد کابل میں ایک ایسی حکومت لائی گئی ہے جو پاکستان اور پاکستانیوں کو عزیز ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ دنیا اس حکومت کو تسلیم کرے اور اس کی مالی امداد بھی کرے‘ اگر یہ نہ کیا گیا تو پوری دنیا خطرے میں پڑ جائے گی۔ اب سوال وہی ہے کہ جن غیر ملکی فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے اب انہی سے مدد کے خواہاں ہیں۔ پاکستان پر الزام لگتا رہا ہے کہ ہم نے افغانستان میں لبرل‘ ماڈرن اور پڑھی لکھی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے پسماندہ قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان کے پڑھے لکھے طبقات پاکستان سے چڑتے ہیں۔ وہ پاکستان کو اپنے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کا بھارت کی طرف زیادہ جھکائو ہے۔ ہوسکتا ہے ہمیں لگتا ہو یہ سودا برا نہیں کہ کابل میں طالبان ہوں‘ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ افغان ہمارے بارے کیا خیالات رکھتے ہیں‘ ہمیں مغربی سرحد محفوظ چاہئے۔ سوال یہ ہے کیا اب سرحد محفوظ ہو گئی ہے یا ہم پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو گئے ہیں؟
کابل میں اگر طالبان آ گئے ہیں تو پشاور کے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں ایسی جماعت کو میئرشپ مل رہی ہے‘ جو طالبان کی سپورٹر رہی اور ویسا ہی نظام پاکستان میں چاہتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کابل سے پشاور تک ایک ہی سوچ ابھر رہی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں جب ایک پورا صوبہ اس کے پاس تھا تو بھی وہاں پائیدار امن کے قیام کی راہ نہ ہو سکی۔ اب ویسا ہی منظرنامہ دوبارہ بننے کے آثار ہیں۔ کابل میں طالبان اور پشاور میں طالبان کے حامی‘ لیکن ان دونوں شہروں کے شہریوں میں ایک بڑا فرق ہے۔ کابل کے لوگوں نے طالبان کو ووٹ دے کر اپنا حکمران نہیں بنایا بلکہ ان کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں جبکہ پشاور والوں نے باقاعدہ ووٹ دے کر حامیوں کو اپنا میئر بنایا ہے۔ ان بیس برسوں میں کابل والوں کی نئی نسل کو یہ سمجھ آئی طالبان ان کے لیے بہتر چوائس نہیں۔ وہ وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں جبکہ انہی بیس برسوں میں پشاور والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ طالبان نہ سہی طالبان کے حامی ہی سہی۔
یہ ہے دو شہروں اور ان کے شہریوں کے بیس برس کے سفر کی کہانی۔ اگے تسی خود سمجھدار او۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved