جاہل طبقات کی بات نہیں کررہا۔ بات ان کی ہے جو بہت پڑھے لکھے، بہت دانشور، بہت ذہین سمجھے جاتے ہیں۔ جو ہر لحاظ سے معاشرے کی اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں۔ استثنائی مثالیں تو ظاہر ہے ہوتی ہیں، اور یہاں تو بہت سی ہوں گی‘ لیکن مجموعی طور پر اس اشرافیہ کی ذہنیت کو ایک جملے میں بیان کیا جائے تووہ یہی ہوگا کہ ہم چو ما دیگرے نیست۔ مجھ جیسا تو کوئی اور ہے ہی نہیں۔ بھٹو صاحب جب 1977ء کی مخالفانہ تحریک اور پھر زوالِ اقتدار کی زد میں آئے تو انہی دنوں جناب احمد ندیم قاسمی نے یہ شعر کہا تھا؎
ہر ایک ڈوبنے والا یہ سوچتا ہے کہ میں
بھنور سے بچ کے نکلتا تو پار اتر جاتا
یہ شعر قاسمی صاحب نے یقینا اسی تناظر میں کہا تھا۔ نہ بھی کہا ہوتو مجھے اسی پس منظر میں محسوس ہوتا ہے‘ اور یہ کتنی بڑی حقیقت ہے کہ ہرحکمران کواس کا مزاج اوراس کے حواری اس کی کشتی کی مضبوطی اور پتوار پر اس کی گرفت کا یقین دلا کران گردابوں کی طرف لے جاتے ہیں‘ جہاں سے بچ نکلنا بس میں نہیں ہوتا۔ ڈوبتے ڈوبتے وہ سوچتا ضرور ہے کہ اس بھنور سے بچ کر گزرا جا سکتا تھا۔ اس سے گزرنا کوئی لازمی تو نہیں تھا۔ لیکن کیا کیا جائے، یہ بھنور ہرحکومت کا گویا مقدر ہوتا ہے۔
حقیقی مسائل کے ہوتے ہوئے غیرحقیقی مسائل ہرحکومت خود بنا لے تواس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ملک کو اضافی اور غیرضروری مسائل سے بچا کراصل مشکلات کی طرف رخ رکھا جائے لیکن ایسا ہوتو بات ہے نا۔ خواہ مخواہ غیرمتعلق معاملات خصوصاً مذہبی معاملات میں کود پڑنے کا المیہ صرف حکمرانوں کے ساتھ مخصوص نہیں تقریباً ہراس شخص کا ہے جسے زندگی اور معاشرے نے کسی بھی شعبے میں کوئی اعلیٰ عہدہ اورمقام دیا ہو۔ بیوروکریٹ، سیاستدان، وزیر، صنعتکار، تاجر، معروف کھلاڑی، مشہور ادیب غرضیکہ ہروہ شخص جو اونچی کرسی کا مزا چکھ چکا ہواس المیے کا شکار ہے‘ اور یہ بھی ایک المیہ ہے کہ خود کو ہرفن مولا سمجھنا‘ ہرشعبہ زندگی میں بے دھڑک تحکمانہ رائے دینا اور یہ سمجھناکہ بس اگراس بات کو سمجھا ہے تو میری ذات شریف نے۔ ایسا شخص اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوجائے توسوا ضرر رساں اور خطرناک ہوجاتا ہے اس لیے کہ اب اس کے ماتحت اس عذاب سے چھٹکارا پا چکے ہوتے ہیں؛ چنانچہ اس کی ایذا رسانی کا رخ عام آدمیوں کی طرف ہوجاتا ہے۔ ادھیڑ عمری میں مذہب کی طرف میلان ہوجانا بھی ہمارے معاشرے میں ایک عام رجحان ہے۔ ویسے تویہ خوش قسمتی کی بات ہے لیکن ہمارے معاملے میں بدقسمتی ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ جب جذبۂ ایمانی، کج فہمی اور حاکمانہ مزاج کے ساتھ ملتا ہے توکم بختی پڑھنے اور سننے والے ہی کی آتی ہے۔ یہ کم بختی اس وقت شامت میں بدل جاتی ہے اگر اس نے کچھ کچی پکی فارسی اردو مذہبی کتابیں بھی پڑھ لی ہوں۔ پھر تو وہ فقیہ بھی ہے، مفسر بھی اور مجتہد بھی۔
میں ان افسران کو جانتا ہوں جن کی نخوت، تکبر، رعونت اور بدمزاجی ان کے محکموں میں افسروں اور نچلے ملازمین میں مشہور و معروف تھی۔ کہا جاتا تھا کہ اگروہ آپ کو مصافحے کی عزت بخشیں اور انگلیوں کی صرف اگلی پوریں آپ کی انگلیوں سے مس کردیں تو اس پرناز کیجیے، یہ سعادت خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔ پرکشش تنخواہوں، قابل رشک اختیارات، غیر ملکی دوروں، سرکاری پلاٹوں کے حصول کے بعد جب ان کی کم و بیش چالیس سالہ ملازمت اختتام کو پہنچتی ہے اور وہ اپنے اعلیٰ عہدے کی توسیع یا کسی دیگراعلیٰ عہدے کے حصول میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ان کی طبیعت وعظ و نصیحت اور اصلاح معاشرہ کی طرف بے تحاشا مائل ہوتی ہے۔ وہ ہر شعبے میں بے محابا دخل دیتے ہیں‘ سوائے اپنے شعبے کے۔ وجہ وہی مزاج کہ ہم چو ما دیگرے نیست؛ تاہم اتنی سمجھ ان کو ہے کہ جو زہر افشانی ہو، کوئی تگڑا شخص یا طبقہ اس کی زد میں نہ آئے، جو برابر کا جواب دے سکتا ہو۔ مشتاق احمد یوسفی کا مزے کا جملہ ہے کہ چنیوٹی اور میمن پاگل بھی ہو جائے تو دوسرے کی پگڑی اتار کر اپنے گھر میں ہی پھینکتا ہے۔ سو زہرناکی اپنی جگہ اور یہ احتیاط اپنی جگہ کہ ہدف وہی ہونا چاہیے جو کمزور اور جواب دینے کے قابل نہ ہو‘ اور عام طور پر یہ زہرناکی مخصوص مذہبی طبقات کی طرف ہوتی ہے لیکن بچ بچا کے۔ ان کے بارے میں نہیں جن پر وار کر کے خود لہو لہان ہونے کا غالب اندیشہ ہو۔
مجھے وہ ریٹائرڈ افسر یاد آ گئے جوکسی محکمے کے ایک اعلیٰ عہدے سے طویل ملازمت کے بعد ریٹائر ہوئے تھے اور بطور ناشر مجھ سے اپنے تفسیری مسودے پر مشورے کے لیے تشریف لائے تھے۔ بیٹھتے ہی تحکمانہ لہجے میں بولے ''اس طرح کی تفسیر چودہ سو سال میں آج تک نہیں لکھی گئی۔ قرآن پاک کا مطلب کسی مولوی نے کبھی سمجھا ہی نہیں۔ یہ بالکل نئی قسم کی تفسیر ہے‘‘۔ میں ان کے لہجے اور جملوں کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مسودہ دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا: آپ نے عربی کہاں سے سیکھی؟ بولے مجھے تو عربی نہیں آتی۔ تو آپ نے قرآن مجید کیسے پڑھا؟ بولے: اردو ترجموں کی مدد سے۔ میں نے پوچھا: کون سے ترجمے؟ انہوں نے چند مترجمین کے نام لیے۔ میں نے کہا: یہ تو سب وہ مولوی ہیں جنہوں نے بقول آپ کے قرآن کا مطلب کبھی سمجھا ہی نہیں۔ پوچھا: آپ نے تفاسیر کون سی پڑھیں؟ انہوں نے چند نام بتائے۔ میں نے کہا: یہ بھی وہ مفسرین ہیں جنہوں نے چودہ سو سال میں آپ کے بقول درست تفسیر کی ہی نہیں۔ جو عربی کتب اردو یا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوئیں‘ آپ ان تک کیسے پہنچے؟ پتہ چلا کہ ان کے پاس ان تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔
میں نے بات کا رخ ان کے محکمے کی طرف موڑ دیا۔ پوچھا: آپ نے اپنے چالیس سالہ پیشہ ورانہ تجربات پر کوئی کتاب لکھی؟ کوئی مضمون لکھا؟ کوئی تجاویز پیش کیں؟ ان سب کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے کہا: گزشتہ چالیس سال میں آپ کا ادارہ ہر لحاظ سے زوال کا شکار ہوا ہے۔ آپ مسلسل اس کے اعلیٰ ترین عہدوں پر رہے ہیں۔ کیا آپ خود کو اس زوال کا کسی درجے میں ذمے دار سمجھتے ہیں؟ بولے: اکیلا آدمی کیا کر سکتا ہے۔ میں نے کہا: اکیلا آدمی اسی طرح کا کوئی کارنامہ کر سکتا ہے جیسا آپ نے 1400 سال بعد عربی نہ جانتے ہوئے ایک انقلابی تفسیر لکھ کر کیا ہے؟ میں نے اپنا طنز چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ مجھے افسوس تھا اس ذہنیت اور اس نااہلیت پر‘ اور میں ان کا ماتحت بھی نہیں تھا کہ ان کے رعب میں آؤں۔ جو بات میں ان سے نہیں کہہ سکا وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی اور تجربات پر کتاب اس لیے نہیں لکھی کہ اس سے معلوم ہو جاتا کہ وہ اس منصب کے لیے نااہل تھے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ کہنا تو صرف یہ تھا کہ اے موجودہ اور آئندہ حکمرانو! اے اعلیٰ مناصب پر فائز رہنے والے افسرو! اے تمام عمر مراعات کشید کر کے ریٹائر ہونے والے دانشورو! کیا یہ اچھا نہ ہو کہ آپ اسی باب میں لب کشائی کیا کریں جو آپ کا میدان ہو۔ جس شعبے میں آپ کا اختصاص ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ یہ پلے باندھ لیں کہ پڑھے لکھے ہونے کا مطلب ہرگز ہرگز ہرفن مولا ہونا نہیں ہے۔ قبرستان تو ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں ہر ایک کتبے پر ہمچو ما دیگرے نیست لکھا ہونا چاہیے تھا۔