پاکستان کی تاریخ میں کچھ ایسے بہادر سپوت بھی گزرے ہیں جو ایسے کارنامے رقم کرگئے جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ ان جوانوں نے اپنی جان اس زمین پر قربان کردی اور اپنا نام تاریخ میں امر کیا۔ 1971ء کی جنگ میں اگرچہ ملک دولخت ہوگیا تھا لیکن ہمارے جوان اس جنگ میں بھی بہت دلیرانہ لڑے اور دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔ جیسے ہم 1965ء کی جنگ کی بات کرتے ہیں‘ ویسے ہی ہمیں 1971ء کے واقعات پر بھی بات کرنا ہوگی‘ اپنے جوانوں کی بہادری کے کارناموں کو منظرِ عام پر لانا ہو گا۔ انہوں نے اپنی زندگی اس ملک و قوم پر وار دی مگر بدقسمتی سے نئی نسل اس سے آگاہ ہی نہیں۔ یہ امر افسوسناک ہے۔ ہمیں اپنے شہدا‘ غازیوں اور ہیروز کی زندگی کو ہائی لائٹ کرنا ہوگا۔
آج ایک ایسے ہی 31 سالہ جوان کا ذکر کریں گے جس نے اپنی زندگی اور جوانی اس ملک پر نچھاور کردی اور جس کا جسدِ خاکی آج تک نہیں مل سکا۔ یہ ایک تکلیف دہ امر ہوتا ہے‘ جب تک کسی شہید کا جسدِ خاکی نہ دیکھ لیا جائے‘ دل کو تسلی نہیں ہوتی اور ایک آس باقی رہتی ہے۔ اس شہید کی بیوہ بھی ساری زندگی انتظار کرتی رہی اور پھر اسی انتظار میں جہانِ فانی سے رخصت ہو گئی؛ تاہم اس شہید کا جسد خاکی نہیں مل سکا۔ ان کی بیٹی کو اپنے والد کے کارناموں پر فخر ہے اور یقینا پوری قوم کیلئے بھی وہ باعثِ فخر ہیں۔ میں ذکر کررہی ہوں پاک فضائیہ کے جانباز پائلٹ‘ ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈل کوٹ شہید (ستارۂ جرأت) کی جو وطنِ عزیز کی مسیحی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہیں دو بار ستارۂ جرأت ملا۔ یہ اعزاز قوم کے بہت کم بیٹوں کے اعزاز میں آیا ہے۔ وہ جرأت اور بہادری کی مثال تھے‘ ان کے کارنامے پڑھ کر اور تصاویر دیکھ کر آنکھیں بھر آتی ہیں۔
مڈل کوٹ خوبرو اور ویل گرومڈ جوان تھے‘ وہ لدھیانہ‘ برٹش انڈیا میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش ایک مسیحی گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے لاہور میں حاصل کی۔ کچھ عرصہ سینٹ انتھونی اور پھر آرمی برن ہال سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کر لی۔انہوں نے دو بار ستارۂ جرأت اور ستارۂ بسالت حاصل کیا۔ مڈل کوٹ نے 1954ء میں بطور فائٹر پائلٹ ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی۔ وہ سکواڈرن نمبر 9 سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے سکواڈرن نمبر 5میں بھی سرو کیا۔ وہ سولہویں جی ڈی پی کورس کا حصہ تھے۔ انہوں نے ایئرفورس کی اس فارمیشن میں بھی حصہ لیا جو ایرو بیٹکس کا حصہ تھی۔ 1965ء کی جنگ کے دوران انہوں نے بہت سے فضائی آپریشنز میں حصہ لیا۔ جب 1971ء کی جنگ شروع ہوئی تو وہ بیرونِ ملک تھے؛ تاہم فوری طور پر وطن لوٹ آئے اور جنگ میں حصہ لیا۔ ان کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو 1957ء میں انہوں نے جین سے شادی کی۔ ان دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت تھی۔ یہ جوڑا یئرفورس کا کافی مقبول اور ہر دلعزیز جوڑا تھا۔ دو سال بعد‘ 1959ء میں انہیں بیٹی کی نعمت ملی۔ لیسلی این مڈل کوٹ اس وقت کراچی میں سکونت رکھتی ہیں۔ مڈل کوٹ بہت ماہر پائلٹ تھے وہ ماڑی پور ایئر بیس پر تعینات تھے۔ وہ تربیت کیلئے امریکا بھی گئے اور ایف 104 طیاروں پر تربیت حاصل کی اور ان کو پاکستان لائے۔ 1965ء کی جنگ میں وہ فلائٹ لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی کرچکے تھے۔ اس وقت وہ سکواڈرن 9 کا حصہ تھے جس نے بھارت کو بھاری نقصان پہنچایا۔ ان کی بہادری اور خدمات کے عوض ان کو ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔ انہوں نے بھارت کے متعدد طیارے تباہ کیے۔ انہوں نے اس جنگ کے دوران 17 ایئر ڈیفنس سورٹیز اڑائیں۔ ایف 104 طیارے اس جنگ میں بہت متحرک تھے۔ ان کے 246 مشنز اڑے اور بھارت کو بھاری نقصان پہنچایا۔
اس کے بعد انہیں اردن ڈیپوٹیشن پر بھیجا گیا لیکن 1971ء کی جنگ کی خبر ملتے ہی وہ واپس پاکستان آگئے۔ اس وقت وہ ونگ کمانڈر کے عہدے پر ترقی کرچکے تھے۔ ان کو سکواڈرن نمبر 26 کی کمانڈ دی گئی جو پشاور ایئر بیس پر موجود تھی۔ امرتسر ریڈار آپریشن کی کمان ان کی سکواڈرن کو سونپی گئی جس نے جام نگر ایئر بیس کو تباہ کرنا تھا۔ انہوں نے کامیابی سے یہ آپریشن مکمل کیا۔ جس وقت وہ واپس لوٹ رہے تھے‘ ان کا ٹاکرا بھارتی مگ طیاروں کے ساتھ ہوا، ایک میزائل ان کے طیارہ پر لگا اور گلف آف کچھ کے قریب ان کا طیارہ کریش کرگیا؛ تاہم آج تک ان کا جسدِ خاکی نہیں مل سکا۔ ان کا جہاز سمندر میں گرا تھا، جہاز کا ملبہ بھی کبھی نہیں مل سکا۔ ان کی اہلیہ ان کی راہ دیکھتی رہیں لیکن ان کا کچھ نہیں پتا چل سکا۔ وہ اس امید سے بیس پر آتیں کہ شاید ان کے شوہر لوٹ آئے ہوں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہ انتظار کتنا تکلیف دہ رہا ہوگا شاید انکی آنجہانی بیوہ کے علاوہ کوئی نہیں بتاسکتا۔ میں اس انتظار‘ صبر اور وطن سے محبت کو لفظ کی لڑیوں میں نہیں پرو سکتی۔ اس خاندان کے صبر اور بہادری کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی حب الوطنی بھی ضرب المثال ہے۔ جین مڈل کوٹ نے پوری زندگی اپنے جیون ساتھی کے انتظار میں گزار دی اور بڑھاپے میں بھی ان کو ایک امید تھی شاید وہ زندہ ہوں‘ شاید وہ واپس آ جائیں مگر وہ واپس نہیں آئے۔ ان کی اہلیہ نے ہمیشہ ان کا کمرہ صاف رکھا‘ ان کے کپڑے استری رکھے کہ شاید وہ واپس آجائیں؛ تاہم ایسا نہیں ہوا۔ جنگ کے کچھ عرصہ بعد حکومت پاکستان نے مڈل کوٹ کو شہید قرار دے دیا اور پھر وہ انتظار درد اور صبر میں بدل گیا۔ جین مڈل کوٹ نے 2011ء میں وفات پائی۔ ہمارے شہدا کے لواحقین بہت صابر ہیں۔ ان کا صبر بے مثال ہے۔ روتے روتے مدت گزر جاتی ہے لیکن کبھی شکوہ کناں نہیں ہوتے اور اس ملک کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ غازی ایم ایم عالم کے علاوہ سکواڈرن لیڈر مڈل کوٹ بھی یہ اعزاز رکھتے ہیں کہ انہیں دو بارہ ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔ وہ وطن کی محبت سے سرشار تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں اس ملک سے بہت محبت کرتا ہوں‘ اس ملک کے پرچم کا سفید حصہ ہم ہیں۔ اپنی بیٹی کو وطن سے محبت اور عقیدت کے بارے میں بتاتے تھے۔
25 دسمبر کو مسیحی برادری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ ولادت مناتی ہے‘ اس لیے میں نے سوچا کہ پاکستانیوں کو کرسمس کے موقع پر ایک ایسے ہیرو کے بارے میں بتایا جائے جو مسیحی برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ مڈل کوٹ شہید خود تو اس وطن پر جان وار گئے‘ ان کی بیوہ اور بیٹی صبر کی مثال بنے رہے۔ ان کے خاندان کی قربانی پر پوری قوم نازاں ہیں۔ پاکستان کے پرچم میں سبز اور سفید رنگ ہیں۔ سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ اقلیتیں بھی اتنی ہی پاکستانی ہیں اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار جتنی اکثریت ہے۔ یہ ملک جتنا ہمارا ہے‘ اتنا ہی اقلیتوں کا بھی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی جنگوں میں پاکستان ایئر فورس کے عیسائی پائلٹس نے ملک کا بھرپور دفاع کیا۔ مادرِ وطن پر جان نچھاور کرنے والوں میں 60 کے قریب مسیحی افسران تھے جن میں سے ونگ کمانڈر میرون مڈل کوٹ ستارۂ جرأت، میجر سرمس تمغۂ بسالت، کیپٹن مائیکل ولسن اور لیفٹیننٹ ڈینیل عطارد قابلِ ذکر ہیں۔ ان تمام شہدا کی جرأت اور بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں تمغے دیے گئے۔
شہید مڈل کوٹ پر جتنا فخر کیا جائے‘ کم ہے۔ ہمیں نوجوان نسل کو اپنے شہدا کے کارناموں سے آگاہ کرنا ہوگا۔ یہاں پر جین مڈل کوٹ اور لیسلی مڈل کوٹ کا صبر بھی قابلِ دید ہے۔ ہمیں اپنے شہدا‘ غازیوں اور ان کے لواحقین پر ناز ہے۔ مڈل کوٹ نے 12دسمبر 1971ء کو جامِ شہادت نوش کیا اور سارا ملک ان کی بہادری پر نازاں ہے۔