تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     24-12-2021

افغانستان اور تمام انسان

اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ''القدوس‘‘ ہے۔ اس کا معنی تمام عیوب اور نقائص سے پاک اور بلند و بالا ہونا ہے۔ بارگاہِ قدوسی سے ختم المرسلین حضرت محمد کریمﷺ کے نام جو پیغام آئے‘ ان میں پہلا پیغام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو قرآنِ مجید کی صورت میں ہے۔ دوسرا پیغام یا الہام حضور نبی کریمﷺ کی حدیث شریف کی شکل میں ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا پیغام وہ الہام ہے جسے ''حدیثِ قدسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتے ہیں یعنی ہمارے حضور کریمﷺ اپنے رب کریم سے روایت فرماتے ہیں۔ جی ہاں! مشکل علمی اصطلاح کے بجائے ہم نے سادہ الفاظ میں ''قدسی حدیث‘‘ کا مفہوم اس لیے بتایا ہے کہ اب ہم ایسی ''قدسی حدیث‘‘ بیان کرنے جا رہے ہیں جس میں انسانوں کے باہمی تعلق پر اللہ تعالیٰ اس طرح پہرہ دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ احادیث مبارکہ میں اس جیسا انداز کہیں اور دکھائی نہیں دیتا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے بتایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھیں گے: اے آد م کے بیٹے! میں بیمار ہوگیا اور تو نے میری عیادت ہی نہیں کی؟ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں آپ کی عیادت کیسے کر سکتا تھا‘ آپ تو سارے جہانوں کی (ہر ضرورت پوری کرنے والے) رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہیں گے: کیا تیرے علم میں نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے‘ پھر بھی تونے اس کی بیمار پرسی نہیں کی‘ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرلیتا تو مجھے اس(بیمار) کے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے مجھے کھانا بھی نہ دیا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں آپ کو کھانا کیسے کھلاتا‘ آپ تو (کھانے کی ضرورت سے پاک) سارے جہانوں کے رب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہیں گے: تجھے معلوم نہیں کہ تم سے میرے بندے نے کھانا مانگا تھا مگر تم نے اسے کھانا نہ کھلایا‘ تجھے پتا نہ تھا کہ اگر تو اسے کھاناکھلا دیتا تو تم میرے سے اس کا بدلہ حاصل کرتے۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھے پانی بھی نہ پلایا۔ بندہ کہے گا: اے میرے پالنے والے! میں آپ کو کیسے پانی پلاتا۔ آپ تو سارے جہانوں کے رب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہیں گے: کیا تم نہ جانتے تھے کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پینے کو پانی مانگا تو تُو نے اسے پانی نہیں پلایا۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگرتو اسے پانی پلا دیتا تو اس کا اجرمجھ سے پاتا۔ (صحیح مسلم :2569)
اللہ رحمن کے بندے جو افغانستان میں بستے ہیں‘ ان کی تعداد چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک کی تعداد چھ ہے۔ پاکستان وہ پڑوسی ملک ہے کہ جس کی سرحد باقی ممالک‘ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، چین اور ایران سے زیادہ لمبی ہے۔ یوں افغانستان کا سب سے بڑا پڑوسی ملک پاکستان ہے۔ اس لحاظ سے بھی بڑا ہے کہ پاکستان کے چار صوبوں میں سے دو صوبے یعنی بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کی اکثریتی آبادی جو پشتو بولتی ہے‘ وہ لسانی اعتبار کے علاوہ افغانستان کے پشتون علاقے کے ساتھ زمینی طور پر بھی ملی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان گزشتہ چالیس سالوں سے افغانستان کے چالیس لاکھ کے قریب مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہا ہے۔
2021ء کا سال اب اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہو گیا ہے، اسی سال کے ماہِ اگست کی 15 تاریخ کو افغانستان غیر ملکی افواج کی موجودگی سے آزاد ہوا تھا اور وہاں طالبان کی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ دنیا نے اس حکومت کو قائم ہونے دیا۔ طالبان سے دوحہ میں مذاکرات کے نتائج یوں سامنے آئے کہ طالبان حکمران بن گئے۔ امریکہ اور ساری دنیا اب اس حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے مگر اس حکومت کو تسلیم نہیں کر رہی۔ اس کے فنڈز روکے ہوئے ہیں مگر دوسری طرف وہ افغانوں کی مالی امداد کی بات بھی کرتے ہیں۔ اس گومگو کی صورتحال میں افغان عوام کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہاں کی دو کروڑ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ ادویات کی کمی نے ہسپتالوں کو بے بس کردیا ہے۔ ایسے حالات میں پھر پاکستان آگے بڑھا ہے۔ جتنی مدد خود کر سکتا تھا‘ وہ فراہم کی۔ مزید کے لیے عالمِ اسلام اور دنیائے انسان کو آواز دی۔ اس آواز پر سعودی عرب نے لبیک کہا اور اسلامی دنیا کی مشترکہ آواز یعنی ''او آئی سی‘‘ میدان میں آئی۔ ساتھ ساتھ ''یو این او‘‘ یورپی یونین اور باقی بیشتر دنیا بھی مدد کے طریقے ڈھونڈنے اسلام آباد میں جمع ہوئی۔ یورپی یونین نے ایک ارب یورو دینے کی بات کی‘ سعودی عرب نے ایک ارب ریال دینے کی بات کی ہے۔ امریکہ اور ساری دنیا نے وعدے کیے ہیں۔ افغانوں کی مدد کے اس فنڈ کوہیومینیٹرین یعنی ''انسان فنڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ہمارے حضور رحمۃ للعالمین ہیں۔ حدیث قدسی میں آپﷺ کا پیغام ہے کہ مالی قوت رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ ''ابن آدم‘‘ کہہ کر مخاطب کریں گے یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے مومن بیٹے نے‘ حضور کریمﷺ کا کلمہ پڑھنے والے نے اولادِ آدم میں سے اُس اولاد کا خیال کیوں نہ کیا جو بیماریوں میں مبتلا تھی‘ جو بھوک کا شکار تھی‘ جو صاف پانی نہ پی سکی‘ گندا اور آلودہ پانی پی کر بیماریوں کا شکار بنتی رہی۔ لوگو! ہمارے حضور کریمﷺ پر جو قرآن پاک نازل ہوا اس نے جہاں مسیحی دنیا کی گمراہیوں اور خرابیوں کو بیان فرمایا ہے‘ وہیں ان لوگوں میں سے بعض کی خوبیوں سے بھی آگاہ فرمایا۔ بتایا ''جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کی‘ ہم نے ان لوگوں کے دلوں میں (انسانیت کے لیے) نرمی اور رحمت کو پیدا کر دیا‘‘ (الحدید:27)، قرآنِ مجید نے دوسرے مقام پر فرمایا ''اے مسلمانو! تم اپنے ساتھ محبت رکھنے میں (غیر مسلموں میں سے) سب سے زیادہ اپنے قریب ان لوگوں کو دیکھوگے جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان (مسیحیوں ) میں عبادت گزار علما اور زاہد لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ لوگ تکبر نہیں کرتے‘‘۔ (المائدہ :82) اللہ اللہ ! قرآنِ مجید نے جو حقیقت بیان فرمائی۔ ہم ساڑھے چودہ سو سال سے اسے دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ان کے متعصب لوگ جہاں ظلم کرتے ہیں‘ وہاں ان کے اچھے لوگ انسانیت کے ساتھ بھلائی بھی کرتے ہیں۔ ''او آئی سی‘‘ کے پلیٹ فارم سے 'انسان فنڈ‘ قائم کرنا قرآنِ مجید کے پیغام کی صداقت ہے۔
قرآنِ مجید کے بعد حدیث کی صحیح ترین کتاب امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی ''صحیح بخاری‘‘ ہے۔ اس میں حضرت امام بخاری نے ''کتاب الاطعمۃ‘‘ قائم کیا ہے؛ یعنی کھانا کھلانے کی کتاب۔ اس باب میں پہلی حدیث شریف یوں ہے کہ حضور کریمﷺ نے فرمایا ''بھوکے کو کھانا کھلائو۔ مریض کی عیادت کرو۔ قیدی کو رہائی دلوائو‘‘ (بخاری: 5373) یہ عام حکم ہے‘ ہر ایک کے لیے ہے۔ اس میں ہر انسان شامل ہے۔ لوگو! ہمارے پیارے رسولﷺ نے اپنا کلمہ پڑھنے والوں کو ایک ادب بتایاہے۔ فرمایا''کھانا مل کر کھائو‘ جدا جدا ہوکر نہ کھائو کیونکہ ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہے‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ للالبانی: 2691)
ہم اہلِ پاکستان کی تعداد 22 کروڑ سے زائدہے‘ اگر ہم ایک دن آدھا کھانا کھائیں اور آدھے کھانے کی رقم اپنے افغان بھائیوں، بہنوں اور بچوں بزرگوں کے لیے جمع کرلیں تو دو کروڑ ضرورت مند افغانی دس دن کھانا کھائیں گے۔ اگر ہم تین دن آدھا آدھا کھانا کھائیں تو افغانستان کے دو کروڑ لوگ پورا مہینہ کھانا کھا لیں گے۔ اگر ہم 36 دن یعنی ایک مہینہ اور چھ دن آدھا کھانا کھالیں تو دو کروڑ افغانی سارا سال کھانا کھالیں گے۔
افغانوں کی صفت ہے کہ وہ اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ گوشت کے شوربے میں روٹی بھگو کر کھاتے ہیں۔ اسے عربی میں ''ثرید‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضور کریمﷺ نے فرمایا ''ثرید میں برکت ہے‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ :1045)۔ اللہ کے رسولﷺ کو ثرید بہت پسند تھا۔ آپﷺ نے فرمایا ''تمام عورتوں پر عائشہ (ام المومنین) رضی اللہ عنہا کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے‘‘۔ (بخاری:5428) الحمدللہ! وطن عزیز پاکستان گزشتہ 40 سالوں سے اپنے افغان بھائیوں کو کھانا کھلا رہا ہے‘ اب ساری دنیا کو اسلام آباد میں بلا کر خدمت کی ترغیب دلا دی ہے۔ ایسے محبِ انسانیت ملک پاکستان کا اللہ حافظ ہے۔ کمزوروں کی پاسبانی سے ہی عزتیں ملتی ہیں۔ پاکستان زندہ باد!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved