تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     24-12-2021

بدلتا مشرقِ وسطیٰ

سعودی عرب کے کرائون پرنس محمد بن سلمان بہت عرصے سے خبروں میں ہیں۔ وہ بہت تیزی کے ساتھ اپنے ملک میں ایسی اصلاحات کر رہے ہیں جو دیگر عرب ممالک میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں پر بنیادی بات ماڈرن ہونے کی ہے۔ لفظ ماڈرن کا مطلب اپنے آپ کو حالات کے مطابق اَپ ڈیٹ کرنا ہوتا ہے۔ اس کی سادہ سی مثال کچھ یوں دی جا سکتی ہے کہ آج کے دور میں آپ کو کمپیوٹر کا بنیادی علم ہونا ضروری ہے۔ آپ کسی بھی فائل کو ڈائون لوڈ کر سکتے ہوں، کسی بھی فرد یا ادارے سے فون یا ای میل کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہوں، آن لائن کوئی چیز خرید سکتے ہوں اور اسی طرح کاکوئی اور کام بہ آسانی کرسکتے ہوں۔ اگر آپ یہ سب کر سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قدرے جدید فرد ہیں۔ اس کے لیے اب ''کمپیوٹر لٹریسی‘‘ کی اصطلاح بھی استعما ل ہوتی ہے۔ آج کے دور میں اپنے آپ کو اتنا ماڈرن یا جدید کرنا لازم ہو چکا ہے‘ بصورتِ دیگر آپ عملی زندگی سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ اسی تناظر میں اہم ترین بات کسی بھی معاشرے کی خواتین کو عملی زندگی میں برابر کا شریک کرنا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے اس معاشرے کی آدھی آبادی عملی زندگی سے خارج ہو جاتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ آدھی آبادی باقی آبادی پر انحصارکرتی ہے، جس سے معاشی پیداوار بھی کم ہو جاتی ہے۔ خواتین کا عملی زندگی میں شامل ہونا زیادہ ترمسلم ممالک میں ایک جدت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سعودی عرب اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ اب اس ملک میں خواتین کو گاڑی چلانے، سٹیڈیم میں جاکر میچ دیکھنے کی اجازت مل چکی ہے۔ اسی طرح پردہ کی حد کا تعین کرنا بھی خواتین کا ذاتی فیصلہ ہو گا۔
سعودی ولی عہد نے ایک انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اگلے پانچ سالوں میں سعودی عرب کو یورپ کے ہم پلہ علاقہ بنائیں گے۔ سب سے اہم بات جو انہوں نے دہرائی‘ وہ ایک اعتراف ہے۔ انہوں نے اقرار کیا کہ ان کا ملک مغرب کے کہنے پر مخصوص طرزِ فکر کو پھیلانے کیلئے مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ اس بات کا ذکر کئی سال پہلے ہلیری کلنٹن بھی کر چکی ہیں۔ اصل میں یہ سلسلہ 1979ء میں شروع ہوا تھا۔ اس سال دو اہم واقعات پاکستان کے پڑوس میں رونما ہوئے تھے۔ ایک تو روس لشکر کشی کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو گیا تھا جس کو روکنے کیلئے امریکی سربراہی میں پاکستان میں عسکری کلچر کو فروغ ملا اور پوری دنیا کے مسلم ممالک سے لوگ اس جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ دوسرا اہم واقعہ ایران میں آنے والاانقلاب تھاجس کے نتیجے میں مسلم دنیا میں موجود خلیج خاصی واضح ہو گئی تھی۔ روس اور امریکہ کی سرد جنگ تو نوے کی دہائی کے آغاز میں ختم ہو گئی تھی مگر مسلم دنیا کی نظریاتی تقسیم وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیا کرتی رہی۔ امریکہ اور اسرائیل نے کمال مہارت کے ساتھ اس جنگ کو پروان چڑھائے رکھا۔ سب سے پہلے عراق کے آمر صدام حسین کو استعمال کرتے ہوئے ایران پر بغیر کسی وجہ کے چڑھائی کروائی گئی جس میں دونوں ممالک کا خاصا نقصان ہوا۔ یہ وہی جنگ ہے جس میں عراق نے امریکہ کے فراہم کردہ کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا اور بعد ازاں انہی ہتھیاروں کے نام پر عراق پر حملہ کیاگیا اور اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔امریکہ کو عراق سے نکلے ایک دہائی سے زائد عرصہ ہو چلا ہے مگر تاحال اس جنگ کے بعد عراق اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا بلکہ داعش اور اس جیسی دوسری تنظیموں اور دہشت گردی کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہ بربادی کس طرح ایک منظم سازش کے ذریعے کی گئی‘ اس کا ثبوت اس جنگی سازش میں شامل امریکہ کے اعلیٰ ترین عہدیداران کے اعترافیہ بیانات ہیں جو کتابوں اور انٹرویوز کی شکل میں اب منظرِ عام پر موجود ہیں۔
اب بات واپس سعودی عرب کے ولی عہد کی‘ جن کی اجازت پر کچھ ایسی تقریبات گزشتہ دنوں سعودی عرب میں ہوئی ہیں جن کی وجہ سے ان پر تنقید بھی کی جا رہی ہے، ان تقریبات میں متعدد گلوکاروں کے کنسرٹس بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کی کچھ مزید فنونِ لطیفہ کی تقریبات ہیں۔ یہاں فیصلہ عرب قیادت کو ہی کرنا ہے کہ وہ اپنے ملک کو حقیقتاً جدید بناتے ہیں یا پھر ''مغربی معیار کا جدید‘‘۔ یاد رہے کہ ان دونوں میں فرق ہے۔ ان کے لیے بالترتیب ماڈرنائزیشن اور ویسٹرنائزیشن کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ویسٹرنائزیشن یا مغربی جدت معاشرتی ساخت میں ایک ایسی تبدیلی لائی جس نے بہت سے معاشروں کو خاصا نقصان پہنچایا‘ وہ اب بھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ یہ تبدیلی تھی مذہب اور خاندان سے دوری۔ جدید ہونے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ان دو سماجی اداروں سے دوری اختیار کی جائے، نام نہاد جدیدیت کے چکر میں شادی کی جگہ بلا روک ٹوک ملاپ کو فروغ دیا جائے، اسی طرح عام زندگی میں خواتین کی آزادی کے نام پر بے راہروی کو فروغ دیا جائے۔ اسی لیے اگر یورپ کے کسی ملک کو اپنا رول ماڈل بنانا ہے تو ان دو چیزوں کا خاص خیال رکھنا ضروری ہو گا لیکن جو چیز اپنانے کی ہے وہ ہو گی جدید تعلیم و تحقیق کا کلچر۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے کہ اگر عوام جدید تعلیم کو اپنائیں گے تو ایجادات ہوں گی جس سے نہ صرف اپنے دفاع اور بقا کی جنگ خود لڑی جاسکے گی بلکہ تیل کے بجائے آمدنی کے دیگر ذرائع بھی پیدا ہوں گے۔ اسی طرح کرپشن پر قابو پانے کیلئے اپنے جاری اقدامات کوبڑھانا ہو گا کیونکہ طرزِ حکومت چاہے کوئی بھی ہو‘ اگر انصاف اور تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہو تو ترقی نا گزیر ہو جاتی ہے۔ اس کیلئے مشرقِ وسطیٰ کو چین کی طرف بھی دیکھنا ہو گا۔ واضح رہے کہ چین بھی ماڈرنائزیشن کا قائل ہے مگر وہ مغربی جدت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے سماجی ڈھانچے کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
اب بات دوبارہ سعودی ولی عہد کے اس اعترافیہ بیان کی جو ایک مخصوص طرزِ فکر کی مدد کرنے اور مالی معاونت سے متعلق ہے۔ اب اس قسم کے بیان کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آئندہ اس قسم کی مالی خارجہ پالیسی کو ترک نہ سہی محدود ضرور کیا جائے گا۔ اسی تناظر میں یہ بھی امید وابستہ ہے کہ اپنے زیر اثر چلنے والے مدارس کے اندر ایسی اصلاحات بھی ضرور متعارف کروائی جائیں گی جن کے تحت مدارس کے لوگ جدت والی تعلیم کے قومی ہی نہیں بلکہ عالمی دھارے میں بھی شامل ہو سکیں گے۔ ان تعلیمی اداروں کے اندر کمپیوٹر لٹریسی کو لازم کیا جائے گا۔ ان میں زیر تعلیم طلبہ کو کھیلوں کی سرگرمیوں میں شریک کیا جائے گا اور کچھ نہ سہی‘ کم از کم کرکٹ اور فٹ بال کے بین المدارس ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایک وڈیو یاد آرہی ہے جس میں ایک مدرسے کے دو طلبہ نے روبوٹ بنانے اور چلانے کے مقابلے میں حصہ لیا تھا اور نمایاں پوزیشن حاصل کی تھی، اس کو بہت زیادہ سراہاگیا تھا۔ اسی طرز کے عالمی مقابلے سعودی عرب اپنے ہاں کروا کر مدارس کے امیج کو سافٹ ہی نہیں سالڈ بھی کر سکتا ہے۔
اب بات ایران کی‘ جس نے کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب سے تعلقات کو بہتر کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ ایران بھی اس بات کا بخوبی ادراک رکھتا ہے کہ مغربی طاقتیں مسلم ممالک کی نہ صرف خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ ان ممالک میں شدت پسندی، فرقہ واریت سمیت سماج متصادم نظریات کو فروغ دیتی ہیں تاکہ مسلم دنیا ان کی مرضی کی لگائی ہوئی آگ کا ایندھن بنتی رہے۔ اس سلسلے میں صرف امریکہ کی ہدایات، پالیسیوں اور کار گزاریوں کا شکار ہونے کے بجائے نئی عالمی طاقت چین کی طرف دیکھنا ہو گا۔ یہ یاد رکھنا ہو گا کہ جنگ چاہے گرم ہو یا سرد‘ جیت کسی کی نہیں ہوتی مگر نقصان لازم ہوتا ہے۔ دیگر مسلم ممالک کو بھی اس حوالے سے سوچنا اور آگے بڑھنا ہو گا تا کہ یمن اور شام میں جاری جنگی صورتحال کو قابو کیا جاسکے۔ رہی بات مشرقِ وسطیٰ کی جدیدت کی‘ تو دیکھنا ہو گا کہ یہ خطہ ویسٹرن ماڈرنائزیشن اور ماڈرنائزیشن کے مابین کیسے اور کتنا فرق رکھ پاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved