تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-12-2021

موٹاپے کا عذاب

ہم بہت سے معاملات میں انوکھے واقع ہوئے ہیں مگر ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ غریب کی جورو سب کی بھابھی کے مصداق ہماری مجبوریاں اتنی زیادہ ہیں کہ کبھی کبھی کوئی چھاپ نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں صحتِ عامہ کا عمومی معیار بہت حد تک افسوس ناک ہے۔ حکومت کو عوام کی صحت کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے جو کچھ کرنا چاہیے‘ وہ نہیں کیا جارہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف تو سنگین امراض کا دائرہ بہت تیزی سے وسیع ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف کئی عمومی معاملات بھی بیماری کی شکل اختیار کرکے ہماری مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ موٹاپے کا بھی کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں خاصی بڑی تعداد میں لوگ بے ہنگم نوعیت کی طرزِ زندگی کے ہاتھوں موٹاپے اور اس سے جڑی بیماریوں کے جال میں بُری طرح پھنس چکے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں زیادہ وزن والے بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کا چلن اس قدر عام ہوچکا ہے کہ عام آدمی کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ وہ صحت کے معاملے میں کس حد تک اپنے ہی وجود کو شدید نقصان سے دوچار کر رہا ہے۔
ایک طرف زیادہ وزن والے بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف صحتِ عامہ کا معیار بلند ہونے سے اوسط عمر بڑھی ہے اور یوں پختہ اور ڈھلی ہوئی عمر والے افراد کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سکول جانے کی عمر والے بچوں میں موٹاپا اس قدر عام ہے کہ اب بہت سی حکومتیں اس طرف متوجہ ہوئی ہیں اور عوام پر زور دے رہی ہیں کہ وہ بچوں کا وزن کم گھٹاکر اُنہیں موٹاپے کا شکار ہونے سے بچائیں۔ ایک عشرے کے دوران ترقی یافتہ مغربی ممالک میں پیدائشی طور پر زیادہ وزن والے افراد کی تعداد میں کم و بیش 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اوور ویٹ بچوں کی پیدائش کا ایک بنیادی سبب خراب خوراک ہے۔ ماں بننے والی لڑکیاں چھوٹی عمر ہی سے فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کھاتی آرہی ہیں جس کے نتیجے میں اُن کی صحت کا معیار گر رہا ہے اور موٹاپے کی شرح بڑھ گئی ہے۔ دنیا بھر میں فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹس کی تعداد میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سڑکوں پر اور چھوٹی دکانوں میں بھی فاسٹ فوڈ آسانی سے دستیاب ہے۔ یوں لوگ فاسٹ فوڈ کے جال میں تیزی اور آسانی سے پھنستے جارہے ہیں۔ یہ بات اب مختلف تجزیوں سے ثابت ہوچکی ہے کہ فاسٹ فوڈ جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ برگر، نگٹس، پیزا، سینڈوچ، مایونیز، کیچ اَپ، سوس وغیرہ میں لذت تو بہت ہوتی ہے مگر غذائیت برائے نام ہوتی ہے اور بعض اشیا میں غذائیت کا تناسب اتنا کم ہوتا ہے کہ اُنہیں کھانے سے صرف نقصان پہنچتا ہے۔
فاسٹ فوڈ سے متعلق بیشتر اشتہارات بچوں کو ذہن نشین رکھ کر یعنی اُنہیں نشانے پر لیتے ہوئے تیار کیے جاتے ہیں۔ اِن اشتہارات میں انہیں اس قدر پُرکشش انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ بچے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی فرمائشیں بھی کرنے لگتے ہیں۔ چپس، چاکلیٹس اور ایسی ہی دوسری بہت سی چیزیں کھانے سے بچوں کا پیٹ نہیں بھرتا کیونکہ یہ اشیا پیٹ کے لیے نہیں ہوتیں۔ یہ تو صرف چٹخارے کی چیزیں ہیں۔ زبان مانگتی ہے مگر پیٹ قبول نہیں کرتا۔ اس کے نتیجے میں ہاضمہ خراب رہتا ہے۔ فنگر چپس اور ایسی ہی دوسری بہت سی اشیا بچوں کو حقیقی غذائیت بخش خوراک کی طرف متوجہ ہونے سے روکتی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ بچے جب فاسٹ فوڈ کے عادی ہو جاتے ہیں تو باہر ہی نہیں‘ گھر میں بھی فاسٹ فوڈ ہی تیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ہلکی پھلکی اشیا کیچ اپ اور سوسز کے ساتھ کھانے کی عادت پڑ جائے تو مشکل ہی سے چھوٹتی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ فاسٹ فوڈ کے طور پر استعمال کی جانے والی بیشتر اشیا ''پروسیسڈ‘‘ ہوتی ہیں یعنی اُنہیں کھانے کے قابل بنانے کے لیے مشینی عمل سے گزارا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران کیمیکلز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مختلف اشیا کو تیزی سے پکانے کے لیے کیمیکلز والے مسالے لگاکر رکھا جاتا ہے۔ پانچ سے دس منٹ میں تیار ہونے والی بیشتر اشیا مصنوعی طریقے سے اُس مقام تک لائی جاتی ہیں جہاں اُنہیں جلدی سے پکایا جاسکے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسی اشیا ہمارے جسم سے کیا سلوک کرتی روا رکھتی ہوں گی۔ بچوں کی صحت کا خیال رکھنا اصلاً تو والدین کی ذمہ داری ہے۔ خواتین کو گھر کے تمام افراد کے لیے کھانا تیار کرنا ہوتا ہے مگر بچوں کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ اُن کے جسم کی ضرورتیں بھی مختلف ہیں۔ آج بیشتر ماؤں کا یہ حال ہے کہ زیادہ محنت سے بچنے کے لیے ready to cook قسم کی اشیا بروئے کار لانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ وہ اپنا وقت اور توانائی دونوں بچانا چاہتی ہیں مگر ایسا کرنے سے بچوں کو جو نقصان پہنچ سکتا ہے اُس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔
فاسٹ اور جنک فوڈ کھاتے رہنے سے پیدا ہونے والا موٹاپا بچوں کو سست بنا دیتا ہے، اُنہیں بہت سے عوارض لاحق ہو جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنی بیشتر سرگرمیوں میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے پاتے۔ موٹاپا ذہن پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ آج دنیا بھر میں اس حوالے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فاسٹ اور جنک فوڈ کی روک تھام میں مرکزی کردار حکومتوں ہی کو ادا کرنا ہے۔ فاسٹ فوڈ میں استعمال ہونے والی اشیا کے حوالے سے لاپروائی یا بے نیازی پر مبنی رویہ پروان چڑھانے کے بجائے اِن اشیا کو نئی نسل کے لیے خطرہ قرار دے کر اِن کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے غیر معیاری اور اشیائے خور و نوش سے مجتنب رہنے کی تحریک دی جائے۔ اگر ایسا کرنے سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو رہے ہوں تو فاسٹ فوڈ کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیا پر ٹیکس بڑھاکر بھی لوگوں کو اِن سے دور رکھنے کی اچھی کوشش کی جاسکتی ہے۔ حکومتیں ایسے ہر ریستوران کی حوصلہ افزائی کرسکتی ہیں جہاں معیاری کھانے پیش کیے جاتے ہوں۔ جاپان میں حکومت نے فاسٹ فوڈ چینز پر غیر معمولی ٹیکس لگائے اور ایسے ہر ریستوران کو ٹیکس میں واضح رعایت دی جو ماہرین کی آرا کے مطابق معیاری اور غذائیت بخش اشیائے خور و نوش پیش کرتے ہیں۔ اس حکومتی اقدام سے جاپان میں بچوں کا موٹاپا روکنے میں خاطر خواہ مدد ملی ہے۔
والدین بھی بچوں کو گھر میں تیار کی جانے والی اشیا کھانے کی تحریک دیں۔ گھر میں تیار کی جانے والی اشیائے خور و نوش بالعموم غذائیت بخش ہوتی ہیں۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ باہر کی چیزیں کھانے سے دنیا بھر کے بچوں میں ذیابیطس بھی تیزی سے پھیلی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے کا بالکل واضح مطلب یہ ہے کہ بچوں کو آگے چل کر زندہ رہنے کے لیے انسولین پر انحصار کرنا پڑے گا۔ زیادہ وزن والے بچے بالعموم سست ہوتے ہیں۔ اُنہیں سکول یا محلے میں چھیڑ چھاڑ اور غنڈہ گردی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُن کا ذہن الجھتا ہے اور عزتِ نفس کا معاملہ بھی سنگین شکل اختیار کرتا ہے۔
یہ حقیقت اب بالکل واضح ہے کہ بچے مختلف عوامل کے باعث موٹاپے کا شکار ہیں۔ اور موٹاپے کے منفی اثرات بھی مختلف النوع ہیں۔ فی زمانہ آن لائن کلچر نے بھی بچوں کو موٹاپے کے گڑھے میں دھکیلا ہے۔ بچوں کی نقل و حرکت برائے نام رہ گئی ہے۔ وہ میدانوں کا رخ نہیں کرتے۔ بند کمروں میں گیمنگ کے مزے لُوٹنے سے اُن کا جسم بے ہنگم سا ہوتا جاتا ہے۔ بچوں کا موٹاپا اب کم و بیش ہر ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے اس لیے حکومتوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موزوں اقدامات کرنا چاہئیں۔ ہر ملک کی وزارتِ صحت کو میڈیا سے بھرپور مدد لینی چاہیے۔ والدین کو یہ تحریک دینے کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کا مستقبل تابناک بنانے کے لیے اُن کی عمومی صحت پر خاص توجہ دیں اور موٹاپے کی راہ مسدود کرنے پر زیادہ متوجہ ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved