تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     25-12-2021

سی پیک کو کون نقصان پہنچا رہا ہے؟

ایسا لگتا ہے کہ سی پیک کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے۔ مرکزی دھارے کے میڈیا کے ایک حصے نے کھلے عام پاکستان کی بیوروکریسی کے بیانیے کا پرچار شروع کر دیا ہے، یعنی قرضوں میں غیر صحت مندانہ اضافہ‘ بھیک مانگنے کی ذہنیت، اور کسی بھی معاملے میں فوری کارروائی سے گریز۔ اندرونی مسائل کو حل کرنے کے بجائے حالات کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری اکثر اس شکل میں پیش کی جاتی ہے کہ چینیوں کو کیا کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے اور یہ کہ عصری جغرافیائی سیاست کے تحت سیاق و سباق کے منتر کی طرف جھکائو ہونا چاہیے۔
کیا سی پیک کو قومی اور بیرونی نقصان دہ اثرات کا سامنا ہے؟ کیا پاک چین دوستی اس ہنگامہ خیز صورتحال سے محفوظ رہ سکے گی؟ جب یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس غیر متناسب صورتحال کی ذمہ داری کہاں عائد ہوتی ہے، اسلام آباد پر یا بیجنگ پر‘ تو یہ سوالات کچھ خود بینی کا تقاضا کرتے ہیں۔
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ سی پیک کا پہلا مرحلہ 2016 سے اب تک کم از کم 25 بلین ڈالر کی لاگت سے تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین خالد منصور دوسرے مرحلے کے زیادہ جامع ہونے کا وعدہ کرتے ہیں‘ لیکن اگر جاری مالیاتی رکاوٹوں اور عمل درآمد میں تاخیر کے چیلنجوں‘ جو بظاہر پاکستان کی جانب سے محسوس ہوتے ہیں‘ کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یہ وعدہ ماند پڑتا محسوس ہوتا ہے۔
اگر اندرونی معاملات کوئی اشارہ ہوتے ہیں تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ سی پیک کے 90 فیصد سے زیادہ منصوبے (سڑک، بجلی کی پیداوار یا ترسیل، ماس ٹرانزٹ، گوادر پورٹ) یا تو مکمل ہو چکے ہیں یا تکمیل کے قریب ہیں لیکن زیادہ تر کو متعدد مالی اور انتظامی رکاوٹوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے عمل درآمد سست ہو گیا ہے۔
گوادر کے احتجاج نے ان چیلنجوں کی صرف ایک جھلک دکھائی ہے‘ لیکن پریشانی اس سے کہیں زیادہ اور گہری ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پائیدار نگرانی اور کنٹرولنگ گورننس سسٹم کی عدم موجودگی یا اس کے نفاذ نہ ہونا ہے۔ غیرملکی قرضوں کی عادی بیوروکریٹک مشینری اپنی روش سے گریز پر تیار نہیں‘ اور ناقص کارکردگی اور سست روی کے باوجود مزید چھوٹ اور گرانٹس کی توقع رکھتی ہے۔ اس لیے اس کا مشورہ یا مزید قرضوں کا حصول ایک ہمیشہ سے بھوکے، بدعنوان اور مفلوج نظام کو فیڈنگ جاری رکھنے پر مبنی ہے۔
واضح طور پر یہ صورتحال سرمایہ کاروں کو الجھن میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اگر انہوں نے پاور سیکٹر کے مسائل کے بارے میں توثیق چاہی اور جس شعبے میں ان کی دلچسپی ہو‘ اس کے بارے میں احتیاط سے کام لینے پر زور دیا تو انہیں کیا جواب ملے گا؟ پاکستان ان کا اعتماد کیسے بحال کرے گا؟
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ارد گرد موجود افراد سرمایہ کاروں کو خصوصی اقتصادی صنعتی زونز میں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان آنے اور تعاون کے نئے شعبوں‘ یعنی سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت، سیاحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ پر توجہ دینے کی پیشکش کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں چینی سفیر اور تاجروں سے بھی ملاقات کی اور متعلقہ محکموں کو ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ہدایت کی‘ لیکن ان کے ماتحت- مشیر اور بیوروکریسی جو دراصل پالیسیاں چلاتے ہیں- مختلف انداز میں سوچتے ہیں اور انہوں نے اس کے بجائے ایک ایسی پالیسی اپنا رکھی ہے‘ جو چینی سرمایہ کاروں کو پہلے سے منظور شدہ اور زیر تکمیل منصوبوں پر، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں‘ نظر ثانی پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ دیگر بنیادی چیزیں جو ترقی کو روکتی ہیں اور بڑی رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں درج ذیل ہیں:
1 ۔ منظور شدہ پالیسیوں کے نفاذ میں عدم مطابقت
2۔ دستخط شدہ معاہدوں کی شرائط کی پابندی کرنے سے انکار
3۔ قواعد کی مختلف تشریح
4۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کے مختلف حکام کی جانب سے فوری رد عمل کا فقدان
مثال کے طور پر، رشکاکائی سپیشل اکنامک زون میں ایک بڑی سٹیل فرم ایک سال سے زیادہ عرصے سے ماحولیات کے حوالے سے این او سی کے ساتھ ساتھ بجلی کے کنکشن کی منتظر ہے‘ اور اس انتظار کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔ یہ کوئی تھوڑا عرصہ نہیں ہے۔
720 میگا واٹ کے کروٹ (Karot) ہائیڈرو پاور پلانٹ کو صوبائی سروسز ٹیکس کا متضاد تناسب دیا گیا تھا، اور 700 میگاواٹ کا آزاد پتن (Azad Pattan) ہائیڈرو پاور پلانٹ دو سال سے پنجاب حکومت کی جانب سے سٹے آرڈر کی قانونی چارہ جوئی کا سامنا کر رہا ہے۔
وفاقی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور کابینہ نے باہمی طور پر پاکستان کے پہلے 660KV HVDC مٹیاری- لاہور ٹرانسمیشن لائن منصوبے کے کمرشل آپریشن کی تاریخ (COD) میں 31 مارچ 2021 سے یکم ستمبر 2021 تک ریگولیٹر (نیپرا) کو شامل کیے بغیر توسیع کر دی ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ کمپنی کو اب نیپرا، نیشنل ٹرانسمیشن ڈسپیچ کمپنی (NTDC) اور سنٹرل پاور پرچیز ایجنسی‘ گارنٹی (CPPA-G)‘ سے طے شدہ پری COD ٹیرف میں ہم آہنگی کے حوالے سے پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔
یہ درجنوں مثالوں میں سے چند ایک ہیں۔ توانائی کے منصوبے کے حوالے سے طے شدہ ری والونگ اکائونٹ... ایک فنڈ جو کل توانائی کی فنڈنگ کے تقریباً 22 فیصد کے برابر سمجھا جاتا ہے... ابھی تک نہیں کھولا گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس وعدے کی تکمیل میں کیا امر مانع ہے۔
اس سارے سیاق و سباق... جس کی جڑیں بیوروکریسی کی چین مخالف ذہنیت کے ساتھ ساتھ تیز رفتار عمل درآمد اور فوری نوعیت کے حامل ٹاسک پر تیز رفتار رد عمل ظاہر کرنے میں تامل جیسے عوامل میں پیوست ہیں... نے چینی انشورنس کمپنی SINORSURE کو سی پیک منصوبوں کے لیے مزید مالیات کو کم کرنے کا باعث بنا دیا ہے۔ پچھلی متفقہ ادائیگیاں سسٹم میں پھنسی ہوئی ہوں تو وہ مزید فراہمی کیوں کریں گے؟
واضح طور پر یہ ہائی سٹیکس صرف چین کی طرف مائل وزیر اعظم کے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے پاکستان کے لیے ہیں۔ اس سب کا خالص نتیجہ سی پیک منصوبوں کا جزوی طور پر رک جانا یا سست روی کا شکار ہو جانا اور ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی ہو سکتا ہے۔ چینی قرض دہندگان نے تازہ ادائیگیاں روک لی ہیں جبکہ طویل مدتی تناظر میں عالمی سطح پر سبکی پاکستان کے حصے میں آئے گی، اس کی معیشت کو ناقابلِ حساب نقصان پہنچے گا‘ اس لیے کہ بیوروکریسی متفق اور متحد ہو کر کام نہیں کر رہی ہے۔
یہ سارا معاملہ واضح کرتا ہے کہ قصور اسلام آباد کا ہے‘ بیجنگ کا نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو ان مخفی مذموم مقاصد کے سدباب کے لیے اپنی کوششوں کو دگنا کرنا ہو گا جو سی پیک منصوبوں میں رکاوٹیں ڈالنے، تعطل اور تاخیر کا باعث ہیں۔ انہیں متعلقہ وزارت اور حکام سے کچھ سیدھے سوالات پوچھنا ہوں گے۔ ایسا پرائیویٹ سیکٹر کے ٹیکنوکریٹس اور سسٹم کے کام کرنے کے بارے میں علم رکھنے والوں سے بات کرنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ چینی سرمایہ کاروں کو ریاستی گارنٹی شدہ معاہدوں کی موجودگی میں ٹیرف پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرنے کا یہ ایک غیر مہذب طریقہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved