خیبر پختونخوا کے34 میں سے 17 اضلاع میں منعقد کرائے جانے والے بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی غیر معمولی برتری بادی النظر میں اُس مزاحمتی سیاست کی پذیرائی کا پیغام دیتی ہے جو ملکی نظام کی حرکیات کو بدلنے کا محرک بن رہی ہے۔امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ہماری 74سالہ تاریخ میں پہلی بار قومی سیاست کے دو سرکردہ رہنماؤں نے بڑی بے باکی کے ساتھ مقتدرہ کے ارادے سے ٹکرانے کی جسارت کرکے قومی سیاست کے پورے تناظر کو تبدیل کر دیا۔یہی مزاحمتی رویے شاید ہمیں کنٹرول ڈیموکریسی کی بجائے ایسے صحت مند جمہوری عمل کے حوالے کریں جو ہمارے سیاسی تمدن میں جامع اصلاحات کا وسیلہ بن جائیں۔عرب کہتے ہیں‘مزاحمت کی فطرت سے پرانی دوستی ہے جو ہر حال میں آشفتہ سر انسانوں کو ایک قسم کی باغیانہ مسرت سے سرشار رکھتی ہے۔بہرحال‘اس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ کسی نہ کسی دن تو پانسہ ضرور پلٹنا تھا‘چلو اچھا ہوا حساس مغربی سرحدات پہ تیزی سے بڑھتے ہوئے سیاسی خلا کو جے یو آئی ایف جیسی مرکز مائل جماعت نے پُرکرکے ہمارے قومی وجود کو زیادہ مربوط بنا دیا۔افغانستان میں امریکی شکست کے بعد عالمی نظام میں پڑنے والی دراڑوں کی بدولت یہاں کے سیاسی بندوبست میں ٹوٹ پھوٹ کا امکان یقینی تھا۔شاید اسی خدشہ کے پیش نظرپی ٹی آئی کی صورت میں دائیں بازو کی ایسی پولیٹکل فورس کی تشکیل کو ممکن بنایا گیا جو پیراڈائم شفٹ کے اس نازک مرحلہ پہ ریاست کیلئے قابل حصول مقاصد کی آبیاری کر سکے‘ لیکن افسوس کہ حکمران جماعت نے اپنی ناتجربہ کاری اور جنونِ استردادکے باعث عوامی احساسات اور طاقت کے مراکز کے درمیان توازن کو بگاڑ دیا‘جس کے نتیجہ میں ایسے مہلک مزاحمتی بیانیہ کا جنم ہوا جسے اگر بروقت ریگولیٹ نہ کیا گیا تو قومی سلامتی خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کر لینے میں کوئی باک نہیںکہ تمام تر ترغیبات اور احتسابی کوڑے کے بے رحمانہ استعمال کے باوجودگزشتہ ساڑھے تین سالوں میں میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی گورنمنٹ کے خلاف جس شرح صدر کے ساتھ مزاحمتی بیانیہ استوار کیا‘اسے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بے حد مقبولیت ملی۔اسی جاں گسل جدوجہدکے ذریعے مولانا فضل الرحمن اور میاں نوازشریف نے نہ صرف اپنے کارکنوں کو شکست کے آشوب سے نکالا بلکہ اپنی جماعتوں کی سیاسی قوت کو مجتمع رکھنے میں بھی کامیابی پائی۔اگر وہ مزاحمتی راستہ اختیار نہ کرتے تو اب تک اُن کی جماعتیں وقت کی دھند میں گم ہو چکی ہوتیں۔بلاشبہ اسی مزاحمتی رجحان کی بدولت ہی پنجاب میں ہونے والے کم و بیش اٹھارہ ضمنی انتخابات میں نواز لیگ کو فتح ملی اور خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں جے یو آئی کی جیت بھی اُسی کشمکش ضدین کا شاخسانہ دیکھائی دیتی ہے ۔حیران کن امر یہ ہے کہ عالم گیر سیاسی سوچ کی حامل جے یو آئی اپنے نظریاتی اصولوںکی بدولت کبھی بھی گراس روٹ لیول کی پاور پالیٹکس کا حصہ نہیں بنی بلکہ جمعیت کی مرکزی قیادت کو نچلی سطح کے جمہوری عمل میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی‘اب بھی مولانا فضل الرحمن بذات خود اور ان کی جماعت کے کئی سرکردہ رہنما بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ پہ اصرار کرتے رہے‘ لیکن پارٹی کی مجلس شوری و عاملہ کی اکثریت لوکل کونسلوں کے انتخابات میں پی ٹی آئی کیلئے میدان خالی چھوڑنے کو تیار نہیں تھی۔ اس لئے نیم دلی کے ساتھ مولانا صاحب نے انہیں بلدیاتی الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے کی اجازت دی‘ تاہم اب اسی مثبت سرگرمی نے جے یو آئی ایف کے گراس روٹ لیول تک پہنچے ہوئے اثرات کو نمایاں کرکے ہمارے سیاسی کلچر کو نئی جہتوں سے روشناس کرا دیا۔
اگرچہ وزیراعظم عمران خان بلدیاتی الیکشن میں شکست کو پارٹی کے داخلی تضادات اورغیر موزوںامیدواروں کی نامزدگی کا نتیجہ قرار دے کر بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں ان غلطیوں کی تلافی کے ذریعے اصلاح احوال کی امید دلا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی عبرتناک شکست کو محض غلط نامزدگیوں کے محدود حوالوں سے پرکھا نہیں جا سکتا بلکہ ہمہ گیر اثرات کی حامل اس ہزیمت کی جڑیں ہمیں وفاقی گورنمنٹ کی سیاسی اوراقتصادی پالیسیوں کے ردعمل میں ابھرنے والی ناشائستہ اور تھکا دینے والی سیاسی کشمکش‘ہوشربا مہنگائی اورخیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی مکمل ناکامی میں ملتی ہیں۔اب کئی وفاقی وزراء خیبر پختونخوا میں جے یو آئی ایف کی کامیابی کو بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے غلبہ سے منسلک کرکے مغرب کو اکسانے میں مشغول ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ جمعیت علماء ہند سے لے کر جمعیت علماء اسلام (ف)تک اس جماعت کی پوری تاریخ آئینی بنیادوں پہ خالص سیاسی جدوجہد سے مزین رہی۔مولانا فضل الرحمن ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہدکرنے والی جماعتوں کے شانہ بشانہ رہے۔انہوں نے سیاسی کیریئر کی ابتدا ایم آر ڈی کی تحریک میں شمولیت سے کرکے آغازِ شباب ہی میں ضیا الحق کے دور میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ہاں البتہ‘جنرل مشرف کے دور میں پہلی بار وہ اس حکمت عملی کے تحت مقتدرہ کے ساتھ شریکِ اقتدار ہوئے تاکہ عام لوگوں کے دل و دماغ سے اس تاثر کو ختم کیا جا سکے کہ'' مذہبی جماعتیں کبھی اقتدار حاصل نہیں پائیں گی‘‘۔ بیشک‘ وہ اسی مقصد کے حصول میں کامیاب رہے۔مولانا فضل الرحمن نے ہمیشہ پُرامن اور منظم اصلاحات کی تجاویز پیش کیں اور وہ ملک کی داخلی و خارجی پالیسیوں میں توازن کی وکالت کرتے رہے‘مجھے امید ہے کہ ہمارے ارباب بست و کشاد مولانا صاحب کی سیاسی اہمیت کو سمجھے میں کوتاہی نہیں کریں گے کیونکہ وہ بنگال کے حسین شہید سہروردی کی طرح خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو قومی وجود سے منسلک رکھنے کی آخری امید ہیں۔
حالات کی بے رحم گردشوں نے اے این پی اور قومی وطن پارٹی کوخیبر پختونخوا کی سیاست سے آؤٹ کرکے نسل پرستی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔وسطی سرحد کے قوم پرست پشتونوں کی نمائندگی کی دعویدار عوامی نیشنل پارٹی پشاور کے علاوہ چارسدہ کی تینوں نشستیں گنوا بیٹھی۔پیپلزپارٹی بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں تحصیل پہاڑ پور کی جس واحد نشست پہ اترا رہی ہے وہ بلوٹ شریف کے مخدوم زادوں کی روایتی نشست ہے جسے وہ کسی نہ کسی طور ہر عہد میں جیت لیتے ہیں۔اس دفعہ مخدوم آف بلوٹ شریف جے یو آئی کی ٹکٹ پہ الیکشن لڑنے کے آرزو مند تھے‘جس وقت پیپلزپارٹی ٹکٹ لے کر ان کے پیچھے پھر رہی تھی اس وقت وہ جے یو آئی کے ٹکٹ لینے کی تگ و دو میں سرگرداں تھے‘ لیکن خواہش کے باوجود مولانا فضل الرحمن انہیں اپنانے میں ناکام رہے؛ چنانچہ حالات کے جبر نے مخدوم الطاف حسین کو پیپلزپارٹی کی ٹکٹ لینے پہ مجبورکیا بصورت دیگر جمعیت اگر مخدوم گروپ کو انگیج کر لیتی تو ڈیرہ اسماعیل خان میں میئر اور چیئرمین کی تمام نشستیں باآسانی جیت لیتی۔اس سب کے الرغم جے یو آئی نے اپنی مزاحمتی سیاست کے ذریعے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ دیہی سندھ کی سیاست میں بھی جگہ بنانے میں کامیابی پائی۔ 2023ء کے عام انتخابات میں جمعیت نے اگر چالیس فیصد پارٹی ٹکٹس روایتی مولویوں کی بجائے معاشرے کے بااثر طبقات کی نمائندگی کرنے والوں کو دیں تو اس سے نہ صرف ہمارے معاشرے میں جے یو آئی ایف کا دائرۂ اثر وسیع ہو گا بلکہ ان کی جماعت ملک کے تمام گروہوں کی نمائندہ پارٹی بن کے ابھرے گی۔سندھ میں انہیں علاقائی گروپوں کے علاوہ چھوٹی جماعتوں کے ساتھ دانشمندانہ ایڈجسٹمنٹ صوبائی اسمبلی کی بیس پچیس نشستیں دلوانے کا ذریعہ بن سکتی ہے‘اسی طرح بلوچستان میں مولانا فضل الرحمن کو اپنی جماعت کے اندر پائی جانے والے دھڑا بندی پہ قابو پانے کے علاوہ نمایاں سیاسی خاندانوں کو شریک سفر بنانا پڑے گا۔جس طرح منگل کے روز مولانا فضل الرحمن کوئٹہ میں سابق وزیراعلی اسلم رئیسانی گھر گئے‘بیشک‘ معاشرے کے مقتدر افرادکو انگیج کرنے کی حکمت عملی نے وہاں جمعیت کے اثر و رسوخ کو بڑھاوا دیا۔ وہ دوسرے صوبوںمیں بھی اسی پالیسی کو کارگر بناسکتے ہیں۔قرائین بتانے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں نواز لیگ کے ساتھ انتخابی الائنس جمعیت کو وزرات اعلیٰ کے منصب تک پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔