تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     25-12-2021

قومی سلامتی کونسل اور سالمیت

کسی بھی ملک میں اگر خاص قسم کے دفاعی یا معاشی حالات پیدا ہو جائیںاور گڈ گورننس کے مسائل بھی ہوں تو اس کے حل کے لیے اس وقت کی سیا سی حکومت کی جانب سے فوری طور پر دو طریقے استعمال کئے جا تے ہیں‘ ان میں سے ایک تو قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر نے کے بعد آئین کی مقررہ مدت میں نئے انتخابات کا آپشن استعمال کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات ریاست اور سلطنت کچھ اس نہج پر پہنچ چکی ہوتی ہے کہ نئے انتخابات سے بجائے بہتری کے مزید نقصان اور افراتفری پیدا ہونے کے خدشات زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ اگر ملک میں نئے انتخابات کا یہ طریقہ کار حالات کو مزید خراب کررہا ہو تو ماورائے آئین اقدامات اٹھانے کے بجائے یہی آپشن بنتا ہے کہ جمہوری طرز حکومت کے سائے میں آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ملک کی عدلیہ سپرا کانسٹیٹیوشنل کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے انتظامی اختیارات کو کچھ ایسے لوگوں اور گروپس کے سپرد کر دے جو ملک کا انتظامی بندوبست سنبھالتے ہوئے چند برس تک ملک کی سیا سی اور معاشی صورتحال سمیت داخلی اور خارجہ امور میں بہتری لے آئیں۔
اگر پاکستان کے معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان تجاویز کا جائزہ لیا جائے تو شاید یہ آج کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت بن جائے۔وزیر اعظم عمرا ن خان کے متعلق یہ بات تو کسی شک و شبہ کے بغیر کہی اور لکھی جا سکتی کہ امانت اور دیانت میں وہ سرخرو رہے ہیں‘ گو کہ گزشتہ تین برسوں سے زمام اقتدار ان کے ہاتھ میں رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کو دو نہیں بلکہ چار بیساکھیاں دی گئیں جن کے سہارے وہ حکومتی معاملات چلاتے آ رہے ہیں۔ اگر ایک جانب ان کو اقتدار دیا گیا ہے تو دوسری جانب ان کی ضداورغیر لچکدار رویے نے بھی ملک اور حکمران پارٹی کو بہت نقصان پہنچا دیا ہے۔قافلہ سالار کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہر قسم کی خیانت سے پاک ہے لیکن جب حکمران حکومتی معاملات چلانے میںایسے لوگوں کو سب سے اوپر بٹھا دیا جائے جو اپنے وجود سے ہی بے خبر ہوں‘ جنہیں ساری زندگی ایک عام سے پولیس افسر کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہنے کی عادت ہو‘ جن کو کمشنر تو بڑی دور کی بات ہے‘ اسسٹنٹ کمشنر سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہوتی ہو وہ چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو کس طرح حکم دے سکتے ہیں؟
کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کوئی حیران کن واقعہ نہیں‘ نوشتۂ دیوار ہے جو سوائے حکمرانوں کے سب کو صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔یوں کہہ سکتے ہیں کہ کے پی کے میں تو پھر بھی کچھ عزت رہ گئی ہے لیکن پنجاب میں جو تھوڑی بہت ساکھ ہے آنے والے بلدیاتی انتخابات میں شاید وہ بھی زمین بوس ہو جائے گی۔کھاد کی بلیک مارکیٹنگ سب کے سامنے ہے ‘ چینی کی ذخیرہ اندوزی اور من مرضی کی قیمتیں اور پھلوں ‘ سبزیوں کے آئے دن بڑھتے ہوئے نرخ یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ کوئی بھی کنٹرول کرنے کی نہ تو ہمت رکھتا ہے اور نہ ہی کسی کی نیت دکھائی دیتی ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ گھی اور پٹرول کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی قیمتیں عمران خان صاحب کی حکومت کے بس میں نہیں کیونکہ یہ سب بین الاقوامی حالات کے زمرے میں آتی ہیں اور اس کا شکار صرف پاکستان ہی نہیں تمام دنیا اس آفت کی لپیٹ میں ہے لیکن کیا کریں کہ مقامی طو رپر تیار ہونے والی اشیا بھی عام آدمی کے کنٹرول میں نہیں آ رہیں۔کچھ پہلے ترکی کی کرنسی کی حالت پاکستان سے بھی بد تر تھی‘ کون نہیں جانتا کہ ترکش لیرا پاکستان کے چھبیس روپے کے برا بر تھا لیکن ترک صدر نے بجائے اپنے سٹیٹ بینک کو شتر بے مہار کرنے کے سود کی شرح کم رکھنا شروع کر دی نتیجہ یہ نکلا کہ ترکی لیرا اب پندرہ روپے پر آ گیا ہے۔ کل تک حفیظ شیخ صاحب تھے تو آج شوکت ترین ہیں ‘آج ڈالر180روپے سے بڑھ چکا ہے جبکہ دبئی کی مارکیٹ میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر191 تک پہنچ چکا ہے۔ اس وقت ہنڈی کا کاروبار جس قدر عروج پر ہے اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیںلیکن سوائے بیانات دینے کے کچھ بھی اچھائی کا کام دکھائی نہیں دے رہا۔کیا عوام اب مزید انتظار کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
یہ کہنا غلط نہیں کہ سیا ست میں عمران خان صاحب بے بس ہو چکے ہیں‘ ملکی معاملات چلانے کے لیے لگائے گئے اداروں کے سربراہ اور صوبوں کے انتظامی امور کے سیا سی انچارج عمران خان صاحب کی دھول کو بھی نہیں پہنچ رہے اور یہ وہ ناکامی ہے جس کے ذمہ دار خان صاحب خود ہی ہیں کیونکہ یہ انہی کے فیصلے ہیں ۔ اگر آپ سے کوئی ایسا فیصلہ ہو گیا ہے جو غیر مقبول ہو رہا ہے‘ جس کا نقصان آپ کو کم اور آپ کی جماعت کو زیا دہ پہنچ رہا ہو توبہتر یہ ہوتا ہے کہ اپنا وہ فیصلہ واپس لے لیا جائے لیکن یہ کیا کہ ایک دنیا روئے اور چیخے جارہی ہو اور آپ ا ن کا رونا چیخنا دیکھنے اور سننے کے باوجود اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں۔ جو سب سے اچھے پولیس اور انتظامی افسران تھے‘ جو خان صاحب کے ویژن کو ملکی بقا کے لیے اچھا سمجھتے تھے ان کو چن چن کو پنجاب اور کے پی کے سے نکال باہر کیا گیا۔ سندھ بھیجے جانے والے گریڈ بیس کے ایک ایسے پولیس افسر کو جانتا ہوں جن کی ایمانداری اور کام سے لگن کی ایک دنیا معترف ہے اور جو شاید خان صاحب کے ویژن کے لیے سب سے زیادہ کام کرنا چاہتے ہوں‘ لیکن انہیں دو برس تک اس طرح پنجاب میں کھڈے لائن لگایا گیاکہ سب حیران ہو رہے تھے کہ اگر حکومت کا افسران کا چنائو اس قسم کا ہے تو پھر عوام کی تکالیف کس طرح دور ہوں گی؟
صوبائی انتظامیہ کا چنائو بھی اس ملک کو بہتری کی جانب لانے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔ یہ نہیں کہ اچھے افسران پنجاب یا دیگر صوبوں میں نہیں ہیں ‘ان کی بہتات ہے لیکن کمال دیکھئے ان ہاتھوں کا جو حکومت کو چکرپر چکر دیتے ہوئے ایسی لاٹ سامنے لا رہے ہیں جو نجی محفلوں میں وزیر اعظم صاحب کے سب سے بڑے مخالفیں میں شمار کئے جاتے ہیں۔
عمران خان صاحب کو مائنس کر کے اگر کوئی چکر چلایا گیا تو ملک کے لیے مزید خرابیاں پیداہوں گی کیونکہ یہ تو کسی شک و شبہ کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ دوسری سیاسی قیادت کرپشن کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے اوراگر کوئی پھر سے یہی لاٹ ملک پر مسلط کرنا چاہتا ہے تو یہ کسی لحاظ سے بھی اچھا نہیں ہو گا ۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور سوائے عمر بھر کے پچھتاوے کے کسی کے پاس کچھ نہ رہے‘وزیر اعظم صاحب کو چاہئے کہ ایک نئے عزم اور حوصلے سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے قانونی اور آئینی معاملات چلانے کے لیے قومی سلامتی کونسل کا سہارا لیں۔ نیشنل سکیورٹی کونسل میں ملک کے تینوں سروسز چیف ا س وقت بحیثیت رکن کے شامل ہیں‘ اس لئے سول اور ملٹری تعاون سے یہ کونسل کم از کم تین سال تک اپنا کام کرنے کے بعد ملک بھر میں صاف اور شفاف طریقے سے عام انتخابات کرا دیتی ہے تو اس میں کیا برائی یا مضائقہ نہیں۔اس کے لیےSupra Constitutional roleکی ضرورت محسوس ہو تو قانونی اور آئینی پہلوئوں کو سامنے رکھ کر قومی بھلائی کی خاطر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved