1984ء میں جب جنرل ضیا نے ریفرنڈم کا اعلان کیا تو پیپلزپارٹی اس کے بائیکاٹ کی طرف جا نکلی۔ جنرل نے اطمینان سے اس سوال پر ریفرنڈم کرا دیا کہ ’’کیا آپ پاکستان میں اسلامی نظام چاہتے ہیں؟‘‘ ظاہر ہے پاکستانیوں کا جواب اثبات میں تھا۔ جنرل صاحب نے اس کا نتیجہ یہ نکالا کہ عوام اسلام چاہتے ہیں۔ اس لئے مجھے چاہتے ہیں۔ میں 5سال کے لئے صدر مملکت ہوں۔ پیپلزپارٹی چاہتی تو میدان میں اتر کے جنرل ضیاسے ٹکر لے سکتی تھی۔ وہ عوامی ریفرنڈم میں پھنس گئے تھے اور اپوزیشن زوردار مخالفانہ مہم چلا کر اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ مانگتی تو جنرل ضیا کے لئے کامیاب ہونا مشکل تھا۔ دوسرا موقع عام انتخابات کے اعلان پر ملا۔ جنرل ضیا نے جب دیکھا کہ پیپلزپارٹی کو عام انتخابات میں ہرانا مشکل ہو گا‘ تو انہوں نے غیرجماعتی انتخابات کا اعلان کر دیا۔ ضیا الحق کی حامی تمام پارٹیوں کے امیدواروں نے خود کو غیرجماعتی ڈکلیئر کر کے الیکشن میں حصہ لیااور پیپلزپارٹی بائیکاٹ کر کے بہ خوشی اسمبلیوں سے باہر ہو گئی۔ جس پر بے نظیربھٹو کو دیر تک کف افسوس ملنا پڑے۔ تب انہوں نے عہد کیا کہ الیکشن جیسے بھی ہوں گے‘ پیپلزپارٹی ان میں حصہ ضرور لے گی۔ یہی وجہ تھی کہ جب جنرل مشرف نے بے نظیر کے بغیر انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا‘ تو بی بی نے ملک اور اسمبلی سے باہر رہ کر بھی الیکشن میںحصہ لیا۔ انتخابات میں تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے پیپلزپارٹی پھر اتنی نشستیں جیت گئی کہ اگر جنرل مشرف ساری ریاستی طاقت پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال نہ کرتے‘ تو وہ حکومت بنا سکتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ پیپلزپارٹی کے لوٹے ‘ جنرل مشرف کے بیت الخلا میں ڈیوٹی دینے پر تیار ہو گئے اور پیپلزپارٹی حکومت بنانے سے رہ گئی۔بائیکاٹ نہ کرنے کا فائدہ بہرحال یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی اسمبلیوں کے اندر موجود رہی۔ حالیہ بائیکاٹ گناہ بے لذت ہی نہیں بدذائقہ بھی ہے۔ جو کچھ اسمبلیوں میں آنا تھا‘ آ گیا۔ جسے جہاں حکومت ملنا تھی‘ مل گئی۔ اگر اس ملک میں جمہوریت کو رہنا ہے‘ توپھر آنے والے 5سال اسی ’’بندوبست اراضی‘‘ کے تحت چلیں گے۔ یعنی اسمبلیوں میں جس کو جتنی جگہ مل گئی ہے‘ سب کو اسی پر قناعت کرنا پڑے گی اور اگر سب کچھ یونہی رہنا ہے‘ تو بائیکاٹ کا فائدہ؟ نہ اس بائیکاٹ کے نتیجے میں نوازشریف وزارت عظمیٰ سے محروم ہوں گے‘ نہ مسلم لیگ کی نشستوں میں کمی آئے گی‘ نہ مسلم لیگ (ن) کا امیدوار ہارے گا‘ نہ پیپلزپارٹی کی جیت ہو گی۔ ایسا بدذائقہ بائیکاٹ محض سیاسی بدذوقی ہے۔ یہ بدذوقی اس وقت اور بھی تکلیف دہ ہو گئی‘ جب اس کے نتیجے میں نوازشریف اپنی توقعات سے زیادہ سیاسی طاقت حاصل کر گئے۔ کل بھی عرض کر چکا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان اتنی تلخیاں آ چکی تھیں کہ کوئی حادثہ ہی انہیں ایک دوسرے کے قریب لا سکتا تھا۔ نوازشریف کو صدارتی انتخاب میں دو بڑی جماعتوں کی طرف سے خطرہ تھا۔ ایک پیپلزپارٹی اور ایک عمران خان۔ پیپلزپارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے‘ ایک تیر سے دوشکار کھیلے۔ نوازشریف کو مجبور کر دیا کہ وہ فیڈریشن کے صدارتی امیدوار کے لئے سندھ کے ممبروں کو بڑی تعداد میں انتخابی عمل کا حصہ بنائیں‘ ورنہ وفاق میں سیاسی عدم توازن کا اندیشہ تھا۔ سندھ سے ووٹ حاصل کرنا نوازشریف کی مجبوری بن گئی۔ دوسرے عمران خان کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دے دیا۔ یہ اور بات ہے کہ دونوں ہی تیر ایسے نشانوں پر لگے ‘ جن کا فائدہ نوازشریف کو پہنچ گیا۔ ایم کیو ایم کو دھکا عمران خان نے دیا۔ نوازشریف کی جھولی پیپلزپارٹی نے کھول دی۔ ادھر سے دھکا کھائی ہوئی ایم کیو ایم کسی سیاسی پناہ کی تلاش میں تھی۔ ادھر نوازشریف کی جھولی سندھی ووٹوں کے لئے کھلی ہوئی تھی۔ آگے جو کچھ ہوا آپ نے دیکھ لیا۔ نوازشریف کی جھولی میں ایم کیو ایم آ گری۔اب پیپلزپارٹی کے لیڈر بیٹھے سوچا کریں کہ انہیں بائیکاٹ کے گہرے پانیوں میں دھکا کس نے دیا تھا؟ ممنومیاںپان چباتے‘ منڈی مٹکاتے‘ انگلی پر ایوان صدر کی چابیاں گھماتے‘ ڈکاریں لیتے‘ جھومتے لہراتے‘ چند روز میںایوان صدر کی طرف خراماں خراماں بڑھ رہے ہوں گے۔میرا اندازہ یہ ہے کہ اس موقع پر نوازشریف کو پہلا فون اس شخصیت کی طرف سے آئے گا‘ جس نے رضا ربانی کو بائیکاٹ کے فیصلے پر مجبور کیا۔ کیونکہ بائیکاٹ کا فیصلہ کرانے والے مدبر نے‘ نہ صرف نوازشریف کے صدارتی امیدوار کی جیت یقینی بنائی بلکہ ان کے مقابل حزب اختلاف کے لیڈر کے لئے جو جگہ بن سکتی تھی‘ اس پر عمران خان کو کھڑا کر دیا۔ اب آصف زرداری اگر میدان سیاست میں اتریں گے یا بلاول کو اتاریں گے‘ تو انہیں پہلا مقابلہ عمران خان سے کرنا ہو گا۔ اسے ہٹائیں گے‘ تو قائد حزب اختلاف کی جگہ خالی ہو گی اور جگہ خالی ہو گی‘ تو انہیں نوازشریف کے مقابل کھڑے ہونے کا موقع ملے گا۔ یہ نوازشریف کی سسرالی ترکیب ہے۔ گاما پہلوان کے جانشین‘ خود میدان میں نہیں اترا کرتے تھے۔ ان کے بھائی بھتیجے‘ صف باندھے چاروں طرف کھڑے رہتے۔ مجھے بھولو پہلوان کا زمانہ یاد ہے۔ جب کوئی بھولو کو چیلنج کرتا‘ تو جواب آتا کہ پہلے فلاں کو چت کر کے دکھائو‘ پھر بھولو کی طرف بڑھنا۔ نتیجہ اکثر یہی ہوا کہ جس نے بھولو کی طرف بڑھنے کی کوشش کی‘ اسے کسی چیلے سے کشتی لڑنا پڑی اور اسی کے ہاتھوں چت ہو گیا۔ بھولو صاحب چوڑے ہو کر موڑھے پر بیٹھے‘ اپنے چکنے چمکتے جسم پر ہاتھ مار تے ہوئے مسکراتے نظر آتے۔ اب نوازشریف بھی یہی شوق فرمایا کریں گے۔ جو بھی قائد حزب اختلاف بن کر ان کے سامنے آنے کی کوشش کرے گا‘ میاں صاحب کا کوئی چیلا اسے پیغام پہنچائے گا کہ ’’پہلے عمران خان کو ہٹا لوپھر قائد حزب اختلاف بننے کی کوشش کرنا۔‘‘مجھے یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ ہیں۔ وہ اتنے نفیس آدمی ہیں کہ قائد حزب اختلاف بن ہی نہیں سکتے۔ بطور قائد حزب اختلاف ان کی حالت‘ اس مجبور آدمی کی ہے‘ جس نے حالات کے دبائو میں آ کر شیر کی کاسٹیوم پہنی اور دن بھر پنجرے میں کھڑا رہنے پر مجبور ہو گیا۔ شاہ جی قائد حزب اختلاف بن کر ایوان میں پرفارمنس تو ضرور دیا کریں گے مگر ان کی آواز اور لب و لہجہ ان کا ساتھ نہیں دے گا۔ وہ ہمیشہ ہیرو کے دوست کا کردار کرتے رہے ہیں۔ ولن کی آواز میں مکالمے اداکرنا‘ ان کے بس کی بات نہیں۔ آواز ہی ساتھ نہیں دے گی‘ تو گھن گرج کہاں سے لائیں گے؟ وہ کڑی سے کڑی تنقید کرتے ہوئے بھی ایسے لگیں گے‘ جیسے اظہارمحبت کر رہے ہوں۔ ہیں ہی محبت والے انسان۔ پیپلزپارٹی کو اب بہت دنوں تک اپنے بکھرے ہوئے دانے جمع کر کے‘ دوبارہ پارٹی میں بدلنا پڑے گا اور یہ کام آسان نہیں۔ بحرانوں کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ مسائل کے بگولے بن رہے ہیں۔ سیاست سے عوامی بیزاری کی چنگاریاں چمک رہی ہیں۔ سیاسی ڈرامے میں سنسنی اور دلچسپی پیدا کرنے کے لئے ن لیگ اور تحریک انصاف اسٹیج کے اوپر جگہ لے چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو عددی طاقت کے باوجود سٹیج کے پیچھے پڑی کرسیوں کی جانب دھکیل دیا گیا ہے۔ دھکیلنے والے غیر نہیں‘ پارٹی کے اندر ہی پائے جاتے ہیں۔ عوام کی توجہ انہی پر مبذول رہے گی‘ جو اسٹیج کے اوپر ہوں گے۔ پیچھے جا کر بیٹھنے والوں کو اب دیر تک اسٹیج کے عقبی اندھیروں میں وقت گزارنا پڑے گا۔ یہ وقت گزارنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے کیسے گزارتا ہے؟ اچھی سیاسی قیادت ہو‘ تو وہ برے وقت میں سے بھی اچھے وقت کی طرف بڑھنے کی راہیں نکال لیتی ہے اور قیادت میں دم نہ ہو‘ تو وہ اسٹیج کی چکاچوند میں بھی اندھیروں کی طرف جا نکلتی ہے۔ صدر زرداری نے اپنے اقتدار کی بنیاد اسمبلی میں آئے ہوئے لوگوں تک محدود کر دی۔ عوام سے لاتعلق ہو گئے۔ الیکشن آیا‘ عوام ان اراکین اسمبلی سے لاتعلق ہو گئے‘ جن پر زرداری صاحب نے بھروسہ کیا تھا۔ یہ ٹوٹے ہوئے رشتے جوڑنے کا کام طویل عرصے میں ہو گا۔ مگر اس دوران مجھے کہانی ایک نئے موڑ کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک موڑ ایم کیو ایم کا تھا‘ جو عبور ہو رہا ہے۔ اگلا موڑ ہو گا چوہدری برادران۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved