اورجائے ہوٹل، داتچا ایسے شخص اور ایسی کتاب کی طرح تھا جو آہستہ آہستہ آپ پر کھلتے ہیں اور جب کھل جائیں تو معاملہ بند قبا جیسا ہوجاتا ہے کہ اس کے سحر سے باہر جانا دشوار ہوجاتا ہے۔ ذرا آرام کے بعد کمرے سے نکل کر ہوٹل دیکھنے کا ارادہ کیا توسب سے پہلے جس چیز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی وہ سرخ بوگن ولیا کی اونچی ہری، پھیلی ہوئی بیلیں تھیں جو اس وقت اس طرح پھولوں پر آئی ہوئی تھیں کہ ندیم قاسمی صاحب کا شعر یاد آتا تھا:
اب کے گلزار پہ یوں ٹوٹ پڑا ابرِ بہار
جیسے ہر پھول سے شعلے ہوں نکلنے والے
ان آتشی پھولوں نے سبز بیلوں کے ساتھ مل کر پورے ہوٹل میں آگ لگا رکھی تھی۔ داتچا، بلکہ یہ سارا علاقہ بوگن ولیا کے لیے مشہور ہے اور اکثر گھروں اور ہوٹلوں میں اس کی مختلف قسمیں لگی ہوئی ہیں۔ سرخ پھول دیکھتے ہوئے میری نظر اس مینار نما برج پر پڑی جو پرانے قلعوں اوربڑے گھروں میں تعمیری روایت کا حصہ ہوا کرتی تھی اورجسے انگریزی میں (Turret) کہتے ہیں۔ اسے دراصل گول منارچہ اور چھوٹا برج کہنا چاہیے۔ ہوٹل میں ایسے برج کئی ایک تھے اور ان میں رہائشی کمرے بھی تھے، جن کے آگے چھوٹی سی بالکونیاں بنی ہوئی تھی جن تک بوگن ولیا کی لہراتی شاخیں پہنچ رہی تھیں۔ میں دائیں بائیں پھیلے سبزے کے درمیان لہراتی بل کھاتی روش پرچلتا گیا اور جلد ہی اندازہ ہونے لگاکہ ہوٹل ایک سرسری نگاہ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ روش ختم ہوئی توسامنے کھلی جگہ اور نیلا سوئمنگ پول تھا، ایک کونے پر بار تھا۔ پول کے کنارے غسلِ آفتابی کی آرام کرسیاں پڑی تھیں۔ سہ پہر کے وقت تھااور عموماً اس وقت پول خالی نہیں ہوا کرتے لیکن اس کی وجہ جلد ہی سمجھ آگئی۔ پول کے اس پارایک مختصر سا سبزہ زار تھا اور اس کے ساتھ ہی ہوٹل کی چاردیواری ختم ہوتی تھی۔ دیوارکے ساتھ ہی دائیں بائیں لمبی سڑک اور سامنے نیلا سمندر۔ نیلا سمندر جس کی کشش کسی لمحے کم نہیں ہوتی‘ اور جس کا خوف بھی ہر پل جاگتا رہتا ہے۔ میں سڑک پر نکل آیا ۔ یہ سرسبز درختوں اور ٹھنڈی چھاؤں سے ڈھکی ہوئی سڑک تھی جو دائیں بائیں حد نظر تک پھیلی ہوئی تھی۔ سامنے درخت کی چھاؤں تلے میزیں اور کرسیاں بچھی تھیں اور چند قدم آگے بڑھ کر چند سیڑھیاں اتر کر آپ سمندر کنار ے پہنچ جاتے تھے۔ میں اترا۔ ساتھ ہی اس لکڑی کی جیٹی کا راستہ تھا جو سمندر میں چند سو گز تک جاتی تھی اور ہوٹل کی ملکیت تھی۔ جیٹی پر پڑی بہت سی آرام کرسیوں پر گوریاں اور گورے نیم دراز تھے۔ پول خالی ہونے کی وجہ یہی جیٹی تھی۔ ہلکورے لیتے ہلکے رنگ کے پانیوں کے بیچ یہ جیٹی ان لوگوں کیلئے جنت تھی جودھوپ اور سمندر دونوں کا قرب چاہتے تھے۔ میں جیٹی کے آخری کنارے پرکھڑا ہوگیا۔ ہلکی خنک ہوا،نرم دھوپ اور نیلے پانیوں میں جھمجھماتی لہروں نے میرا استقبال کیا۔ یہ جگہ پرسکون بھی تھی اور پرسکوت بھی۔ نیم درازلوگ خاموشی سے اپنی اپنی کتاب پڑھنے میں مصروف تھے؛ چنانچہ ہوا کی سرگوشیوں اور ہلکی لہروں کے ترنم کے سوا کوئی آواز نہیں تھی۔ میں سمندر کو تکتا رہا۔ کچھ دیر بعد ہوٹل کی طرف رخ بدلا اور اس کے سامنے سے گزرتی سڑک کودیکھا۔ میرے بائیں طرف یہ ساحل ہلال کی شکل میں ایک قوس بناتا تھااور دائیں طرف یہ سڑک سیدھی دور تک چلی جاتی تھی۔ میرے ہوٹل کے دائیں بائیں مسلسل ہوٹل ہی تھے۔ مجھے اب سمجھ آیاکہ دراصل یہ ہوٹل کی پشت نہیں، اصل رخ ہے جو سمندر کے سامنے ہیں‘ لیکن چونکہ اس سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت ممنوع ہے، یہ صر ف پیدل چلنے والوں کے لیے ہے، اس لیے آنے جانے اور سامان کے لیے وہ رخ استعمال ہوتا ہے جہاں میں ٹیکسی سے اترا تھا۔ داتچا دور تک میرے سامنے پھیلا تھا۔ ایک خوبصورت چھوٹا سا شہر جوایک ہی نظر میں آنکھوں میں سما گیا اور اسی لمحے میرے دل میں بھی اترگیا۔ بودرم نسبتاً بڑا شہر تھا اور اس میں سیاح بھی زیادہ تھے۔ داتچا چھوٹا سا شہر بلکہ گوشۂ عافیت تھا۔
داتچا ایک جزیرہ نما کی صورت میں ترکی کے مغلہ صوبے کا حصہ ہے۔ 1928 تک یہ مرمریس ہی کا حصہ تھا۔1947 تک رشیدیہ نامی قصبہ داتچا کا مرکز رہا اور بعد ازاں اسکیلی نے اس کی جگہ لے لی۔ داتچا نام کا بھی دلچسپ قصہ ہے۔ یہ نام سٹیڈیا سے بدلتا ہوا داتچا بنا۔ سٹیڈیا سنائڈیس کے قریب ایک پرانا قصبہ تھا۔ سٹیڈیا سے ٹیڈیا، ڈیڈیا، داڈچا، اور پھر داتچا بن گیا۔ اس لمبوترے جزیرہ نما کے شمال میں خلیج گوکووا، اور جنوب میںخلیج حصارونو ہے۔ جزیرہ نما کی نوک بالک سیران کہلاتی ہے جس کے معنی ہیں، جہاں مچھلیاں اچھلتی ہیں۔ قدیم داتچا ضلع 9 آبادیوں یا گاؤں پر مشتمل تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ سب قصبات ساحل پر نہیں بلکہ پہاڑی ڈھلانوں پر ساحل سے کم و بیش ایک میل کے محتاط فاصلوں پر تھے اور اس کی وجہ بحری قزاقوں کا شدید خطرہ تھا۔ یہ قزاق ایک زمانے میں پورے علاقے کے لیے تباہی اور بربادی کی علامت تھے۔ سیاحوں کے لیے داتچا اپنی خوب صورتی، زرخیزی، سکون اور سمندر کی وجہ سے ایک پرکشش مقام ہے اور ہاں! ہم جیسے ادب کے طالب علموں کے لیے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترک ادیب کان یوجل بھی، جس کے شیکسپیئر کے تراجم معروف ہیں، داتچا سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے اپنی زندگی کے آخری بہت سے ماہ و سال اسی خوب صورت قصبے میں گزارے تھے۔ داتچا میں کان یوجل کے مجسمے بطور یادگار نصب ہیں۔
اسی شام جب سورج ڈھلے افق پر سرخ روشنیاں جل اٹھی تھیں اور ساحل کے ساتھ ساتھ رنگ برنگ قمقمے روشن ہورہے تھے‘ میں اس ہلالی سڑک پر داتچا کی سیر کے لیے نکلا۔ موسم ایسا شاداب اور منظر ایسا حسین تھا کہ دور تک پیدل چلنے پر بھی تھکن کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ میرے بائیں ہاتھ سمندر میں شفق کے پھول رقص کر رہے تھے اور حد نگاہ پر سرمئی چادر لمحہ لمحہ نقرئی سمندر کو ڈھانپتی جا رہی تھی۔ میں چلتا گیا اور جلد ہی ہلال کی اس نوک پر پہنچ گیا جہاں سڑک دوسری طرف مڑتی تھی۔ یہ داتچا شہر کا آغاز تھا اور یہیں سے دکانیں، مارکیٹیں، چہل پہل اور رونق بھی شروع ہوتی تھی۔ یہاں سے ایک چھوٹی سی سڑک ساحل کے ساتھ چلی جاتی تھی جسے آپ فوڈ سٹریٹ سمجھ لیں کہ اس کے کنارے مسلسل طعام گاہیں تھیں۔ دوسری سڑک ذرا ہٹ کر شہر کی طرف جاتی تھی اور آگے چل کر مرکزی سڑک سے جا ملتی تھی۔ اس بڑی سڑک کے دونوں طرف دکانیں، مارکیٹیں اور برانڈز تھے۔ جابجا ریسٹورنٹس بھی تھے۔ نظر آتا تھا کہ یہ سارا علاقہ سیاحوں کی دل چسپی اور ضرورت کی خریداری پر مشتمل ہے۔ اشیائے ضرورت سے بھری ہوئی دکانیں جن میں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ میں اپنے ساتھ چلتا رہا، اس سڑک کے نشیب و فراز کے ساتھ۔ اور پھر جب ایک جگہ سستانے بیٹھا تو اپنے ہی ساتھ بیٹھنا پڑا۔
یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب عالم تنہائی دل پر رگڑ کھا کر گزرنے لگتا ہے۔ اچھا میاں سعود! یہ تنہائی خداداد ہے تب بھی اور اگر خود اختیاری ہے تب بھی۔ کیا کسی نے مجبور کیا تھا آنے کے لیے؟ تمہیں نے تو کہا تھا؟
تنہائی تھی اور ایسی ویسی /دل دوستوں سے بھرا پڑا تھا
میں ایسے پڑا تھا عشق کے پاؤں / جیسے کوئی آبلہ پڑا تھا
میں سامنے یوں پڑا تھا اپنے / جیسے کوئی دوسرا پڑا تھا