عام بلکہ روزانہ سنتے ہیں کہ مستقبل سنوارنے کے لیے کچھ کریں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اپنی کفالت تو ہر شخص پر لازم ہے کہ عزتِ نفس کا تقاضا ہے اور اگر کنبے کی ذمہ داریاں سر پر ہوں تو ہر انسان کو ہاتھ پائوں مارنے پڑتے ہیں۔ فطرت میں بھی یہی دیکھا ہے۔ اگر طلوع آفتاب کی پہلی کرنوں کو درختوں کے جھنڈ‘ کسی وسیع میدان یا اپنے گھر کی چھت سے ہی دیکھنا نصیب ہو تو مشاہدے میں آئے گا کہ ہر نوع کا پرندہ اپنے رزق کی تلاش میں پر پھیلائے فضا میں تیر رہا ہے۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ پو پھٹتے ہی غولوں کی صورت میں سفر شروع کر دیتے ہیں اور رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ شائیں شائیں کی آوازیں آپ چلتے پھرتے سنتے ہیں۔ جونہی سورج مغرب کی طرف لڑھکنا شروع کر دیتا ہے‘ یہ اپنا پیٹ بھر کے اپنے اپنے معمول کے ٹھکانوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ جنگلی جانوروں کے اپنے اوقات ہیں‘ کہ وہ تو رات کو نکلتے ہیں اور روشنی کی پہلی دھاریوں سے پہلے ہی اپنے غاروں کا رخ کر لیتے ہیں۔ ہم انسانوں کے معمولات شعور کی بدولت اتنے لگے بندھے نہیں‘ اور نہ وہ صرف پیٹ میں کچھ ڈالنے تک محدود ہو سکتے ہیں۔ وہ صلاحیتیں‘ جو ہمیں بطور انسان ممتاز کرتی ہیں‘ ان کے تقاضے بہت مختلف ہیں‘ لیکن وہ کیا ہیں اور یہ انسان کس حد تک انہیں پورے کرنے کی ہمیت اور قدرت رکھتا ہے‘ اس کے بارے میں کئی فلسفے‘ نظریات‘ مفروضے اور بحثیں ہیں۔ مذاہب اور فلسفوں نے ہمیں مقصدِ حیات کی وادیوں میں گم کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر مذہب اور فلسفے کے مطابق کامیابی و کامرانی‘ خوشی‘ اطمینان‘ عزت و وقار اور عیش و عشرت کے معیاری طور طریقے اور اصول و قواعد مختلف ہیں۔
فلسفہ حیات کی بحث میں پڑنا بڑا مقصد نہیں‘ اور نہ ہی ان بحثوں سے آپ کچھ زیادہ حاصل کر سکتے ہیں کہ عملی زندگی کی ڈگر زیادہ تر ہمارے سماجی پس منظر کے حوالے سے متعین ہوتی ہے۔ ہمارا ذوق‘ رجحان‘ زندگی کے خواب اور شخصیت کی نشوونما پر گہری چھاپ ماحول کی ہوتی ہے۔ قدر و قضا کے معاملات پر اس درویش کی کوئی دسترس نہیں‘ لیکن سماجی علوم‘ تاریخ اور جو کچھ بدلتے ماہ و سال میں دیکھا ہے‘ ایک نہیں کئی عناصر غیر شعوری طور پر ہماری شخصی صورت گری میں کارفرما ہوتے ہیں۔ جرائم کی دنیا ہو یا سیاست میں ابھرنا‘ طاقت اور دولت کا حصول ہو یا علم و فقر کی روایت‘ ظاہراً معلوم ایسا ہی ہوتا ہے کہ انسانی ارادے اور کاوش کے کرشمے ہیں‘ مگر ابتدائی سالوں کی پرورش‘ کچھ پہلے سبق‘ ماں کی گود اور شفقت‘ تعلیمی اور مذہبی اداروں کی ثقافت‘ ہمجولی اور کتابیں‘ جو ہم نے کچی عمر میں خوابوں کے زمانے میں پڑھی تھیں‘ ابدی اثر رکھتی ہیں۔ اس سے زیادہ کسی کو معلوم نہیں کہ باریکیوں میں ہم کیا ہیں اور کیا سے کیا ہو گئے یا نہ ہو سکنے میں کس چیز کا اثر زیادہ یا کم رہا۔ کچھ نقوش تو اوائل ہی میں مرتب ہوتے ہیں‘ مگر ہم وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ زندگی کا سفر ایسا ہی ہے کہ اچھے برے سبق ملتے رہتے ہیں‘ اور ہم خوشی‘ آسودگی‘ اطمینان اور نئے و پُرانے مقاصدکے حصول میں یک گونہ مصروف رہتے ہیں۔
ہر سال جب اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور نیا سال آنے کا کہیں سے ہلکا سا شور اٹھتا ہے تو بہتر مستقبل کے بارے میں کچھ سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ میری نسل کے لوگ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اب بہتر کے بارے میں سوچنا عبث سا محسوس ہوتا ہے۔ بہت جی لیا‘ بہت کچھ دیکھ لیا کہ سفر طویل تھا۔ ہم مستقبل کو بہتر کرنے کی تگ و دو میں سرپٹ گھوڑے دوڑاتے رہے‘ کہیں پیدل تو کہیں کشتیوں میں‘ دریائوں‘ سمندروں‘ جنگلوں اور پہاڑوں کو عبور کیا۔ ہم میں سے کچھ تو راستے میں دم توڑ گئے‘ زیادہ تر تھک ہار کر بیٹھ گئے کہ ہمت جواب دے گئی‘ اور بہت سے ایسے بھی تھے کہ شہزادیوں کے قرب کے لیے پتنگے کی طرح شمعوں سے روشنی لانے کی لگن میں جل کر راکھ ہو گئے۔ شو بازی ہو‘ دیکھا دیکھی ہو‘ نمود و نمائش اور دوسروں پر دولت اور طاقت کے زور پر رعب جمانا ہو تو اکثر کو زندگی کے کٹھن مراحل میں درماندہ اور نڈھال پایا ہے۔ وہ اس لیے کہ دوسروں کے ساتھ مقابلے میں دوڑ رہے تھے‘ وہ اپنا راستہ‘ اپنی منزل اور اپنے مقاصد اپنی ذہنی افتاد اور صلاحیتوں کے مطابق نہ ڈھال سکے۔
ہم نے اس زمانے میں شعوری اور علمی آنکھیں کھولیں جب مغرب میں نوجوان نسل نے بغاوت کا علم بلند کیا ہوا تھا اور ہم نے بھی جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ بغاوت مقتدر طبقات کے حق میں چلتے معاشی اور سیاسی نظاموں کے خلاف تھی۔ آج بھی درس وہی ہے بلکہ اس کی گہری چھاپ کہ محنت کرو‘ پڑھنے میں دن رات ایک کرو‘ کسی اچھی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرو‘ اور پھر بیل کی طرح کارپوریٹ دنیا کے کنویں میں آنکھوں پہ پٹی باندھ کے جُت جائو۔ اس بغاوت کا زور کم از کم اس درویش کی روح پر کم نہیں ہوا کہ سوال تو یہ ہے کہ آخر میں اپنا قیمتی حال کسی پُر فریب سنہرے مستقبل کی دوڑ میں کیوں ضائع کر ڈالوں۔ مشینی زندگی‘ ویت نام کی جنگ کے نفسیاتی اثرات اور دولت و سیاسی طاقت کے گہرے گٹھ جوڑنے ساری دنیا کے سوچنے سمجھنے والے نوجوانوں پر گہرا اثر ڈالا تھا‘ لیکن رد عمل کے طور پر ہر ایک تارکِ دنیا ہپی یا نشے کا خوگر نہیں ہوا تھا۔ سبق مزاحمت‘ جدوجہد اور اپنی دنیا آپ خود بسانے میں تھا اور یہ کہ نظام تبدیل نہیں کر سکتے تو پھر اپنی شرائط اور اپنے مزاج کے مطابق زندگی گزارنا چاہئے۔ ہم نے خوش و خرم‘ کامیاب اور بھرپور زندگی بسر کرنے کے گُر کو روایتی زاویوں سے نہیں‘ آزاد روی کے پیمانے پر پرکھا۔ یہ نہیں کہ دیگر لوگ کیا کر رہے ہیں‘ ان کی جھولی میں کیا ہے‘ یا وہ کن بلندیوں پہ ہیں‘ بلکہ یہ کہ میرے لیے کیا بہتر ہے۔ اگر ہم یہ ذہنی بالیدگی حاصل کر سکیں کہ میں زندگی میں کیا کرنا چاہتا ہوں‘ جو دوسروں کے کامیابی یا خوشی کے معیا ر سے جدا ہو‘ اور جو آپ کے دل اور ضمیر کی آواز ہو تو یہی آزاد روی ہے‘ حقیقی آزادی کا تصور۔
فطرت میں ہر ذی روح آج میں رہتا‘ بستا اور خوش رہتا ہے۔ کل کس نے دیکھا ہے۔ جو کل ہو گا وہ دراصل آج بن جائے گا۔ وقت حالتِ موجود میں رہتا ہے۔ ماضی کے دھندلکوں کی لکیر اور مستقبل کے خوابوں اور گمانوں کی تصویر۔ زندگی اور کیا ہے؟ وقت ہی تو ہے‘ آج اور ابھی۔ جس طرح ہم لمحۂ موجود میں جیتے ہیں‘ لمبی گنتی میں زندگی کا دھارا بن جاتا ہے۔ بے سود اور رائیگاں‘ ایسی زندگی جسے ہم سرابوں کی نذر کر دیں۔ جاتے ہوئے سال کو کس نے روکا ہے اور دن نکلنے اور رات پڑنے کے عمل پر کس کی گرفت ہو سکتی ہے‘ لیکن اپنا وقت‘ اپنی زندگی‘ اپنا مقصد تو ہم اپنے احاطۂ قدرت میں لا سکتے ہیں۔ یہ متاع دوسروں کی خواہشوں‘ پسند ناپسند یا کسی قسم کے جبر کی نذر کرنا‘ اسے ضائع کر دینا ہے۔ آرزو ہے کہ آپ خود اپنے آپ کو‘ جو حضرت بلھے شاہ نے کہا تھا‘ پڑھ لینے کی صلاحیت حاصل کر لیں۔ پھر بے سود خواہشیں آپ کی خوشی اور اطمینان کو برباد نہ کر سکیں گی۔