تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     27-12-2021

او آئی سی کانفرنس اور افغانستان

19 دسمبر 2021 کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے وزرائے خارجہ کے 17ویں غیرمعمولی اجلاس کا انعقاد پاکستان کیلئے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ تمام رکن ممالک کے وفود اور کانفرنس میں مدعو خصوصی مہمانوں کی میزبانی ایک مشکل کام تھا۔ پاکستان کے حکام اور سکیورٹی اتھارٹیز نے پیشہ ورانہ انداز میں اس کا انتظام کیا۔ اس کانفرنس کا ایک اور پلس پوائنٹ یہ تھا کہ شرکت کرنے والے وفود افغانستان میں انسانی چیلنج کو پوری طرح سمجھنے کے قابل ہوئے۔ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی کئی مسلم ریاستیں افغانستان کے عوام کے مسائل سے پوری طرح آگاہ نہیں تھیں۔ اس کانفرنس کے بعد انہیں احساس ہو چکا ہے کہ اگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کی مدد نہ کی گئی تو وہاں کی مشکل صورتحال ایک انسانی المیے میں تبدیل ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی یونین کو بطور مہمان خصوصی اس لیے مدعو کیا گیا تھا کہ وہ افغانستان کے مسائل اور اسلام آباد کانفرنس کے ذریعے افغانستان کے لیے پیدا ہونے والی وسیع حمایت سے بخوبی آگاہ ہو سکیں۔
15 اگست 2021 کو کابل میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے، طالبان اور پاکستان نے بین الاقوامی برادری سے افغانستان کے لوگوں‘ جو بیروزگاری، خوراک کی قلت، صحت کی ناقص سہولیات اور دیگر مسائل کا سامنا کر رہے تھے‘ کے لیے انسانی ہمدردی کی بنا پر مدد کے لیے بار بار اپیلیں کیں۔ افغان عوام کو بنیادی خدمات بشمول تعلیم، بجلی کی فراہمی اور شدید سرد موسم سے تحفظ کے حوالے سے اپنی حکومت کی جانب سے فنڈز کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے میں پہل کی۔ پاکستان نے 15 اگست کے بعد افغانستان کے لیے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ کام کیا ہے۔ ایران، سعودی عرب، ترکی، چین، روس‘ وسطی ایشیا کے ممالک اور افغانستان کے ساتھ مشترک سرحد والی ریاستوں کی طرف سے بھی طبی سامان‘ خوراک اور انسانی ہمدردی کی بنا پر سپورٹ فراہم کی گئی۔ اقوام متحدہ کے اداروں بالخصوص ورلڈ فوڈ پروگرام اور ورلڈ ہیلتھ پروگرام نے بھی کچھ امدادی سامان فراہم کیا۔ کچھ یورپی ریاستوں اور امریکہ نے بھی اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے ذریعے افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے لیے کچھ فنڈز فراہم کیے ہیں تاہم یہ امداد افغان عوام کی ضروریات سے بہت کم تھی؛ چنانچہ یہ قابل فہم ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان نے افغانستان کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے معاملے کو اٹھانے کیلئے او آئی سی کے اراکین کے وزرائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس بلانے میں پہل کی اور پاکستان نے اجلاس کی میزبانی پر رضامندی ظاہر کی۔ اس غیرمعمولی کانفرنس کے دوران امداد کیلئے نئے عزم کا اظہار کیا گیا۔ سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔ پاکستان نے بھی افغانستان کیلئے اضافی امداد کا اعلان کیا۔ دیگر کئی ممالک نے بھی افغانستان کو فنڈز کے ساتھ ساتھ ضروری سامان، اشیائے خورونوش اور ادویات فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
اجلاس میں دو اہم فیصلے‘ افغانستان کی مدد کیلئے ایک فنڈ کا قیام اور او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرلز میں سے ایک کی بطور او آئی سی نمائندہ برائے افغانستان تقرری‘ تھے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیے گئے تمام وعدے پورے نہیں ہوتے کیونکہ ان ممالک کو وعدے پورے کرنے کی یاددہانی نہیں کرائی جاتی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ستمبر میں افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کیلئے ایک بین الاقوامی اجلاس منعقد کیا تھا۔ وہاں کیے گئے تمام وعدوں پر پوری طرح عمل نہیں ہوا۔ اب افغانستان کیلئے ایک مستقل فنڈ اور او آئی سی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی قیادت میں ایک انتظامی نظام اس امر کو یقینی بنائے گا کہ رکن ممالک کی زیادہ سے زیادہ تعداد آگے افغانستان کو منتقلی کیلئے او آئی سی کو فنڈز اور مادی مدد فراہم کرے یا یہ ریاستیں براہ راست افغانستان کو امداد فراہم کریں۔ پاکستان اور او آئی سی کے بعض دیگر ارکان نے اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے اپیل کی ہے کہ اگر وہ طالبان کو براہ راست فنڈز اور سامان فراہم نہیں کرنا چاہتے تو اقوام متحدہ یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والی بین الاقوامی ایجنسیوں کے ذریعے افغان عوام کو امداد فراہم کریں۔ اب تک مغربی ممالک کا ردعمل سست رہا ہے‘ ممکن ہے وہ 'دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر گامزن ہوں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ نے اب تک طالبان حکومت کی اس درخواست کو قبول نہیں کیا کہ اسے اقوام متحدہ میں افغانستان کی نشست سنبھالنے کی اجازت دی جائے۔ معزول اشرف غنی حکومت کے نمائندے کا اقوام متحدہ میں افغان نشست پر قبضہ برقرار ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی 2022 کی پہلی سہ ماہی میں کابل حکومت کے افغانستان کی نمائندگی کے دعوے کو اٹھائے گی۔اسلام آباد میں ہونے والی غیرمعمولی کانفرنس کا ایک مثبت نتیجہ یہ ہے کہ 22 دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر امریکی سرپرستی میں پیش کردہ ایک قرارداد منظور کی‘ جس کے تحت اقوام متحدہ اور دیگر کو افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد بھیجنے کا اہل بنایا گیا ہے۔ سلامتی کونسل نے کچھ طالبان رہنماؤں اور تنظیموں پر عائد پابندیاں نہیں ہٹائیں لیکن اس نے فنڈز، سامان اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی دیگر اشیا کو براہ راست یا اقوام متحدہ کے ذریعے افغانستان بھیجنا ممکن بنایا ہے۔ محدود بینکنگ روابط کو بھی بیرون ملک سے افغانستان میں رقوم کی منتقلی کی اجازت دی گئی ہے۔ امریکہ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے کے بارے میں امریکی اور دیگر این جی اوز کے لیے ہدایات بھی جاری کی ہیں؛ تاہم، ایک شرط یہ رکھی گئی ہے کہ پابندیوں کے تحت طالبان گروپوں اور رہنماؤں کو انسانی ہمدردی کے نام پر دی گئی امداد کا کنٹرول نہیں ملے گا‘ یہ براہ راست افغانستان کے عوام تک پہنچنی چاہیے۔
اشرف غنی کی حکومت نے کچھ سرکاری فنڈز امریکی بینکوں میں رکھے تھے۔ کابل میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد، امریکی انتظامیہ نے ان بینکوں کو ہدایت کی کہ وہ اس رقم کو منجمد کر دیں ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ ترین قرارداد ان فنڈز پر لاگو نہیں ہوتی۔
عالمی برادری کی جانب سے طالبان حکومت کی عدم قبولیت کا تعلق طالبان کی حکومت کی جانب سے اپنے پالیسی فیصلوں کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرانے میں ناکامی سے ہے کہ وہ کابل پر برسر اقتدار رہنے والی طالبان حکومت (1996-2001) سے مختلف ہے، اور یہ کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرتی ہے، خاص طور پر خواتین کے حقوق کی۔ دوسرے شعبے جن میں طالبان حکومت سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے ان میں تعلیمی اداروں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کی بحالی، اور گروہی و قبائلی عناصر کے ساتھ اقتدار میں اشتراک شامل ہیں۔ طالبان کو اپنے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا اور انہیں ایک ایسے سیاسی نظام کے ساتھ ایک جدید ریاست کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو گروہی اور قبائلی تنوع کا روادار ہو۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس افغانستان کی مدد کیلئے ایک مثبت پہلا قدم تھا۔ کابل میں طالبان کی حکومت کو سخت نظریاتی بلائنڈرز ہٹانے اور سیاسی و سماجی رواداری کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح عالمی برادری کو افغانستان میں نئی حقیقت کو قبول کرنا چاہیے۔ اس سے افغان عوام کو 1980 میں جنگ اور دہشتگردی کا شکار ہونے کے بعد پرامن اور محفوظ زندگی گزارنے میں مدد ملے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved