تاریخِ انسانیت میں بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کارہائے نمایاں سے تاریخ پر غیر معمولی نقوش ثبت کیے۔ ان عظیم شخصیات میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا نام سرفہرست ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی جدوجہد اور ریاضت کے ذریعے جو کردار ادا کیا یقینا وہ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کی صورت میں ہندوؤں کی مکاری اور مسلمانوں کی منتشر حالت کی وجہ سے اس بات کے امکانات معدوم نظر آ رہے تھے کہ مسلمان اپنے سیاسی حقوق کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں ؛ تاہم قائداعظمؒ نے اپنی بصیرت، استدلال، فکر انگیز تقاریر اور غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے نہ صرف یہ کہ سوئی ہوئی مسلمان قوم کو جگایا بلکہ ان کوان کے ہونے کا احساس بھی دلایا۔ قائد اعظمؒ کی مقناطیسی شخصیت نے مسلمانوں کے تمام طبقات کو ان کی قیادت میں جمع کر دیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں سیاسی رہنماؤں، مفکرین، علمائے کرام، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے برصغیر کے طو ل وعرض میں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ قائد اعظمؒ مسلمانانِ ہند کو جگانے کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں نہ صرف یہ کہ مسلسل سفر کرتے رہے بلکہ آپ نے اس جنگ کو ٹیبل پر لڑنے کے لیے بھی غیر معمولی جدوجہد کی۔
25 دسمبر 1876ء کو پیدا ہونے والا یہ غیر معمولی انسان 1913ء سے لے کر 1947ء تک مسلمانانِ ہند کی قیادت کرتا رہا اور اس دوران مختلف قسم کے نشیب و فراز کابطریق احسن مقابلہ کیا۔ قائداعظم نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ رہ کر کبھی بھی اپنے سیاسی حقوق کا دفاع نہیں کرسکتے۔ ان کی فکر انگیز اور سحر انگیز شخصیت کا یہ اثر تھا کہ آپ برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں اترتے چلے گئے۔ قائداعظم کو بہت سے غیر معمولی رفقا کی رفاقت بھی میسر آئی۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور مختلف مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے قائد اعظم کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو پوری طرح وقف کیے رکھا۔ قائد اعظمؒ کے ترکے میں جہاں حب الوطنی، مسلسل جدوجہد اور اپنے مقاصد سے غیر معمولی وابستگی کا درس شامل ہے وہیں قائد اعظمؒ نے ہمارے لیے جدوجہد کی جن راہوں کو متعین کیا ان میں آپ کا ماٹو سرفہرست حیثیت رکھتا ہے۔ قائد اعظم نے ایمان، اتحاد اور تنظیم کا درس دے کر مسلمانانِ ہند کے لیے جن راہوں کو متعین کیا ان راہوں پر عمل پیرا ہو کر یقینا پاکستان کے مسلمان ترقی اور استحکام کی تمام منازل کو بطریق احسن طے کرنے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں۔ جب ہم قائد اعظم کے اس فرمان پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ نے اس فرمان کو صرف اپنے مشاہدے اور بصیرت کی روشنی میں طے نہیں کیا بلکہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے بھی آپ نے اس حوالے سے رہنمائی حاصل کی۔جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان تین نکات کے بارے میں ہمیں غیر معمولی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ جب ہم ان نکات کا کتاب وسنت کی روشنی میں تجزیہ کریں تو بہت ہی قیمتی اور بیش بہا معلومات سامنے آتی ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔ ایمان: اسلام کی بنیاد ایمان بالغیب پر ہے اور ہر مسلمان اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت، اس کی نازل کردہ کتابوں، اس کے بھیجے ہوئے انبیاء، اس کے ملائکہ اور یومِ جزا پر یقین رکھتا ہے۔ تقدیر کے فیصلوں کو بھی ہر مسلمان بسر وچشم قبول کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ایمان کی اہمیت اور فوائد کے حوالے سے بہت سی باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیات 2 تا 5 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''(یہ) وہ کتاب ہے‘ کوئی شک نہیں‘ اس میں پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور وہ نماز قائم کرتے ہیں اور اس سے جو ہم نے انہیں رزق دیا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا آپ کی طرف اور جو نازل کیا گیا آپ سے پہلے اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ وہی لوگ ہدایت پر ہیں اپنے رب کی طرف سے اور وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ عصر میں جب کامیاب لوگوں کے اوصاف بیان کیے تو ایمان کا سب سے پہلے ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ عصر میں ارشاد فرماتے ہیں: ''قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو وصیت کی (تلقین) کی حق (بات) کی اور ایک دوسرے کو وصیت (تلقین) کی صبر کی‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان او راہلِ تقویٰ کو اپنا ولی قرار دے کر ان کو خوف اور غم سے آزادی کی نوید بھی سنائی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ یونس کی آیات 62 تا 63میں ارشاد فرماتے ہیں: ''خبردار! بے شک اولیا اللہ‘ نہ کوئی خوف ہو گا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ ڈرتے تھے (اللہ سے)‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایمان اور تقویٰ کے حوالے سے بستیوں پر کھلنے والی خیر وبرکات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 96میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے (تو) ضرور ہم کھول دیتے اُن پر برکتیں آسمان سے اور زمین سے لیکن اُنہوں نے جھٹلایا تو ہم نے پکڑ لیا اُنہیں اس وجہ سے جو تھے وہ کمایا کرتے تھے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کا بھی ذکر کیا کہ آپ نے اپنی قوم کے لوگوں کو اس بات کی نوید سنائی تھی کہ جو لوگ ایمان میں ظلم کی آمیزش نہیں کرتے اللہ تبارک وتعالیٰ نے امن اور ہدایت کو ان کے مقدر میں رکھ دیا ہے۔ سورہ انعام کی آیت نمبر 82 میں ارشاد ہوا: 'جولوگ ایمان لائے اور نہیں مخلوط کیا اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے وہی ہیں (کہ) ان کے لیے ہی امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں‘‘۔
2۔ اتحاد: ایمان کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت میں اتحاد کے حوالے سے بھی بیش قیمت رہنمائی ملتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ جب بھی کوئی قوم کسی کاز کے لیے متحد ہو جاتی ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی غیر معمولی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے بڑی بڑی اقوام کے غرور اور عروج کو توڑ کر رکھ دیا اور پوری دنیا پر اسلام کے پرچم کو لہرا دیا۔ قرآن مجید سے بھی اتحاد کے حوالے سے بڑی خوبصورت رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر103 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو سب (مل کر )اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘۔ اسی طرح قرآنِ مجید کا مطالعہ ہمیں یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ جب کوئی قوم انتشار کا شکار ہو جاتی ہے تو ان کے رعب اور دبدبے میں کمی واقعہ ہو جاتی ہے اور ان کی ہوا کھڑا جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 46میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور مت آپس میں جھگڑو، ورنہ تم کم ہمت ہو جاؤ گے اور جاتی رہے گی تمہاری ہوا (رعب)‘‘۔
3۔ تنظیم : اسلام جہاں ہمیں ایمان اور اتحاد کا سبق دیتا ہے وہیں ہمیں تنظیم کا بھی درس دیتا ہے۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے محبت اور اپنے اساتذہ اور والدین کی باتوں کو تسلیم کرنا، یقینا یہ تمام باتیں تنظیم میں شامل ہیں۔ اسلام میں حقوق وفرائض کے باب میں جتنی تعلیمات دی گئی ہیں درحقیقت وہ ایک منظم معاشرے کی تشکیل کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ ہمسایوں، رشتہ داروں، شہریوں کے حقوق کے بیان کا مقصد درحقیقت ایک منظم معاشرے کو تشکیل دینا ہے۔ جب ہم نماز پر غور کرتے ہیں تو اس میں بھی بڑا واضح طور پر تنظیم نظر آتی ہے۔ صف بندی میں بھی تنظیم کا پیغام بڑے خوبصورت انداز میں نظر آتا ہے۔ نماز باجماعت اور وقت مقررہ پر نماز کی ادائیگی ہمیں پانچ وقت دن میں تنظیم کا سبق دیتی ہے۔ اسلام کی جملہ عبادات میں ہم تنظیم کے رنگ کو نہایت احسن طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔ عمرے اور حج کے موقع پر ایک ہی طرح کے الفاظ، ایک ہی طرح کا احرام، ایک ہی جہت میں چکر لگاتے ہوئے اور ایک ہی سمت میں آگے بڑھتے ہوئے اپنے مناسک کو انجام دینا، اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادات کو بجالانا درحقیقت تنظیم کا سبق ہے۔میدانِ جہاد میں بھی ایمان اور اتحاد کے ساتھ ساتھ کامیابی کے لیے تنظیم انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ صف کی آیات 4 تا 5میں ارشاد فرماتے ہیں: ''گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔ بلاشبہ اللہ محبت کرتا ہے (اُن لوگوں سے)جو لڑتے ہیں اُس کے راستے میں صف باندھ کر‘‘۔
ہماری قومی زندگی کی ترقی اور استحکام کے لیے آج پھر قائد اعظم کے اس عظیم فرمان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ایک کثیر القومی ریاست ہونے کے ناتے پاکستان کو ترقی کے راستے پر چلانے کے لیے ایمان کی بنیادپر سندھی، پٹھان، بلوچ اور پنجابی کے اختلاف کو مٹایا جا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر ان کو اتحاد اور تنظیم کا سبق بھی دیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم قائد اعظم کے اس عظیم الشان فرمان پر عمل کریں تو نہ صرف یہ کہ پاکستان بحرانوں پر قابو پانے کے قابل ہو سکتا ہے بلکہ آنے والے وقت میں ایک مستحکم ریاست کی حیثیت سے دنیا کی قیادت کے فریضے کو بھی انجام دے سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں قائد اعظم کے اس عظیم فرمان پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین !