تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-12-2021

تنظیمِ نو یا نقشِ کہن

یہ تنظیم نو ہے یا نقش کہن؟ خیبر پختونخوا میں علاقائی دھڑے بندیوں اور کمزور انتظامی و تنظیمی گرفت کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اگرچہ تاویلیں کرنے والے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر اب بھی خوش فہمی کا شکار ہیں؛ تاہم اس ناکامی کا سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کو دو ماہ قبل سے اندازہ تھا۔ حکومت صرف عہدہ سنبھالنے سے نہیں کی جاتی‘ اس کیلئے کان اور آنکھیں کھلی رکھنا پڑتی ہیں۔ کے پی کے بلدیاتی انتخابات سے دو ماہ پہلے اگر تحصیل اور ضلع کی سطح پر پارٹی کی تنظیمی کمیٹیوں اور ان کے تمام عہدیداران کو بلا کر سب سے رائے لے لی جاتی تو نہ صرف اس شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا بلکہ یہ کہنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی کہ غلط امیدواروں کی وجہ سے ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب میں میاں نواز شریف اپنی وزارتِ عالیہ اور اس کے بعد مرکز میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدوں پر بھی‘ پنجاب کی سپیشل برانچ سے انتہائی مفید سیاسی کام لیا کرتے تھے۔ پنجاب کے سیاسی خاندانوں اور اس کی سیاست کا کونہ کونہ وہ ایسے ہی ادارے سے معلوم کرتے تھے۔ اگر عمران خان خیبر پختونخوا کی سپیشل برانچ کوا عتماد میں لیتے ہوئے اپنے تئیں اپنی جماعت کی ہر قصبے‘ ہر گائوں‘ ہر تحصیل اور تمام اضلاع میں صورتِ حال کا جائزہ لیتے اور آپس کی دھڑے بندیوں کی جامع رپورٹس سامنے رکھ کر فیصلے کرتے تو ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ بہتر ہو سکتا تھا لیکن کسی نے بھی گھر کے اندر آئے روز ہونے والی دھینگا مشتی کی جانب دھیان نہیں دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی ہی ایک دوسرے کے مقابل کیمپوں کیلئے ووٹ مانگتی رہی۔ اگر ضلعی نشست کیلئے ایک خاندان اور دھڑے کے لوگ تھے تو مقابلے میں حکمران جماعت کی ہی دوسری برادریوں اور دھڑوں کے لوگ کھڑے تھے۔ اس کے کئی اراکین اسمبلی کئی ماہ پیشتر اپنا قبلہ تبدیل کر چکے تھے جن کی چیئرمین تحریک انصاف کو خبر ہی نہ ہو سکی حالانکہ بار بار ایسی خبریں اسلام آباد پہنچائی جاتی رہیں لیکن کسی نے ان پر دھیان نہیں دیا۔
پنجاب میں گورنرہائوس اور ایوانِ وزیراعلیٰ مبینہ طور پر ایک دوسرے کے مقابل تنے کھڑے ہیں۔ 23 دسمبر کو پنجاب میں جو کچھ ہوا‘ اس سے متعلق سرکاری حلقے بھلے یہ کہتے رہیں کہ وزیراعظم عمران خان کا اوور سیز پاکستانیوں سے متعلق لاہور کے گورنر ہائوس میں ہونے والا اجلاس سکیورٹی وجوہات پر ملتوی کیا گیا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ پنجاب کے دو ''بڑوں‘‘ کی باہمی چپقلش تھی۔ شنید ہے کہ وزیراعظم کو شکایت کی گئی تھی کہ اس کنونشن میں ایسے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو بلایا جا رہا ہے جو پارٹی کے ہی کچھ لوگوں کی ہدایات پر پنجاب حکومت کے خلاف مہم چلانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ پارٹی کی یہ باہمی چپقلش اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس کی کہانیاں اب زبان زد عام ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے مایوس کن نتائج کے بعد خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی تنظیم نو کیلئے پرویز خٹک کو آگے لایا گیا ہے اور پنجاب میں تحریک انصاف کی قیادت شفقت محمود کے سپرد کی گئی ہے جبکہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری اسد عمر کے سپرد کی گئی ہے۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ اب سے نہیں‘ ابتدا سے پنجاب میں 'حامد خان گروپ‘ کو 'ترین گروپ‘ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور لاہور میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں اس کے خلاف باقاعدہ تقاریر کی جاتی تھیں۔ ممکن ہے کہ خان صاحب کا خیال ہو کہ شفقت محمود کسی گروپ سے تعلق نہیں رکھتے اس لیے پنجاب میں وہ سب کیلئے قابلِ قبول ہوں گے‘ خدا کرے کہ ان کا اندازہ درست ہو اور جو انہوں نے سوچا ہے‘ ویسا ہی ہو لیکن بظاہر جو حالات نظر آ رہے ہیں‘ وہ ایسا ہونے کی خبر نہیں دے رہے۔ شفقت محمود صاحب کی انتظامی قابلیت کے بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ ان کی ملنساری ان کا طرۂ امتیاز ہے لیکن میرا تجزیہ یہ ہے کہ وہ عوامی سطح پر کسی بھی قسم کے رابطوں تک نہیں جا سکیں گے۔ سیاسی کارکنوں کو اپنے دل کے قریب کرنا اور انہیں عزت و احترام دینا بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ صحیح صورتحال کو جانچنے کے لیے نچلی ترین سطح پر رابطہ ان کیلئے ممکن نہ ہو گا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہمارے ملک کی سیاست میں زندہ اور کامیاب رہنے کیلئے کسی بھی سیاسی شخصیت کا اپنی جماعت کے کارکنوں کے مسائل تک پہنچنا‘ ان کی باتیں سننا‘ ان کے مسائل پر توجہ دینا بہت بڑی خوبی شمار کی جاتی ہے۔ چودھری برادران کی کامیابی کا یہی راز ہے اور یہ خوبی انہیں چودھری ظہور الٰہی سے ورثے میں ملی ہے۔ وہ اپنے حامیوں‘ ہمدردوں اور چاہنے والوں کو ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے بے وفائی کرنے والے ہمہ وقت شرمندہ شرمندہ سے رہتے ہیں۔
اگرچہ شفقت محمود تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہ چکے ہیں اور اس دوران ان کا میڈیا سے بھرپور رابطہ رہا کرتا تھا لیکن جیسے ہی انہوں نے یہ عہدہ چھوڑا‘ تحریک انصاف کا اطلاعات کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہو گیا۔ اس وقت سرکاری ٹی وی پر بھی بھاری معاوضوں پر ایسے لوگ بٹھا دیے گئے ہیں جن کا پارٹی کی دہائیوں پر مشتمل سیاسی جدوجہد میں کہیں نام تک نہیں بلکہ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو ہوائوں کا بدلتا رخ دیکھ کر ہی اپنے پر تولنے لگتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ ایسے افراد کو دیکھ دیکھ کر سوچتے ہیں کہ ان میں سے ایک بھی وزیراعظم یا پارٹی کا دل سے حامی نہیں۔ ان افراد کی نجی گفتگو یہ بتانے کیلئے کافی ہوتی ہے کہ وہ کیسے خیالات اور جذبات رکھتے ہیں لیکن کمال ہے جو ایوانِ وزیراعظم کو اس کی ہلکی سی خبر بھی مل رہی ہو۔ تحریک انصاف کا شعبۂ اطلاعات شفقت محمود صاحب کے لیے گراں بار ثابت ہو رہا تھا‘ اب پنجاب میں پارٹی کی بھاری بھر کم صدارت وہ کس طرح چلائیں گے‘ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس سوال کا جواب میں آنے والے وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد سے شفقت محمود کو بار بار وزارتِ اطلاعات کیلئے درخواستیں کی جاتی رہیں لیکن وہ ہمیشہ اس سے بھاگتے رہے حالانکہ اگر وہ یہ قبول کر لیتے تو اس سے تحریک انصاف کا کچھ بھلا ہی ہوتا کیونکہ وہ سرکاری معاملات کی سب سے بہترین خبر رکھنے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ کون فصلی بٹیرے ہیں اور کون پندرہ‘ بیس برس سے تمام پابندیاں اور سختیاں برداشت کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے۔
پنجاب جیسے پیچیدہ اور بڑے بڑے سیا سی گھرانوں پر مشتمل صوبہ کسی ایسی شخصیت کے بس کی بات نہیں لگ رہا جو تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے سے اپنی جان چھڑوا لے؛ تاہم شفقت محمود کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ عہدہ ان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود انہیں سونپا گیا ہوگا کیونکہ وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اس عہدے سے انصاف نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی ان کے پاس اتنا وقت ہو گا کہ از سر نو تنظیمی معاملات کا جائزہ لیں اور نچلی ترین سطح تک روابط قائم کریں۔ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اعتراض کرنے والوں سے الٹا یہ سوال کر دیا جائے کہ اگر وہ اس عہدہ کے لیے مناسب نہیں تو بتائو ان کے علاوہ اس نشست کیلئے کون مناسب ہے؟
کے پی میں پارٹی کی اندرونی لڑائیوں اور چپقلش کا نتیجہ بلدیاتی الیکشن میں دیکھنے کے بعد ایک مرتبہ پھر پرویز خٹک کو اس صوبے کی سیاسی قیادت سونپ دی گئی ہے۔ بے شک وہ سیا سی جوڑ توڑ کے ماہر مانے جاتے ہیں لیکن کیا خیبر پختونخوا کی دھڑے بندیوں میں ان کا عمل دخل نہیں ہے؟ صوبائی سیاست کے تمام اختیارات انہیں سونپ دینے سے دھڑے بندیاں اور جماعتی عہدیداروں کی آپس کی رنجش اور چپقلش مزید بڑھنے کے خدشات ہیں۔ سندھ میں سید علی حیدر زیدی اور بلوچستان میں قاسم سوری کی عمران خان اور تحریک انصاف سے وفاداری اپنی جگہ لیکن ان مشکل حالات میں ان کیلئے بہتری کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved