تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     28-12-2021

’’پرشین پائپ لائن ‘‘

موجودہ حکومت کے خلاف جس طرح ایل این جی اور گیس معاہدوں پر اپوزیشن کی سرخیل نواز لیگ تنقید اور الزام تراشیوں کا طوفان اٹھائے ہوئے ہے‘ اسے اگر الزامات کی حد تک ہی دیکھا جائے تو قطعاً درست نہیں ہو گا۔اب تو میاں شہباز شریف بھی حکومت کا گریبان پکڑنے کی بات کر رہے ہیں‘ ایسے میں سوچا جا سکتا ہے کہ شاید ان کے پاس اس ضمن میں حکومت کی کرپشن کے ٹھوس اور واضح ثبوت موجود ہوں۔ اس و قت چونکہ سردی کی شدت کی وجہ سے کراچی سے خیر تک سب کو گیس کی ضرورت ہے مگر ملک بھر میں گیس کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کیلئے کراچی کے لوگ سڑکوں پرسراپا احتجاج بھی نظر آئے۔ گیس اور ایل این جی کی کہانی ویسے تو بہت پرانی ہے لیکن جس طرح نواز لیگ نے اس قصے کو اٹھانا شروع کیاہے‘ اس حربے پر گوئبلز کا وہ جملہ یاد آ گیا ہے کہ جھوٹ اس قدر سر چڑھ کر بولا جائے کہ اسے گھڑنے والا انسان بھی اس پر یقین کرنے لگے ۔
گیس کی کمی کے ساتھ ہی ایل این جی اور گیس کے سودوں پرپچھلے دو ماہ سے الزامات کے وہ انبار لگ رہے ہیں کہ اب ہر طرف سے ان سودوں پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔توانائی کے حصول کے ذرائع‘ جن میں گیس اور ایل این جی شامل ہیں‘ کے جھگڑے اور جھمیلوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ حقیقت ماننا ہو گی کہ گیس کے نئے ذخیرے نہ ملنے اور پرانے ذخائرکی مدت ختم ہونے کے قریب آنے پر اب وہ حالات پیدا ہو چکے ہیں جس سے پاکستان کیلئے ایل این جی کی اہمیت دوچند ہو تے ہوتے اب ناگزیرحیثیت اختیار کر چکی ہے۔ بد قسمتی ہمارے ملک اورا س کے عوام کی یہ ہے کہ ہماری ضروریات کیلئے لازمی اشیا کی فراہمی کی آڑ میں اپنے مفادات کو مقدم رکھا جاتا ہے اور دور کی منزلوں کے علاوہ مہنگے داموں کا بوجھ عوام پر لاد دیا جاتا ہے۔ چاہے یہ بجلی کے معاہدوں ہوں یا گیس اور ایل این جی سمیت آٹے اور چینی کے مقامی اور بین الاقوامی سود ے۔ ملک کی صنعتوں کو چلانے کیلئے گیس جیسی سستی توانائی کو سی این جی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جس کسی نے بھی یہ فیصلہ کیا تھا‘ اس نے اس ملک وقوم پر ناقابل معافی ظلم کیا۔ دوسری جانب سب سے پہلے مسلم لیگ نواز کے دورِ حکومت میں ہی ایران سے گیس پائپ لائن کے بجائے قطر سے ایل این جی کا کاروبار بڑھانے کا فیصلہ ہوا تھا اور یہ فیصلہ مسلم لیگ نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی کر لیا تھا جس کا اعتراف مسلم لیگ نواز کے رہنما مفتاح اسماعیل اپنے ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران کر چکے ہیں۔
وزیر توانائی حماد اظہر سے گورنر ہائوس لاہورمیں ہونے والی ایک خصوصی نشست کے حوالے سے گزشتہ دنوں لکھے گئے اپنے کالم میںوعدہ کیا تھا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا تصور دینے والے پاکستانی انجینئر سے متعلق جلد لکھوں گا، سو‘ ایران سے پاکستان تک گیس پائپ لائن کی کہانی1950ء میں اس وقت شروع ہوئی جب ملٹری کالج آف انجینئرنگ رسالپور کے ایک ذہین پاکستانی سول انجینئر ملک آفتاب احمد خان نے ''پرشین پائپ لائن‘‘ کے نام سے ایران سے گیس لانے کا ایک منصوبہ پیش کیا۔ جب یہ مضمون سامنے آیا تواس وقت اسے بہت پذیرائی ملی۔ ملک آفتاب کی یہ تحریر ایران اور پاکستان کے سرکاری ریکارڈ کا حصہ بھی بن گئی لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے اس پر کسی بھی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک پاکستان میں گیس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ 1952ء میں بلوچستان میں سوئی کے مقام پر گیس کی تلاش شروع ہوئی اور1955ء میں پہلی بار پاکستان میں کمرشل بنیادوں پر گیس نکالنے کا کام شروع ہو ا جس سے عوام گیس کے نام سے متعارف ہوئے لیکن ابتدائی طور پر یہ مقدار بہت کم تھی اور اس وقت تک اس کا استعمال بھی کم تھا۔ البتہ چار دہائیوں بعد‘ انجینئر ملک آفتاب کا تجویز کیا گیا منصوبہ پرانی فائلیں جھاڑ کا باہر نکالا گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے اور آخری دورِ حکومت‘ 1995ء میں ایران اور پاکستان نے گیس پائپ لائن بچھانے کے اس معاہدے پر ابتدائی طور پر باہمی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کیے۔ بین الاقوامی قرضوں کے بوجھ اور امن و امان کے خراب صورتحال کے بعد پاکستان کو اگر کسی بڑے مسئلے کا اس وقت سامنا ہے تووہ توانائی کا بحران ہے۔ ایران گیس پائپ لائن سے بے اعتنائی کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک اس منصوبے کے زبردست مخالف ہیں، حالانکہ دوسری طرف چین، روس اور ایران اس منصوبے کے زبردست حامی ہیں۔ 2700کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن‘ جو ایران کی گیس فیلڈ پارس سے شروع ہو نا تھی‘ کو مجوزہ طور پر ایران میں گیارہ سو کلومیٹر اور پاکستان میں ایک ہزار کلومیٹر طویل ہونا تھا۔ جب بھارت کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا گیا تو چھ سو کلومیٹر گیس پائپ لائن بھارتی علاقے سے گزرنے کا پلان بنایا گیا۔ اگست2008ء میں بھارت کو ایک طرف کرتے ہوئے چین نے اس منصوبے کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی توامریکا مزید سیخ پا ہو گیا۔
گیس پائپ لائن کے ابتدائی منصوبے کی کل لاگت کا تخمینہ اس وقت سات بلین ڈالر کے قریب تھا اور یہ پائپ لائن42 سے پچاس انچ ڈایا میٹرکی تھی جس پر پاکستان کے اخراجات کا تخمینہ3.2 بلین ڈالر تھا پاکستان نے اپنی تنگ معاشی حالت کی وجہ سے اس قدر بھاری رقم کی فراہمی سے معذرت ظاہر کی تو 30 مارچ2010ء کو چین نے آگے بڑھتے ہوئے اس منصوبے کیلئے کثیر رقم دینے کی ہامی بھرلی اور اس منصوبے میں باقاعدہ شامل ہونے کی خواہش کا سرکاری طور پر اظہار بھی کر دیا۔اس کے بعد 7 اپریل 2012ء کو روس نے بھی اس گیس منصوبے میں دلچسپی لیتے ہوئے پاکستان کو مکمل بیل آئوٹ پیکیج کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ روس کی سب سے بڑی گیس کمپنی Gazprom کی معاونت سے پاکستان کو در پیش تمام ٹیکنیکل اور فنانشل اخراجات برداشت کیے جائیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ایران سے گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ ہی نومبر 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کی وجہ بنا تھا۔ امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے دورۂ پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ امریکا ایران سے گیس منصوبے کی اجا زت نہیں دے گا۔ 2010ء میں ہی امریکا نے پاکستان پر اس پروجیکٹ سے مکمل علیحدگی کے لیے دبائو ڈالنا شروع کر دیا تھا اور اس کے بدلے پیشکش کی کہ امریکا پاکستان کو ایل این جی ٹرمینل کے علاوہ تاجکستان سے براستہ افغانستان سستی بجلی اور گیس مہیا کرادے گا۔ دوسری طرف ایک خلیجی ملک کے نائب وزیر خارجہ نے15اپریل 2012ء کو پاکستان کو پیشکش کی کہ ایران سے گیس کے بدلے وہ پرائیویٹ کیش لون اور تیل کی سہولت پاکستان کو مہیا کریں گے۔ اس پر یکم مئی 2012ء کو اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے واضح کیا کہ پاکستان اس منصوبے سے ہاتھ نہیں کھینچے گا۔آج کی عملی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ نجانے وہ وقت کب آئے گا جب اپنا گھر اور معیشت بچانے کیلئے ایران سے گیس کی سپلائی لائن کا کام جلد از جلد مکمل کیا جائے گا۔لگ بھگ پانچ برس پہلے ''ایل این جی اور گیس‘‘کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں اربابِ اختیار کو وارننگ دیتے ہوئے لکھا تھاکہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی گیس اور توانائی کی ضروریات بڑھتی رہیں گی اور ہماری آنے والی نسلیں‘ اُس وقت اس منصوبے کو مکمل نہ کرنے پر امریکا اور اس کے حواریوں کو کوسیں گی۔
پلان کے مطابق ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ دسمبر 2015ء میں مکمل ہو نا تھااور اس کی تکمیل کے ابتدائی چند ماہ کے بعد پاکستان کو اس منصوبے سے پچیس سال تک 750 ملین کیوبک فٹ گیس ملنے کا امکان تھا مگر اس منصوبے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایل این جی جیسے قدرے مہنگے توانائی کے ذریعے کے خواب دکھائے گئے اور پھر مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے ''احتساب الرحمن‘‘ جیسے ایل این جی کے بیوپاری اس منصوبے کی راہ میں دیوار بن گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved